بیع سلم اور غرر میں فرق کا شرعی جائزہ
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

بیع سلم اور غرر (غرر سے مراد ہر وہ معاملہ ہے جس کا انجام معلوم نہ ہو) کے درمیان فرق

سوال: کچھ فارموں کے مالکان مثال کے طور پر کھجور کے پچاس (چھوٹے) پودے پچاس ہزار میں خرید لیتے ہیں اور ان کی نوعیت یا حجم کی تعین نہیں کرتے لیکن یہ شرط لگاتے ہیں کہ جب تک وہ اپنے پچاس لے نہ لے تب تک کچھ بھی نہ بیچے۔
جواب: جب کوئی آدمی کسی سے کھجور کا (چھوٹا) پودا خریدتا ہے تو بلاشبہ اس کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم: اس سے وہ پودے خرید لے جبکہ وہ حاضر نہ ہوں لیکن موصوف ہوں اور ان کی ادائی واجب الذمہ ہو، یعنی قیمت پیشگی وصول کر لی گئی ہو، اس صورت میں نوعیت، کمیت اور حجم کی تعیین ضروری ہے کیونکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
”جو کسی چیز میں بیع سلم کرتا ہے تو وہ مقرر ماپ تول اور معینہ مدت تک کرے۔“ [سنن الترمذي، رقم الحديث 1311]
مثال کے طور پر وہ کہتا ہے کہ میں نے تجھ سے اتنے درہموں کے بدلے سکری کھجور کے سو پودے خریدے۔
دوسری قسم: اگر وہ متعین ہو، یعنی حاضر ہو، موصوف نہ ہو، مثلا کہتا ہے: میں نے تجھ سے اس قطار کا پودا خریدا۔ یہاں اس پودے کی تعیین ضروری ہے۔ محض اس کے اوصاف بیان کرنا درست نہیں ہوگا، بلکہ کہے: یہ دس پودے۔ ان کی تعیین کرے، اور ان کا جو معروف نام ہے وہ لے، اگر اس طرح نہ ہو تو پھر وہ مجہول ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکے کی بیع سے منع فرمایا ہے۔“ [صحيح مسلم 1513/4]
[ابن عثيمين: لقاء الباب مفتوح: 16/12]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے