بچپن میں کیے گئے نکاح کا حکم حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

میرے والد نے میری بہن کا نکاح اپنے کسی عزیز سے کر دیا تھا، جبکہ میری بہن اتنی کمسن تھی کہ اس کو اپنے نکاح کا ہونا بالکل یاد نہیں، تقریباً دو ماہ کی عمر تھی۔ بالغ ہونے کے بعد میری بہن کو جب معلوم ہوا کہ اس کا نکاح اس کے والد نے فلاں آدمی سے کیا ہوا ہے تو اس نے نکاح کو قائم رکھنے سے انکار کر دیا۔ اب وہ اس آدمی سے نکاح نہیں رکھنا چاہتی ، لہذا کتاب وسنت کی رو سے وضاحت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔

جواب :

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے، سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”بیوہ کا نکاح اس کی مرضی حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح اس کا اذن (اجازت) حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے ۔“ کہا گیا: ”اس کا اذن کیا ہے اے اللہ کے رسول !؟“ آپ نے فرمایا: ”چپ رہنا اس کا اذن ہے ! (کیونکہ وہ شرم کے مارے بولتی نہیں) ۔“
بخاري، كتاب النكاح، باب لا ينكح الأب وغيره البكر والكتيب إلا برضاهما (5136) مسلم، كتاب النكاح، باب استئذان الشيب في النكاح بالنطق والبكر بالسكوت (1419)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بالغہ لڑکی سے اس کے نکاح کی اجازت لی جاتی ہے اور جب وہ نابالغہ ہوتی ہے تو بچپن میں اس سے اجازت نہیں لی جاتی۔ اس کا ولی نکاح کر سکتا ہے لیکن بعد از بلوغت اس لڑکی کو اختیار ہوتا ہے، اس کا حق ہے، وہ اپنا نکاح اگر منسوخ کرانا چاہے تو کرا سکتی ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ”ایک کنواری لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور بیان کیا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کیا ہے اور وہ ناپسند کرتی ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا۔“
ابو داؤد كتاب النكاح، باب في البكر يزوجها أبوها ولا يستأمرها (3306)، ابن ماجه، أبواب النكاح، باب من زوج ابنته وهي كارهة (1874)
علامہ احمد حسن دہلوی رحمہ اللہ راقم ہیں:
”یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ باپ کے لیے حرام ہے کہ وہ اپنی کنواری بیٹی کو نکاح پر مجبور کرے، تو باپ کے علاوہ لڑکی کے اولیاء (دیگر رشتہ داروں ) کے جبر کی بالا و ممانعت ہے ۔ “تنقيح الرواة (10/3)
مذکورہ صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ لڑکی کو بالغ ہو جانے کے بعد اختیار حاصل ہے، وہ اپنا بچپن کا کیا ہوا نکاح فسخ کراسکتی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے