ایک مجلس کی تین طلاق کا شرعی حکم قرآن و حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

ایک آدمی نے اپنی بیوی کو عرصہ سات سال قبل اکٹھی ایک ہی دفعہ تین طلاقیں دے دیں پھر اس آدمی نے دوسری عورت سے نکاح کر لیا اور کچھ عرصہ بعد اسے بھی طلاق دے ڈالی۔ اب یہ شخص اپنی پہلی مطلقہ عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے، کیا شریعت اسلامیہ میں اس کی گنجائش موجود ہے؟

جواب :

ایک مجلس میں ایک سے زیادہ دی گئی طلاقیں ایک طلاق رجعی کے حکم میں ہیں، خواہ وہ طلاقیں زبانی کلامی دی ہوں یا تحریری، ایک پیپر پر ہوں یا مختلف۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے حدیث ہے:
كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر، طلاق الثلاث واحدة
مسلم، كتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث (1472)
”نبی کریم صلى الله عليه وسلم اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور مبارک اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں (اکٹھی) تین طلاقیں ایک طلاق ہوتی تھی۔ یہ حدیث صحیح مسلم، مستدرک حاکم (197/2، ح : 2793)، مسند احمد (314/1، ح : 2877، فتح الباری اور دار قطنی (36/3، ح : 3961) وغیرہ کتب احادیث میں موجود ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عہد رسالت مآب صلى الله عليه وسلم میں تین طلاقیں یک بارگی ایک طلاق ہوتی تھیں اور مسند احمد (355/5، ح : 23286) میں حدیث رکانہ رضی اللہ عنہ وہ بھی اس مسئلہ پر واضح نص ہے، جس میں تاویل کی گنجائش نہیں ہے، جیسا کہ فتح الباری میں مرقوم ہے۔ لہٰذا سائل کی ایک طلاق واقع ہو چکی ہے۔ چونکہ اس طلاق کے بعد سات سال بیت چکے ہیں، لہٰذا اب نکاح جدید ہوگا، جیسا کہ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ کو طلاق ہوئی اور عدت گزر گئی، پھر وہ دونوں باہمی رضا مندی سے نکاح کرنا چاہتے تھے، لیکن معقل رضی اللہ عنہ جو اپنی مطلقہ بہن کے ولی تھے، نکاح کرنے پر رضامند نہ ہوئے، جیسا کہ صحیح بخاری اور تفسیر نسائی وغیرہ کتب احادیث میں موجود ہے، تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی:
﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ﴾
(البقرة : 232)
”اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو پھر وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انھیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو، جب وہ باہم اچھے طریقے سے راضی ہو جائیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں رجعی طلاقوں کے اندر اختتام عدت کے بعد نئے نکاح کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔
لہٰذا مذکورہ صورت میں مرد اپنی پہلی مطلقہ عورت سے نیا نکاح کر کے اپنا گھر آباد کر سکتا ہے، کسی قسم کے حلالے کی حاجت نہیں، ملالہ از روئے شرع حرام اور لعنتی محل ہے، جس پر کئی ایک صحیح اور صریح احادیث دلالت کرتی ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے