ولی کی اجازت کے بغیر نکاح
سوال : ولی کے بغیر نکاح کی کیا شرعی حیثیت ہے اگر کوئی عورت خود اپنا کا نکاح کر لے تو کیا وہ نکاح ہو جائے گا؟
جواب : اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو بدکاری، فحاشی، عریانی اور بے حیائی سے محفوظ رکھنے کے لئے نکاح کا حکم دیا ہے۔ شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہے، وہ اسے راہ راست سے ہٹانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ موجودہ معاشرہ میں بھی امت مسلمہ میں بدکاری و فحاشی کو عروج دینے کے لیے مختلف یہودی ادارے، ان کے متبعین اور آزادی نسواں کے نام پر کئی انجمنیں اور ادارے بنا کر مسلمان ممالک میں فحاشی اور بے حیائی کے فروغ میں منہمک ہیں۔ یہ لوگ یورپ کی طرح مسلمان معاشرے کو بھی آلودہ کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس جرم سے بچانے کے لیے اور آنکھ اور شرمگاہ کی حفاظت کے لیے مسلم مرد و زن کے لیے نکاح کی بڑی اہمیت بیان کی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
« وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ »
”تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں جو صالح ہوں ان کے نکاح کردو، اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے گا۔ اللہ بڑی وسعت والا اور علم والا ہے۔“
دوسری آیت میں فرمایا :
« وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ» [النور : 33]
”اور جو نکاح کا موقع نہ پائیں انہیں چاہیے کہ عفت مآبی اختیار کریں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے۔“
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کا حکم بیان کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ جنھیں نکاح کی استطاعت نہ ہو وہ اپنے آپ کو پاک و صاف رکھیں اور بدکاری و زنا سے بچے رہیں۔ اس کی مزید تشریح اس حدیث سے ہوتی ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«يا معشر الشباب، من استطاع منكم الباءة فليتزوج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء» [بخاري، كتاب النكا ح : باب قول النبى من استطاع منكم الباءة 5065، 1905]
”اے نوجوانوں کی جماعت ! تم میں سے جو شخص اسباب نکاح کی طاقت رکھتا ہو، وہ نکاح کر لے کیونکہ یہ نگاہ کو نیچا اور شرمگاہ کو محفوظ رکھتا ہے اور جو اس کی استطاعت نہ رکھے وہ روزے رکھے کیونکہ روزے بندے کی طبیعت کا جوش ٹھنڈا کر دیتے ہیں۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«النكاح من سنتي فمن لم يعمل بسنتي فليس مني » [ابن ماجه كتاب النكاح باب ما جاء فى فضل النكاح 1846]
نکاح کرنا میری سنت ہے جس نے میری سنت پر عمل نہ کیا وہ مجھ سے نہیں۔
اسی طرح قرآن مجید میں نکاح کو سکون اور محبت و رحمت کا باعث قرار دیا گیا ہے اور کہیں محصنین غیر مصافحین کہہ کر بدکاری سے اجتناب کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا بدکاری اور زنا کاری سے بچنے کے لیے ہمیں نکاح جیسے اہم کام کو سرانجام دینا چاہیے اور اس کے لیے طریقہ کار رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ احکامات سے لینا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے جو اصول و ضوابط ذکر فرمائے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ لڑکی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کرے۔ اگر لڑکی اپنی مرضی سے گھر سے فرار اختیار کر کے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکا ح کر لیتی ہے تو ایسا نکا ح باطل قرار پاتا ہے۔ عورت کے اولیاء کی اجازت کے مسئلے میں کتاب و سنت سے دلائل درج ہیں :
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
« وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ » [البقرة : 221]
”اور (اپنی بیٹیاں) مشرکین کے نکاح میں نہ دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں اور البتہ مومن غلام مشرک سے بہتر ہے اگرچہ وہ اچھا لگے۔“
اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«فى هٰذه الآية دليل بالنص علٰي ان لا نكاح الا بولي» [تفسير قرطبي 49/3]
”یہ آیت اس بارے میں نص ہے کہ ولی کے بغیر نکا ح نہیں۔“
اور ایک آیت میں ہے :
« وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ» [البقرة 232]
”اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں ان کے خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے نہ روکو، جب وہ آپس میں اچھے طریقے سے راضی ہو جائیں۔“
اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ ایک صحابی اپنی بہن کا نکاح ایک آدمی سے کیا تو اس نے اسے طلاق دے دی یہاں تک کہ ان کی عدت پوری ہو گئی پھر وہ دوبارہ رشتے کے لیے آیا تو بھائی نے دوبارہ نکاح میں دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت نازل فرمائی۔ [فتح الباري 9/ 89، تفسير ابن كبير1/ 302، شرح السنة9/ 44]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عسقلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
«وهي صرح دليل على اعتبا الولي و الا لما كان لؑضله معنى و لانها لو كان ان تزوج نفسها لم تحتج الي اخيها و من كان امره اليه لا يقال ان غيره منعه منه» [فتح الباري 9/ 93]
”یہ آیت ولی کے معتبر ہونے پر سب سے زیادہ واضح دلیل ہے اور اگر ولی کا اعتبار نہ ہوتا تو اس کو روکنے کا کوئی معنی باقی نہیں رہتا۔ اگر معقل کی بہن کے لیے اپنا نکاح خود کرنا جائز ہوتا تو وہ اپنے بھائی کی محتاج نہ ہوتی اور اختیار جس کے ہاتھ میں ہو اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جاتا کہ کسی نے اس کو روک دیا ہے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
« ففي الاية دليل على انه لا يجوز النكا ح بغير ولي . . . . .» [فتح الباري9/ 94]
مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ھو : [معلم التنزيل للبغوي2/ 211، المغني لا بن قدامة 7/ 338، تفسير ابن كبير1/ 302]
”یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ولی کے بغیر نکاح جائز نہیں، اس لیے کہ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بہن مطلقہ تھی اگر نکاح کا معاملہ ولی کی بجائے اس کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ اپنا نکاح خود کر لیتی اور اپنے ولی معقل کی محتاج نہ ہوتی اور اللہ تعالیٰ کے فرمان « فلا تعضلوهن » میں خطاب عورت کے اولیاء کو ہے۔“
علاوہ ازیں مندرجہ ذیل آیات میں بھی اللہ تعالیٰ نے عورت کے اولیاء ہی کو خطاب کیا ہے :
«وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ »
«فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ» [النساء : 25]
اس مسئلے کی مزید وضاحت کئی ایک صحیح احادیث سے ہوتی ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
➊ دور جاہلیت میں ولی کی اجازت سے نکاح کے علاوہ بھی نکاح کی کئ صورتیں رائج تھیں جن کی تفصیل ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کی ہے، وہ فرماتی ہیں :
«فَنِكَاحٌ مِنْهَا نِكَاحُ النَّاسِ الْيَوْمَ يَخْطُبُ الرَّجُلُ اِلَي الرَّجُلِ وَلِيَّتَهُ اَوِ ابْنَيَهُ فَيَتَصَدَّقُهَا ثُمَّ يَنْكِحُهَا»
”ان میں سے ایک نکاح جو آج کل لوگوں میں رائج ہے کہ آدمی دوسری آدمی کے پاس اس کی زیر ولایت لڑکی یا اس کی بیٹی کے لیے نکا ح کا پیغام بھیجتا، اسے مہر دیتا پھر اس سے نکاح کر لیتا۔“
پھر انہوں نے نکاح کی کچھ دوسری صورتیں ذکر کیں جو ولی کی اجازت کے بغیر رائج تھیں۔ آخر میں فرمایا :
« فلما بعث محمد صلى الله عليه وسلم بالحق هدم نكاح الجاهلية كله الا نكاح الناس اليوم» [بخاري، كتاب النكا ح : باب من قال ’’ لا نكا ح الاهولي“ 5127]
”جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے تمام نکاح منہدم کر دیے سوائے اس نکاح کے جو آج کل رائج ہے“
➋ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« ايما امراة نكحت بغير اذن مواليها فنكا حها با طل فنكاحها باطل فنكاحها باطل » [ابوداؤد، كتاب النكا ح، باب فى الولي 2083]
جس عورت نے بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔
➌ سیدنا ابوموسٰی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«لا نكاح الا بولي» [مسند احمد 394/4، دارمي 137/2، حاكم 129/2، ابوداؤد 2085، ترمذي 1102، طبراني كبير 351/8، دارقطني 219/3]
”ولی کے بغیر نکا ح نہیں۔“
شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«و الحق ان النكا ح بغير الولي باطل كما يدل عليه احاديث الباب » [عون المعبود2/191]
”حق یہی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح باطل ہے جیسا کہ اس پر باب کی احادیث دلالت کرتی ہیں۔“
امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے اور یہ روایت نکاح کی صحت میں شرط ہے یعنی اگر ولایت مفقود ہوئی تو نکاح درست نہیں ہوگا۔ [بداية المجتهد6/7]
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”یقیناً ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں اور عورت اپنے اور اپنے علاوہ کسی دوسرے کے نکاح کی مختار نہیں اور نہ ہی اپنا نکاح کرانے کے لیے اپنے ولی کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو ولی بنانے کی مختار ہے، اگر اس نے ایسا کیا تو نکاح صحیح نہیں ہو گا۔“ [المغني 9/345]
امام شافعی رحمہ اللہ فرما تے ہیں :
«ان العقد بغير ولي باطل» [كتاب الام مختصر للامام مزنيص/ 163]
”ولی کے بغیر نکاح باطل ہے۔“
امام سفیان ثوری فرما تے ہیں :
«لا نكا ح بولي: و على هذا . . . . . . . . . . . .» [موسوعة سفيان ثوري ص/793]
ولی کے بغیر نکاح نہیں اور اسی بنا پر عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنا نکاح خود کرے اور نہ یہ جائز ہے کہ اپنے نکاح کے لیے اپنے ولی کے علاوہ کسی اور کو متعین کرے اور جب اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنا نکاح خود کر سکے تو اس کے لیے کسی دوسری عورت کا نکاح کروانا بالاولیٰ جائز نہیں۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
« لا نكا ح الا بولي» [موسعة فقه الحسن بصري 897]
”ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے۔“
امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے استاد الاستاد ہے فرماتے ہیں :
«ليس العقد بيد النساء انما العقد بيد الرجل» [ابن ابي شيبة 208/1، موسوعة فقه ابراهيم النخعي 677/1]
عقد قائم کرنا عورتوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ مردوں کے ہاتھ میں ہے۔
ان تمام دلائل و حوالہ جات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کتاب و سنت اور جمہور ائمہ محدثین کے نزدیک عورت کا نکاح ولی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ جو عورت اپنا نکاح خود کر لیتی ہے ایسا نکاح باطل ہے اور ان کے درمیان جدائی کرادی جائے گی تا کہ وہ ناجائز فعل کے مرتکب نہ ہوں۔