اللہ کی رضا ماں باپ کی رضا میں ہے
ماخوذ: شرح کتاب الجامع من بلوغ المرام از ابن حجر العسقلانی، ترجمہ: حافظ عبد السلام بن محمد بھٹوی

وعن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: ‏‏‏‏رضى الله في رضى الوالدين وسخط الله في سخط الوالدين .‏‏‏‏ اخرجه الترمذي وصححه ابن حبان والحاكم
”عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کا راضی ہونا ماں باپ کے راضی ہونے میں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ناراض ہونا ماں باپ کے ناراض میں ہے۔ اسے ترمذی نے روایت کیا اور ابن حبان اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔ “
تخریج : [صحيح ترمذي 1899] ، [ابن حبان 459/2] [حاكم 152/4] شیخ ناصر الدین البانی نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ [516] میں اس کی تخریج و تصحیح پر مفصل بحث کی ہے۔
مفردات : رِضَا۔ رَضِيَ عَنْهُ وَعَلَيْهِ يَرْضٰي رِضًا عَلِمَ يَعْلَمُ کا مصدر ہے بکسر راء
ناقص واوی : سَخَطٌ قُفْلٌ عُنُقٌ اور جَبَلٌ کے وزن پر سُخْطٌ سُخُطٌ اور سَخَطٌ پڑھا جاتا ہے عَلِمَ يَعْلَمُ کا مصدر ہے۔

فوائد :
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ والدین کو راضی کرنا فرض ہے۔ اور انہیں ناراض کرنا حرام ہے کیونکہ ان کی رضا میں اللہ کی رضا اور ان کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے حق کے ساتھ والدین کا حق ملا کہ ذکر فرمایا ہے :
أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ [31-لقمان:14]
” میرا اور اپنے ماں باپ کا شکر ادا کر۔ “
اور فرمایا :
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانً [الاسرا 23/171]
” اور تیرے رب نے حکم دیا کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ ساتھ احسان کرو۔ “
➋ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی فرضیت میں بہت سی احادیث ہیں ان میں سے چند یہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
رغم انف ثم رغم انف ثم رغم انف قيل : من يا رسول الله ؟ قال : ” من ادرك ابويه عند الكبر احدهما او كليهما فلم يدخل الجن [صحيح مسلم 6510]
” اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جائے پھر اس کی ناک خاک آلود ہو پھر اس کی ناک خاک آلود ہو جس نے اپنے ماں باپ دونوں کو یا ایک کو بڑھاپے میں پایا پھر جنت میں داخل نہ ہوا۔ “
(ب) ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے۔ فرمایا : الصلوة لوقتها ” وقت پر نماز “ پوچھا : پھر کون سا؟ فرمایا : بر الوالدين ” والدین سے حسن سلوک “ پوچھا: پھر کون سا؟ فرمایا : الجهاد فى سبيل الله ” اللہ کے راستے میں جہاد کرنا“ [متفق عليه]
(ج) ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں اکبر الکبائر نہ بتاؤں، تین مرتبہ فرمایا ہم نے عرض کیا۔ کیوں نہیں یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :الاشراك بالله وعقوق الوالدين [الحديث] ” اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کو ستانا۔ “ [صحيح بخاري 5976]
➌ والدین کا حکم صرف اسی وقت مانا جائے گا جب وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف نہ ہو۔ اگر اللہ کی نافرمانی ہوتی ہو تو والدین کا حکم نہیں مانا جائے گا۔ مثلاً والدین ایسا کام کرنے کا حکم دیں جس سے اللہ نے منع فرمایا یا ایسے کام سے روکیں جو اللہ نے ہر ایک پر فرض کیا ہے تو ان کی بات نہیں مانی جائے گی۔
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا طاعة فى معصية انما الطاعة فى معروف [ متفق عليه مشكوة كتاب الامارة] ” اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں، اطاعت صرف معروف میں ہے۔ “ خصوصاً اگر وہ شرک کرنے کا حکم دیں تو ان کی اطاعت جائز نہیں :
وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَى أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا [31-لقمان:15]
” اور اگر تیرے ماں باپ تجھ پر زور کریں کہ میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھ کو علم نہیں تو تو ان کا کہا: نہ مان۔ “
➍ نواب صدیق خاں رحمہ الله نے اپنی تفسیر میں فرمایا : خلاصہ یہ ہے کہ جب کسی معصیت کا ارتکا ب ہوتا ہو یا وہ چیز ترک کرنی پڑتی ہو جو فرض عین ہو یعنی ہر ایک شخص پر فرض ہو تو والدین کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ ان کی اطاعت صرف ان چیزوں میں ہے جو مباح ہیں۔
شرح اقناع میں فرمایا : والدین اگر کوئی فرض چھورنے کا حکم دیں تو ان کی اطاعت نہیں ہو گی۔ مثلاً ان چیزوں کا علم حاصل کرنا جو آدمی پر فرض ہیں۔ اور جن سے دین قائم رہتا ہے جیسا کہ طہارت صلاۃ، صیام وغیرہ (کیونکہ ان فرائض کی ادائیگی ان کے علم کے بغیر ممکن نہیں) اگر یہ علم اپنے شہر میں حاصل نہ ہو سکے تو ان کی اجازت کے بغیر سفر کر سکتا ہے۔ کیونکہ خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی کوئی بات نہیں مانی جائے گی۔ [بحواله توضيح الاحكام] کفار کے ساتھ لڑنے کی تربیت حاصل کرنا اور لڑائی کی تیاری کرنا بھی فرض ہے کیونکہ یہ تیاری نہ کرنا منافقین کا کام ہے :
وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً [9-التوبة:46]
” اور اگر یہ (جنگ کے لئے) نکلنے کا ارادہ کرتے تو اس کے لئے کوئی نہ کوئی تیاری ضرور کرتے۔ “
اگر اپنے شہر میں یہ تیاری ممکن نہ ہو تو سفر کے لئے والدین کی اجازت کی کوئی شرط نہیں اور اگر وہ منع کریں تو ان کی بات ماننا جائز نہیں۔
➎ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے جہاد کی اجازت مانگی آپ نے فرمایا کہ تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے کہاں جی ہاں ! آپ نے فرمایا : تو انہیں میں جہاد کر۔ [البخاري الجهاد باب 138 ]
امام بخاری رحمہ اللہ رحمہ الله نے اس حدیث پر باب باندھا ہے الجهاد باذن الابوين ” ماں باپ کی اجازت کے ساتھ جہاد “ اس کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رحمہ الله فرماتے ہیں :
جمہور علماء فرماتے ہیں جب ماں باپ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک منع کر دے تو جہاد حرام ہے بشرطیکہ وہ دونوں مسلمان ہوں کیونکہ ان سے حسن سلوک اس پر فرض عین ہے اور جہاد فرض کفایہ ہے البتہ جب جہاد فرض عین ہو جائے تو کوئی اجازت نہیں لی جائے گی [فتح الباري حديث 3004 ]
➏ جب جہاد فرض عین ہو جائے اس وقت اگر کوئی شخص ماں باپ کے کہنے کی وجہ سے جہاد پر نہ جائے تو اللہ کے عذاب کا خطرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ [9-التوبة:24]

”کہہ دیجئے اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارے خاندان، تمہارے مال جو تم نے کمائے ہیں وہ کاروبار جس کے مندے سے تم ڈرتے ہو اور وہ رہائش گاہیں جنہیں تم پسند کرتے ہو (اگر یہ سب چیزیں) تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم (عذاب) لے آئے اور اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“
➐ مندرجہ ذیل صورتوں میں جہاد فرض عین ہو جاتا ہے۔
① جب دشمن مسلمانوں کی سرزمین پر حملہ کر دے یا قبضہ کرے (تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر قرطبی مسئلہ رابعہ آیت 41 سورت توبہ)
② جب امیر کسی گروہ یا خاص شخص کو نکلنے کا حکم دے دے۔ واذا استنفرتم فانفروا [بخاري 2825] ”حب تمہیں نکلنے کا حکم دیا جائے تو نکلو۔“
③ جب کوئی شخص میدان میں ہو اور لڑائی شروع ہو جائے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ [8-الأنفال:15]
”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو جب تم ان لوگوں سے لڑائی کی مڈبھیڑ میں ملو جو کافر ہیں تو ان سے پیٹھ مت پھیرو۔“

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے