وعنه ، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذراري المشركين، قال: الله أعلم بما كانوا عاملين [متفق عليه۔]
انہی (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کے (نابالغ) بچوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: جو اعمال وہ کرنے والے تھے انہیں اللہ جانتا ہے ۔ متفق علیہ۔
[البخاري: ۱۳۸۴، و مسلم: ۲۶۵۹/۲۶]
فقہ الحدیث:
➊ مشرکین کے بچے جنت میں جائیں گے یا جہنم میں؟ یہ تقدیر کا مسئلہ ہے ، اسے صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ دنیا میں کیا اعمال کرنے والے تھے۔
➋ مشرکین کے بچوں کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔
➌ مشرکین کے بچوں کے بارے میں سکوت کرنا بہتر ہے ۔
➍ نیز دیکھئے اضواء المصابیح: ۸۴، ماہنامہ الحدیث حضرو: ۳۳ ص ۶
الفصل الثانی
وعن عبادة بن الصامت رضي الله عنه، قال قال رسول الله ﷺ: إن أول ما خلق الله القلم، فقال له: اكتب: فقال: ما أكتب؟ قال: اكتب القدر. فكتب ما كان وما هو كائن إلى الأبد.رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب إسناداً. (سیدنا) عبادہ بن الصامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ نے سب سے پہلے قلم پیدا کیا پھر اسے کہا: لکھ ۔ تو اس (قلم ) نے کہا: میں کیا لکھوں؟ اللہ نے فرمایا: تقدیر لکھ، پس قلم نے جو ہوا ہے اور جو آئندہ ہوگا، لکھ دیا۔
اسے ترمذی (۲۱۵۵) نے روایت کیا اور کہا: یہ حدیث سند کے لحاظ سے (حسن) غریب ہے۔
تحقیق الحدیث:
سنن ترمذی والی یہ روایت عبدالواحد بن سُلیم المالکی البصری کی وجہ سے ضعیف ہے ۔
عبدالواحد مذکور کے بارے میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
ضعيف [تقريب التهذيب: ۴۲۴۱]
لیکن اس روایت کے متن میں عبدالواحد منفرد نہیں ہے بلکہ اس کے شواہد مسند احمد (۳۱۷/۵ح ۲۲۷۰۵) کتاب السنۃ لابن ابی عاصم (۱۰۴-۱۰۲، ۱۰۸-۱۰۶) روضۃ العقلاء لابن حبان (ص ۱۵۷) سنن ابی داود (۴۷۰۰) اور مسند ابی یعلیٰ (۲۳۲۹) وغیرہ میں موجود ہیں۔ ان شواہد میں بہترین وہ روایت ہے جسے ابویعلیٰ الموصلی نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِن أول شئ خلقه الله القلم و أمره فكتب كل شئ. ” بے شک اللہ نے جو پہلی چیز پیدا کی وہ قلم ہے اور اسے حکم دیا تو اس نے ہر چیز کو لکھ دیا۔ “
[مسند ابي يعليٰ ج ۴ ص ۲۱۷ ح ۲۳۲۹ و سنده صحيح]
ان شواہد کے ساتھ ترمذی کی مذکورہ بالا روایت بھی حسن یا صحیح ہے ۔ والحمدلله
فقہ الحدیث:
➊ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں سب سے پہلے قلم پیدا کیا۔
➋ جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو پیدا کیا ، ان لوگوں کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ ان کا یہ عقیدہ اس صحیح حدیث کے خلاف ہے ۔
شیخ البانی ؒ فرماتے ہیں:
وهو من الأدلة الظاهرة على بطلان الحديث المشهور أول ما خلق الله نور نبيك يا جابر! وقد جهدت فى أن أقف على سنده فلم يتيسر لي ذلك.
”یہ حدیث ان واضح دلیلوں میں سے ہے جس سے (جہلاء کے درمیان) مشہور حدیث: اے جابر ! سب سے پہلے اللہ نے تیرے نبی کا نور پیدا کیا“
کے باطل ہونے کا ثبوت ملتا ہے ۔ میں نے اس (باطل ) روایت کی سند تلاش کرنے کی بہت کوشش کی ہے لیکن مجھے اس کی کوئی سند نہیں ملی ۔
[التعليق على المشكوة ج ۱ ص ۳۴ تحت ح ۹۴]
اس بے اصل اور من گھڑت روایت کا وجود شیعوں کی من گھڑت کتاب اصول کافی (ج۱ ص ۴۴۲ طبع دارالکتب الاسلامیہ تہران، ایران) میں موضوع سند کے ساتھ ملتا ہے ۔
وعن مسلم بن يسار قال: سئل عمر بن الخطاب رضى الله عنه عن هٰذه الآية: وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّكَ مِنۡۢ بَنِيۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُهُوۡرِهِمۡ ذُرِّيَّتَهُمۡ الآية، قال عمر: سمعت رسول الله ﷺ يسأل عنها فقال: إن الله خلق آدم ثم مسح ظهره بيمينه فاستخرج منه ذرية فقال: خلقت هؤلاء للجنة، وبعمل أهل الجنة يعملون ثم مسح ظهره فاستخرج منه ذرية فقال: خلقت هؤلاء للنار و بعمل أهل النار يعملون.فقال رجل: ففيم العمل؟ يا رسول الله ! فقال رسول الله ﷺ: إن الله إذا خلق العبد للجنة استعمله بعمل أهل الجنة حتي يموت على عمل من أعمال أهل الجنة فيد خله به الجنة و إذاخلق العبد للنار استعمله بعمل أهل النار حتي يموت على عمل من أعمال أهل النار فيدخله به النار.
[رواه مالك والترمذي و أبوداود۔]
مسلم بن یسار سے روایت ہے کہ (سیدنا) عمر بن الخطاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے اس آیت“ اور جب تیرے رب نے بنی آدم کی پُشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا ”آیت کے آخر تک (الاعراف: ۱۷۲) کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت کے جواب میں فرماتے ہوئے سنا: یقیناً اللہ نے جب آدم کو پیدا کیا تو ان کی پشت پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرا تو اس سے ان کی اولاد نکالی اور فرمایا: میں نے انہیں جنت کے لئے پیدا کیا ہےا ور یہ جنتیوں کے کام کریں گے۔ پھر ان کی پشت پر (ہاتھ) پھیرا تو اس میں سے ان کی اولاد نکالی اور فرمایا: میں نے انہیں جہنم کے لئے پیدا کیا ہے اور جہنمیوں کے کام کریں گے ۔ ایک آدمی نے پوچھا: یا رسول اللہ ! پھر اعمال کی کیا ضرورت ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے جب بندے کو جنت کے لئے پیدا کیا تو اسے اس کی موت تک جنتیوں کے اعمال کی توفیق دی جو اسے جنت میں داخل کریں گے اور جب اس نے کسی بندے کو جہنم کےلئے پیدا تو اسے اس کی موت تک جہنمیوں کے اعمال پر چلایا جو اسے جہنم میں داخل کردیں گے ۔
اسے مالک (الموطأ ۸۹۸/۱ ح ۱۷۲۶) ترمذی (۳۰۷۵ وقال: حسن و مسلم لم یسمع من عمر ) اور ابوداود (۴۷۰۳) نے روایت کیا ہے ۔
تحقیق الحدیث:
اس روایت کی سند منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ مسلم بن یسار نے سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کچھ نہیں سنا ۔ اس روایت کی دوسری سند میں نعیم بن ربیعہ مجہول الحال راوی ہے جسے صرف ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے ۔
دیکھئے: میری کتاب [انوار الصحيفة فى الاحاديث الضعيفة د: ۴۷۰۳]