اللہ تعالیٰ زمین و آسمان اور تمام مخلوقات کا خالق ہے ۔ اسی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے آدم ؑ کو مٹی سے بنایا اور ان کی زوجہ حواؑ کو پیدا فرمایا اور پھر ان دونوں سے انسانوں کی نسل جاری فرمائی ۔ اللہ نے انسانوں اور جاندار مخلوقات کے لئے طرح طرح کے رزق اور نعمتیں پیداکیں اور وہی مشکل کشا ، حاجت روا ار فریاد رَس ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَ اِنۡ تَعُدُّوۡانِعۡمَةَ اللّٰهِ لَا تُحۡصُوۡهَا ؕ ﴾
”اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے ۔“ [النحل : ۱۸]
بے شمار نعمتوں اور فضل و کر م والے رب سے محبت کرنا ہر انسان پر فرض ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ؕ ﴾
اور اہلِ ایمان سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرتے ہیں ۔ [البقرة : ۱۶۵]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللہ تمہیں جو نعمتیں کھلاتا ہے ان کی وجہ سے اللہ سے محبت کرو اور اللہ کی محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کی وجہ سے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو ۔
[سنن الترمذي : ۳۷۸۹و سنده حسن ، ماهنامه الحديث : ۲۶]
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿وَ اشۡكُرُوۡا لِلّٰهِ اِنۡ كُنۡتُمۡ اِيَّاهُ تَعۡبُدُوۡنَ﴾
اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہو اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو ۔
[البقرة : ۱۷۲]
(کامل) مومن وہ ہیں جب اُن کے سامنے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل لرز جاتے ہیں ۔ دیکھئے : [سورة الانفال ۲]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے کہ
ثلاث من كن فيه وجد حلاوة الإيمان : أن يكون الله و رسوله أحب إليه مماسواهما وأن يحب المرء لا يحبه إلا لله و أن يكر ه أن يعود فى الكفر كما يكر ه أن يقذف فى النار
جس شخص میں تین چیزیں ہوں تو اس نے ایمان کی مٹھاس پالی : (اول) یہ کہ اس کے نزدیک ہر چیز سے زیادہ اللہ اور رسول محبو ب ہوں(دوم) وہ جس سے محبت کرے صرف اللہ ہی کے لئے محبت کرے (سوم) وہ کفر میں لوٹ جانا اس طرح ناپسند کرے جیسے وہ آگ میں گرناناپسند کرتا ہے ۔
[صحيح بخاري : ۱۶ ، صحيح مسلم : ۴۳]
ایک ماں جتنی اپنے بچے سے محبت کرتی ہے اللہ تعالیٰ اس سے بہت زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے ۔ دیکھئے :
[صحيح بخاري۵۹۹۹ و صحيح مسلم۲۷۵۴]
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : میرے بندوں کو بتا دو کہ بے شک میں گناہ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں ۔ [الحجر : ۴۹]
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿قُلۡ يٰعِبَادِيَ الَّذِيۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤي اَنۡفُسِهِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَةِ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِيۡعًا ؕ اِنَّهٗ هُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ﴾
”(میری طرف سے) کہہ دو : اے میرے (اللہ کے) بندو ! جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ بے شک اللہ (شرک کے سوا) سارے گناہ معاف فرماتا ہے ، بے شک وہ غفور الرحیم ہے ۔ “ [الزمر : ۵۳]
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
جو لوگ میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں تو ان کے لئے میری محبت واجب ہے ۔
[مسند احمد ، زوائد عبدالله بن احمد ۵؍۳۲۸ و سنده صحيح]
اللہ سے محبت کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ انسان ہر وقت اللہ پر توکل کرے اور اسی پر صابر و شاکر رہے ۔ ایک دفعہ ایک اعرابی (بدو) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تلوار تان کر پوچھا: تجھے مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کمال اطمینان سے) فرمایا : اللہ ، تو اس اعرابی کے ہاتھ سے تلوار گر گئی ۔
[مسند احمد ۳؍۳۹۰ ح ۱۵۱۹۰ وهو حديث صحيح ، صحيح ابن حبا ، الاحسان : ۲۸۷۲۲۸۸۳]
تنبیہ :
اس روایت کے راوی ابوبشر جعفر بن ابی وحشیہ نے سلیمان بن قیس الیسکری سے کچھ نہیں سنا لیکن وہ ان کی کتاب ؍صحیفے سے روایت کرتے تھے اور کتاب سے روایت کرنا چاہے بطور و جادہ ہی ہو ، صحیح ہے بشرطیکہ کتاب کے درمیان واسطے پر جرح یا محدثین کا انکار ثابت نہ ہو ۔ واللہ اعلم ، غورث بن الحارث الاعرابی کا قصہ اختصار کے ساتھ صحیح بخاری(۲۹۱۰) اور صحیح مسلم (۸۴۳) میں بھی موجود ہے ۔ غورث نے واپس جا کر اپنی قوم کے لوگوں سے کہا: تھا کہ” میں اس کے پاس سے آیا ہوں جو سب سے بہتر ہے “ یہ اس کی دلیل ہے کہ غورث مسلمان ہو گئے تھے ۔
اللہ کے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے اتنی زیادہ محبت کرتے تھے کہ وفات کے وقت بھی فرما رہے تھے : اللهم الرفيق الأعليٰ اے میرے اللہ ! اپنی بارگاہ میں اعلیٰ رفاقت عطا فرما ۔
[ صحيح بخاري : ۴۴۶۳ و صحيح مسلم : ۲۴۴۴]
اللہ سے محبت کی چند نشانیاں درج ذیل ہیں :
➊ توحید و سنت سے محبت اور شرک و بدعت سے نفرت
➋ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت اور آپ کا دفاع
➌ صحابہ کرام ، تابعین عظام ، علمائے حق اور اہلِ حق سے محبت
➍ کتاب و سنت سے محبت اور تقویٰ کا راستہ
➎ گناہوں اور نافرمانی سے اجتناب
➏ ریا کے بغیر ، خلوصِ نیت کے ساتھ عبادات میں سنت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انہماک
➐ معروف(نیکی) سے محبت اور منکر و مکر وہ سے نفرت
➑ کتاب و سنت کے علم کا حصول اور کتاب و سنت کے مقابلے میں ہر قول و فعل کو رد کر دینا
➒ انفاق فی سبیل اللہ (اللہ کے راستے میں اس کی رضا مندی کے لئے مال خرچ کرنا)
➓ خوف و امید کی حالت میں کثرتِ اذکار اور دعواتِ ثابتہ پر عمل
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دل اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے بھر دے اور ہمیں ہمیشہ کتاب و سنت پر گامزن رکھے ۔ آمین
(۸شوال ۱۴۲۷ھ)