آپ کے سوالات
سوال:
شیخ صاحب! اس دعا کے بارے میں آپ سے پوچھنا تھا:
((اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلالِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَاغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ))
اسے شیخ زبیر علی زئیؒ نے حسن کہا ہے جب کہ دوسری کئی علماء ضعیف کہتے ہیں۔ راجح کیا ہے؟
والسلام !
( سید محمد سلمان شاه، ملتان خورد)
جواب:
ابو وائل سے مروی ہے کہ ایک مکاتب غلام سیدنا علیؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا:
میں اپنی مکاتبت کی رقم ادا کرنے سے عاجز آچکا ہوں آپ میری مدد کیجیے۔ سیدنا علیؓ نے فرمایا:
کیا میں تجھے وہ کلمات نہ سکھاؤں جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے سکھائے تھے؟ اگر تجھ پر ”صیر“ پہاڑ جتنا قرض بھی ہو تو اللہ تعالیٰ تیری طرف سے اسے ادا کر دے گا۔ تو یہ کلمات پڑھا کر:
((اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَأَغْنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ))
اے اللہ ! مجھے اپنے حرام کردہ سے اپنے حلال کے ساتھ کفایت فرما، اور اپنے فضل کے ساتھ مجھے اپنے ماسوا سب سے بے نیاز کر دے۔“
(جامع الترمذی: 3563)
یہ روایت حسن لذاتہ ہے۔
اس پر ہمارے شیخ حافظ زبیر علی ملالہ کا حکم ہی درست ہے۔
عبدالرحمٰن بن اسحاق سے مراد عبدالرحمٰن بن اسحاق القرشی المدنی ہے۔ اس لیے کہ:
➊ الجرح والتعدیل (212/5) اور تاریخ دمشق (191/34) میں اسحاق القرشی المدنی کے شیوخ میں سیار ابی الحکم کا ذکر موجود ہے۔
➋ مسند احمد (153/1) فضائل الصحابہ لاحمد (1208) مستدرک حاکم (538/1) الاحادیث المختارة للمقدسی (489) اور الدعوات الکبیر للمبتی (177 الشاملہ ) میں اس بات کی صراحت ہے کہ یہ ابن اسحاق القرشی ہے۔ مسند احمد کے محققین کا ابن اسحاق کو ابو شیبہ الواسطی (ضعيف عند الجمهور) قرار دینا اور ابن اسحاق القرشی (صدوق) کہنے کو وہم قرار دینا درست نہیں۔ جب ابن اسحاق القرشی کے شیوخ میں سیار ابو الحکم کا نام ملتا ہے اور اتنے محدثین بھی اسے ”القرشی کہہ رہے ہیں تو پھر یہ وہم کیونکر ہوا؟ اسے وہم کہنا خود وہم ہے۔
بہر حال یہ عبدالرحمٰن الکوفی نہیں بلکہ عبدالرحمٰن القرشی المدنی ہے جو کہ صدوق راوی ہے۔
اسی وجہ سے ہمارے شیخ اللہ نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔
قبل ازیں امام ترمذی اسے ’’هذا حديث حسن غریب‘‘ کہہ چکے ہیں ۔
علامہ نووی نے ”الاذکار “ (رقم: 1185-377) المنذری نے ”الترغيب والترهيب“ (2714) ابن مفلح نے ”الآداب الشرعية (194/1 الشاملہ ) اور ابن القیم نے "الوابل الصيب“ (167/1 الشاملہ ) میں امام موصوف کے حکم کو برقرار رکھا اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔
علاوہ ازیں امام حاکم نے اسے ’’صحیح الاسناد‘‘ کہا، ذہبی نے ان کی موافقت کی۔
حافظ ضیا المقدسی نے ’’اسنادہ حسن“ کہا۔
اسی طرح شیخ البانی بھی اسے ”سلسلة الصحیحہ“ (266) میں ”حسن الاسناد“ بتاتے ہیں۔
سو راجح یہی ہے کہ یہ روایت حسن لذاتہ ہے۔
الحمد لله
(2018-8-1)
سوال:
شیخ محترم ! اس روایت کا حکم معلوم کرنا تھا:
((مَنْ بَاعَ جِلْدَ أَضْحِيَّتِهِ فَلَا أضِحِيَّةَ لَهُ))
اللہ تعالیٰ آپ کو جزا دے۔
والسلام!
( قاری محمد اسماعیل التسلفی ، جھنگ سٹی)
جواب سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((مَنْ بَاعَ جِلْدَ أضْحِيَّتِهِ فَلَا أَضْحِيَّةَ لَهُ))
’’جس نے اپنی قربانی کی کھال فروخت کی اس کی کوئی قربانی نہیں ۔“
اسے امام حاکم نے المستدرك (389/2)
اور بیہقی نے ”السنن الکبریٰ“ (19232)
اور السنن الصغیر (810) میں روایت کیا ہے
اس کی سند ’’حسن لذاتہ“ ہے۔
عبداللہ بن عیاش المصری اور یحییٰ بن ابی طالب پر کچھ کلام ہے لیکن جمہور کے ہاں یہ صدوق اور حسن الحدیث ہیں۔
(دیکھیں: ماہنامہ الحدیث : 88/95-89-80/7 – القول القوى ،ص: 341-178)
لہٰذا یہ روایت حسن درجے کی ہے۔
(11-18-2018)