سوال : اقامت کے وقت دائیں اور بائیں منہ پھیرنا کیسا ہے ؟
جواب : اقامت کے وقت دائیں بائیں منہ پھیرنا شریعت سے ثابت نہیں۔ اس کے بارے میں ایک روایت پیش کی جاتی ہے، ملاحظ فرمائیں :
سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا کہ جب ہم اذان یا اقامت کہیں، تو اپنے پاؤں کو ان کی جگہ سے نہ ہٹائیں.“ [ نصب الرايه للزيلعي : 1 277 ]
اس کی سند سخت ”ضعیف“ ہے، کیونکہ
➊ حسن بن عمارہ راوی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
◈ علامہ ہیشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعفه شعبة وجماعة كثيرة .
”اسے امام شعبہ اور محدثین کی ایک بڑی جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [مجمع الزواءد : 289/2 ]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعفهٔ الجمهور .
”اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے .“ [طبقات المدلسين : 53 ]
نیز یہ ”مدلس“ بھی ہے .
◈ اس روایت کی سند کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ”ضعیف“ کہا ہے۔ [ التلخيص الحبير : 204/1، ح : 299 ]
➋ عبداللہ بن بزیع انصاری راوی بھی ”ضعیف“ ہے۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ : ” التفات يمين ويسار (دائیں بائیں دیکھنا) جیسا اذان میں مسنون ہے، ویسا ہی اقامت میں اور ایسے ہی بچہ کے کان میں۔ [امدادالفتاوي : 1 108 ]
یہ بے دلیل اور غلط بات ہے۔