افطار میں جلدی کرنے کی فضیلت
عبید اللہ طاہر حفظ اللہ

❀ «عن سهل بن سعد رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر. »
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لوگ اس وقت تک خیر پر باقی رہیں گے جب تک کہ وہ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے۔“ [صحيح بخاري 1957، صحيح مسلم 1098]

❀ «عن سهل بن سعد رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تزال أمتي على سنتي ما لم تنظر يفطرها النجوم، قال: وكان النبى صلى الله عليه وسلم إذا كان صائما أمر رجلا فأوفى على شيء، فإذا قال: غابت الشمس، أفطر.»
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میری امت میری سنت پر باقی رہے گی جب تک کہ وہ افطار کرنے کے لیے ستاروں کے نکلنے کا انتظار نہ کرنے لگے۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہوتے تو کسی شخص کو حکم دیتے، چنانچہ وہ کسی اونچی جگہ سے دیکھتا، اور جب وہ کہتا کہ سورج ڈوب گیا تو آپ افطار کر لیتے۔ [صحيح ابن خزية 2061، صحيح ابن حبان 3510، حسن]

❀ «عن أبى هريرة رضي الله عنه، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: لا يزال الدين ظاهرا ما عجل الناس الفطر، لأن اليهود والنصاري يؤخرون»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دین اسلام اس وقت تک غالب رہے گا جب تک کہ لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے، کیونکہ یہود ونصاری اس میں تاخیر کرتے ہیں۔“ [سنن ابو داود 2353، سنن ابن ماجه 1998، حسن]

افطار کا وقت
❀ «عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إذا أقبل الليل من ها هنا، وأدبر النهار من ها هنا، وغربت الشمس فقد أفطر الصائم. »
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب ادھر سے رات آ جائے، اور ادھر سے دن پیٹھ پھیر کر چلا جائے، اور سورج ڈوب جائے، تو روزے دار کی افطار کا وقت ہو گیا۔“ [صحيح بخاري 1954، صحيح مسلم 1100]

کس چیز سے افطار کرنا مستحب ہے؟
❀ « سلمان بن عامر الضبي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كان أحدكم صائما، فليفطر على التمر، فإن لم يجد التمر فعلي الماء، فإن الماء طهور.»
حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی روزے کی حالت میں ہو تو وہ کھجور سے افطار کرے، اور اگر کھجور نہ پائے تو پانی سے، کیونکہ پانی ایک پاکیزہ چیز ہے۔“ [سنن ابو داود 2355، سنن ترمذي 696، سنن ابن ماجه 1699، حسن]

❀ «عن أنس بن مالك رضي الله عنه، يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يفطر على رطبات قبل أن يصلي، فإن لم تكن رطبات فعلي تمرات، فإن لم تكن حسا حسوات من ماء.»
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز پڑھنے سے پہلے تازہ کھجوروں سے افطار کیا کرتے تھے، اور اگر تازہ کھجوریں نہ ہوتیں تو خشک کھجوروں سے افطار کرتے، اور اگر وہ بھی نہیں ملتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔ [سنن ابو داود 2356، سنن ترمذي 696 صحيح]

مغرب کی نماز سے قبل افطار کرنا مستحب ہے
❀ «عن أنس رضي الله عنه، قال: ما رأيت النبى صلى الله عليه وسلم قط صلاة المغرب حتى يفطر، ولو كان على شربة من ماء »
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو افطار سے قبل مغرب کی نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا، گرچہ ایک گھونٹ پانی ہی پی لیں۔ [مسند ابو يعلي 3792، صحيح ابن حبان 3504، صحيح]

روزے دار کو افطار کرانے کی فضیلت
❀ « عن زيد بن خالد الجهني رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من فطر صائما كان له مثل أجره، غير أنه لا ينقص من أجر الصائم شيئا.
»
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس نے کسی روزے دار کو افطار کرائی تو اس کے لیے روزے دار کے برابر اجر وثواب ہے، اور روزے دار کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔“ [سنن ترمذي 807، سنن ابن ماجه 1746، صحيح]
نوٹ: چونکہ حدیث میں کوئی قید نہیں ہے، اس لیے ضروری نہیں ہے کہ جن لوگوں کو افطار کرایا جائے وہ فقراء و مساکین میں سے ہی ہوں، بلکہ یہ ثواب کسی بھی روزے دار کو افطار کرانے سے حاصل ہو جائے گا۔

افطار کے وقت کی دعا
❀ «عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أفطر قال: ذهب الظما، وابتلت العروق، وثبت الأجر إن شاء الله.»
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے: « ذهب الظمأ، وابتلت العروق، وثبت الأجر إن شاء الله» یعنی پیاس بجھ گئی، رگیں تر ہو گئیں اور ان شاء اللہ اجر و ثواب طے ہو گیا۔ [سنن ابو داود 2357، حسن]
نوٹ: یہ اس باب کی صحیح ترین روایت ہے۔ اس کے علاوہ مذکور دعائیں ضعیف ہیں،
جیسے :
«اللهم لك صمت، وعلى رزقك أفطرت» [سنن ابو داود 2358]
«الحمد لله الذى أعانني فصمت، ورزقني فأفطرت » [عمل اليوم والليله لابن السني]
«بسم الله، اللهم لك صمت، وعلى رزقك أفطرت، تقبل مني إنك أنت السميع العليم » [الدعاء للطبراني 918]
«اللهم لك صمنا، وعلى رزقك أفطرنا، فتقبل منا إنك أنت السميع العليم » [سنن الدار قطني 2280]
یہ ساری تفصیلات الجامع الکامل فى الحدیث الصحیح الشامل 653/4 سے لی گئی ہیں۔

کسی کے یہاں افطار کرنے کے بعد کی دعا
❀ «عن أنس رضى الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أفطر عند قوم دعا لهم، فقال: أفطر عندكم الطائمون، وأكل طعامكم الأبرار، وصلت عليكم الملائكة. »
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے یہاں افطار کرتے تو ان کے لیے دعا کرتے: « أفطر عندك الصائمون، وأكل طعامكم الأبرار، وصلت عليه الملائكة» یعنی ’’تمہارے پاس روزے دار افطار کریں، اور تمہارا کھانا نیک لوگ کھائیں، اور فرشتے تم پر رحمت بھیجیں۔“ [عمل اليوم والليله لابن السني 482، الدعاء للطبراني 925، حسن]
نوٹ: بعض روایتوں میں افطار کی قید کے بغیر مطلقاً کسی کے یہاں کھانا کھانے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کایہ دعاپڑھنا ثابت ہے۔ [سنن ابو داود 3854، صحيح]

غروب آفتاب سے قبل افطار کرنے کی وعید
❀ «عن أبى أمامة الباهلي رضي الله عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: بينا أنا نائم إذ أتاني رجلان، فأخذا بضبعي، فأتيا بي حبلا وعرا، فقالا: إصعد، فقلت: إني لا أطيقه، فقالا: إنا سنسهله لك، فصعدت، حتى إذا كنت فى سواء الجبل إذا بأصوات شديدة، قلت: ما هذه الأصوات؟ قالوا: هذا عواء أهل النار، ثم انطلق بي، فإذا أنا بقوم معلقين بعراقيبهم، مشققة أشداقهم، تسيل أشداقهم دما، قال: قلت: من هؤلاء؟ قال: هؤلاء الذين يفطرون قبل تحلة صومهم. »
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میں سو رہا تھا کہ میرے پاس دو آدمی آئے، دونوں نے میرے دونوں بازو تھام لیے اور مجھے ایک دشوار گزار پہاڑ پر لائے، اور مجھ سے کہا: چڑھیے، تو میں نے کہا: میں نہیں چڑھ سکتا، دونوں نے کہا کہ ہم اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہموار اور آسان کر دیں گے، چنانچہ میں اس پر چڑھا، یہاں تک کہ جب میں پہاڑ کے بیچ میں پہنچا تو اچانک بہت تیز آوازیں سنائی دیں، میں نے پوچھا: یہ کیسی آوازیں ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ یہ جہنمیوں کے بھونکنے کی آواز ہے، پھر مجھے آگے لے جایا گیا، تو اچانک کچھ ایسے لوگ نظر آئے جو اپنے پٹھوں کے بل الٹے لٹکے ہوئے تھے، ان کے جبڑے پھٹے ہوئے تھے، اور ان کے جبڑوں سے خون بہہ رہا تھا، میں نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے روزے کے حلال ہونے سے پہلے (یعنی افطار کا وقت ہونے سے پہلے) افطار کرتے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه 1986، صحيح ابن حبان 7491، صحيح]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے