اسلام چھوڑنے والے کی شرعی سزا حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

مرتد کسے کہتے ہیں اور اس کی شرعی سزا کیا ہے؟ کتاب وسنت کی رو سے ہماری صحیح راہنمائی فرمائیں۔

جواب :

مرتد ”اِرْتَدَّ، يَرْتَدُّ، اِرْتِدَادًا“ اسم فاعل ہے، جس کا لغوی معنی ہے پھرنے والا، پلٹنے والا ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوْا عَلَىٰ أَدْبَارِهِم﴾
(محمد: 25)
”بے شک جو لوگ اپنی پیٹھ کے بل الٹے پھر گئے۔“
اسی طرح ایک مقام پر فرمایا:
﴿قَالَ ذَٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ ۚ فَارْتَدَّا عَلَىٰ آثَارِهِمَا قَصَصًا﴾
(الكهف: 64)
”موسٰی (علیہ السلام) نے فرمایا یہی تھا جس کی تلاش میں ہم تھے، چنانچہ وہ وہیں سے اپنے قدموں کے نشان ڈھونڈتے ہوئے واپس پلٹے۔“
ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ﴾
(المائدة: 54)
”اے ایمان والو! جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم لائے گا جو اللہ کی محبوب ہوگی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی۔“
ان ہرآیات میں ”ارْتَدُّوْا“، ”فَارْتَدَّا“ اور ”يَرْتَدَّ“ ایک ہی باب کے مختلف صیغے ہیں، اس کا مادہ ”رَدَّ“ ہے اور اس کا معنی پھرنا، واپس کرنا وغیرہ ہے اور اصطلاحی طور پر اس کی تعریف یہ ہے: ”ایسا مسلمان جو اسلام کو اختیار کرنے والا ہو، پھر اس کا کسی قول، فعل، کفریہ عقیدہ یا شک کی بنیاد پر دین اسلام سے کٹ جانا مرتد ہوتا ہے۔“
(عقوبة الاعدام ص 349)
بعض ائمہ نے اس کی تعریف یہ کی ہے:
الراجع عن دين الإسلام إلى الكفر
(والقاموس الفقهي ص 147)
”دین اسلام سے کفر کی طرف پلٹنے والا۔“
گویا مرتد ایسا شخص ہے جو اسلام لانے کے بعد واپس کفر کی طرف پلٹ گیا۔ یہ ارتداد اس کے اندر خواہ عقیدہ کی بنا پر پیدا ہو یا کسی قول و فعل اور شک وشبہ کی بنا پر، خواہ سنجیدگی سے ہو یا مذاق و ٹھٹھا سے، کیونکہ ارتداد جیسے سنجیدگی سے واقع ہوتا ہے اسی طرح استہزاء و ہزل اور ٹھٹھا و مذاق سے بھی واقع ہوتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ﴾
(التوبة: 65 ، 66)
”کہہ دیجیے کیا اللہ تعالیٰ، اس کی آیات اور اس کا رسول تمھارے ہنسی مذاق کے لیے تھے! تم بہانے نہ بناؤ، یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد کفر کر چکے ہو۔“
مرتد آدمی پکا جہنمی ہو جاتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہےرد:
﴿وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾
(البقرة: 217)
”یہ لوگ ہمیشہ تم سے لڑائی کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ اگر ان سے ہو سکے تو تمھیں تمھارے دین سے مرتد کر دیں گے اور تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہو گیا اور اس کفر کی حالت میں مر گیا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا و آخرت میں غارت ہو جائیں گے اور یہ لوگ جہنمی ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔“
مرتد کی دنیوی سزا قتل ہے، اس کے کئی ایک دلائل ہیں، پہلی دلیل یہ ہے کہ سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أن عليا رضى الله عنه حرق قوما فبلغ ابن عباس فقال لو كنت أنا لم أحرقهم لأن النبى صلى الله عليه وسلم قال لا تعذبوا بعذاب الله ولقتلتهم كما قال النبى صلى الله عليه وسلم من بدل دينه فاقتلوه
(بخاري، كتاب الجهاد والسير، باب لا يعذب بعقاب الله 3017 ، 6922 ترمذی، کتاب الحدود، باب ما جاء في المرتد 1458)
”علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو آگ میں جلا دیا، یہ بات عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انھوں نے فرمایا: اگر میں ہوتا تو انھیں آگ میں نہ جلاتا ، اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے عذاب کے ساتھ عذاب نہ دو البتہ میں انھیں قتل کر دیتا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنا دین بدل لیا اسے قتل کر دو۔“
دوسری دلیل یہ ہے کہ سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا يحل دم امرئ مسلم يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله إلا بإحدى ثلاث : النفس بالنفس والثيب الزاني والمارق لدينه التارك الجماعة
(بخاري، كتاب الديات، باب قول الله تعالى ان النفس بالنفس والعين بالعين 6878 مسند احمد 465/1 : 4429 مسلم، كتاب القسامة و المحاربين، باب ما يباح به دم المسلم 1676، ابودائود 4352، ترمذی 2014 ابن حیان 5977)
جو مسلمان لا الہ الا اللہ اور میرے رسول ہونے کی گواہی دے اس کا خون حلال نہیں مگر تین کاموں میں سے کسی ایک کی بنا پر، ایک نفس نفس کے بدلے (یعنی قاتل کو مقتول کے بدلے قصاص میں قتل کرنا) ، دوسرا شادی شدہ زانی (یعنی رجم کر کے مار دیا جائے) اور تیرا اپنے دین کو چھوڑنے والا، جماعت کو ترک کرنے والا (یعنی مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہو کر کافروں کی جماعت میں شامل ہو جائے اور دین اسلام ترک کر بیٹھے، مرتد ہو جائے )۔
مرتد کے واجب القتل ہونے کی تیسری دلیل یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كل مرتد عن الإسلام مقتول إذا لم يرجع ذكرا أو أنثى
(دارقطني 3195 ، 93/3، ط قدیم 119/3 اس اثر کی سند حسن ہے )
”اسلام سے مرتد ہونے والا ہر شخص قتل کیا جائے گا، جب وہ واپس نہ پلٹے ، خواہ مرد ہو یا عورت ۔ “
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا موقف بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔
المحلی لابن حزم (112/13) امام ابو المظفر یحیی بن محمد بن ہسبیرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واتففوا على أن المرتد عن الإسلام يحب عليه القتل
(الافصاح عن معانى الصحاح 187/2)
”اس بات پر ائمہ دین کا اتفاق ہے کہ اسلام سے مرتد ہونے والا واجب القتل ہے۔“
امام ابن قدامہ فرماتے ہیں:
وأجمع أهل العلم على وجوب قتل المرتد و روى ذلك عن أبى بكر وعمر وعثمان وعلي ومماذ وأبى موسى وابن عباس وخالد وغيرهم ولم ينكر ذلك فكان إجماعا
(المغنی 123/8)
”اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ مرتد واجب القتل ہے اور یہ بات ابو بکر، عمر، عثمان، علی ، معاذ، ابوموسی، عبد اللہ بن عباس اور خالد رضی اللہ عنہم وغیرہ سے مروی ہے اور اس کا انکار نہیں کیا گیا، پس اس پر اجماع ہو گیا۔“
یہی اجماع علامہ صنعانی، ابن دقیق العید اور کا سانی حنفی نے نقل کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو سبل السلام 263/3، أحكام الأحكام 84/3، بدائع الصنائع 134/7، بحواله عقوبة الاعدام (ص 368)
پس معلوم ہوا کہ قرآن وسنت، اجماع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اجماع اہل علم فقہاء ومحدثین کی رو سے مرتد واجب القتل ہے۔ مزید تفصیل کے لیے شیخ محمد بن سعد کی کتاب ”عقوبة الاعدام “ کا مطالعہ فرمائیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے