استغفار کی حیثیت
تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

استغفار کی حیثیت

وَإِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ
”میں دن میں سو مرتبہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ “ [صحيح مسلم 6858]
فوائد :
استغفار، اللہ سے اپنے گناہوں اور قصوروں کی معافی اور بخشش مانگنا ہے، توبہ اس کے لوازمات سے ہے بلکہ یہ دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ استغفار سے نہ صرف گناہ معاف ہو جاتے ہیں بلکہ بندے کو اس کے طفیل دنیا میں بہت کچھ ملتا ہے جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”جو بندہ استغفار کو لازم کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ بنا دے گا۔ اس کی ہر پریشانی کو دور کر کے کشادگی اور اطمینان عطا فرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق فراہم کرے گا جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہیں ہو گا۔ “ [ ابوداود، الصلاة : 1518 ]
واضح رہے کہ مذکورہ وعدہ صرف زبان سے کلمات استغفار کر لینے پر نہیں بلکہ استغفار کی حقیقت پر ہے جس کی ہم نے ابتداء میں وضاحت کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو مبارکباد دی ہے جس کے نامہ اعمال میں بہت زیادہ استغفار ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” مبارک ہو اس بندے کو جو اپنے اعمال نامے میں بہت زیادہ استغفار پائے۔ “ [ابن ماجه، الادب : 3818 ]
یاد رہے کہ نامہ اعمال میں حقیقی استغفار کے طور پر وہی استغفار درج ہو گا جو حقیقت کے اعتبار سے اللہ کے ہاں بھی استغفار ہو گا اور جو صرف زبانی کلامی ہو گا اس کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کچھ بھی حقیقت نہ ہو گی۔ والله المستعان

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل