استانیوں کا مذاق اڑانا اور انہیں برے القاب سے پکارنا
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

بعض طالبات معلمات کا مذاق اڑاتی ہیں اور انہیں برے القابات سے پکارتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہم تو صرف مذاق کر رہی ہیں۔ اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب :

مسلمان کو ایسی چیزوں سے اپنی زبان کو محفوظ رکھنا چاہیے جو کسی کی ایذاء اور بےعزتی کا باعث بنتی ہوں۔ حدیث شریف میں ہے :
لا تؤذوا المسلمين ولا تتبعوا عوراتهم [الترغيب والترهيب للمنذري 3/ 239 ومجمع الزوائد 246/6]
”مسلمانوں کو تکلیف نہ دو اور ان کی پوشیدہ چیزوں کی ٹوہ میں نہ لگے رہو۔“
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ [104-الهمزة:1]
”ہلاکت ہے پس پشت عیب جوئی کرنے والے کے لئے۔“
هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [68-القلم:11]
”طعنہ باز (عیب گو) ہے، چلتا پھرتا چغل خور ہے۔“
وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ [49-الحجرات:11]
”اور ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو۔“
مسلمان کی تنقیص اور ایذاء رسانی حرام ہے۔
[شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے