وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : لَمَّا أَمَرَ النَّبِيُّ عَلَ بِالنَّاقُوسِ يُعْمَلُ لِيُضْرَبَ بِهِ لِلنَّاسِ لِجَمْعِ الصَّلَاةِ؛ طَافَ بِي وَأَنَا نَائِمٌ رَجُلٌ يَحْمِلُ نَاقُوسًا فِي يَدِهِ فَقُلْتُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ أَتَبِيعُ هَذَا النَّاقُوسُ ؟ قَالَ: وَمَا تَصْنَعُ بِهِ؟ قُلْتُ: نَدْعُوا بِهِ إِلَى الصَّلَاةِ. قَالَ: أَفَلَا أَدُلُّكَ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْ ذلِكَ؟ قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ بَلى. قَالَ: تَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ حَى عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ قَالَ: ثُمَّ اسْتَأْخَرَ عَنِّى غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ قَالَ: ثُمَّ تَقُولُ إِذَا أَقَمْتَ الصَّلَاةَ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. قَالَ : فَلَمَّا أَصْبَحْتُ أَتَيْتُ النَّبِيِّ لَا فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا رَأَيْتُ، فَقَالَ [النَّبِيُّ ] إِنَّهَا لَرُؤْيَا حَقٌّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ فَقُمْ مَعَ بِلَالٍ فَأَلْقِ عَلَيْهِ مَا رَأَيْتَ فَلْيُؤَذِّنُ بِهِ ۚ فَإِنَّهُ أَندَى صَوْتًا مِنْكَ فَقُمْتُ مَعَ بِلَالٍ فَجَعَلْتُ الْقِيْهِ عَلَيْهِ وَيُؤَذِّنُ بِهِ قَالَ فَسَمِعَ ذلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ فَخَرَجَ [وَهُوَ يَحُرُّرِ دَاءَ هُ]
وَيَقُولُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَقَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ مَا رَأَى فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ : فَلِلَّهِ الْحَمْدُ
أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ اسْحَقَ وَصَحْحَهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ .
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ جب نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے حکم دیا کہ ناقوس بنایا جائے تاکہ لوگوں کو نماز کے لیے جمع کرنے کی خاطر اسے بجایا جائے ایک آدمی نے جبکہ میں سویا ہوا تھا میرے چکر لگایا اس نے اپنے ہاتھ میں ناقوس اٹھایا ہوا تھا ، میں نے کہا اے اللہ کے بندے کیا تو یہ ناقوس بیچے گا اس نے کہا: آپ اس کا کیا کریں گے ؟ میں نے کہا: ہم اس کے ذریعے نماز کے لیے بلایا کریں گے ! اس نے کہا کیا میں تجھے اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟ میں نے کہا کیوں نہیں ۔ اس نے کہا آپ یہ کہیں ! ” الله اكبر الله اكبر“ اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے ” اشهد ان لا اله الا الله“ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا معبود حقیقی نہیں ” اشهد ان لا اله الا الله“ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ” اشهد ان محمد رسول الله“ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ” اشهد ان محمد رسول الله“ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ” حي على الصلوة“ آؤ نماز کی طرف ” حي على الفلاح“ آؤ کامیابی کی طرف ” قد مامت الصلوة“ نماز قائم ہو گئی ” قد قامت الصلوة “ نماز قائم ہو گئی ” الله اكبر الله اكبر“ اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے ” لا اله الا الله“ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں، راوی کہتا ہے کہ جب میں نے صبح کی تو میں نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے پاس آیا جو میں نے خواب میں دیکھا تھا وہ آپ کو بتایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ان شاء اللہ یہ برحق خواب ہے آپ بلال کے ساتھ کھڑے ہوں اور اسے جو آپ نے دیکھا بتا ئیں اور وہ ان کلمات کے ساتھ اذان کہے اس کی آواز تجھ سے زیادہ اونچی ہے“ میں بلال کے ساتھ کھڑا ہوا میں اسے بتانے لگا اور وہ ان کلمات سے اذان دینے لگا، حضرت عمر بن خطاب نے سنا وہ اس وقت اپنے گھر میں تھے وہ چاور گھسیٹتے دوڑے آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے ، میں نے بھی خواب میں یہی کچھ دیکھا جو اس نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اللہ کا شکر ہے“ ۔
ابوداؤد نے ابن اسحاق کے حوالے سے حدیث بیان کی ہے اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
تحقیق و تخریج :
یہ حدیث حسن ہے ۔ مسند امام احمد بن حنبل : 4/ 43 ابوداؤد : 499 ، ترمذی : 189 ترمذی نے کہا کہ یہ روایت حسن صحیح ہے ۔ ابن ماجه : 706،ابن خزیمه : 371؛ ابن حبان : 287 ، بیهقی : 1/ 391،390، یہ حدیث ابوداؤد کے ”باب کیف الاذان“ میں مذکور ہے ۔
فوائد :
➊ اذان کا مطلب ہے ”پکارنا، ندا دینا“مراد نماز کے لیے بلانا ۔ اذان عبداللہ بن زید اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خوابوں اور دیگر صحابہ کے مشوروں کا نتیجہ ہے ۔ اذان مدینہ منورہ میں ہجرت کے پہلے سال میں شروع ہوئی ۔
➋ وہ کلمات جو اس حدیث میں موجود ہیں ان کے علا وہ اذان سے پہلے کچھ غیر ضروری الفاظ کہنا درمیان اذان کچھ اضافے کرنا یا اذان کے بعد سوائے دعائے اذان اور دردرد ابراہیمی کے کچھ پڑھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یا صحابہ کے دور کی اذان سے ثابت نہیں ہے ۔
➌ اذان کے کلمات یہ بتاتے ہیں کہ توحید درسالت پہ گامزن رہنا چاہیے اذان ہمیں نماز جیسے فلاج دارین رکن کی طرف بلاتی ہے ۔ اذان وہ آدمی کہے جو بلند آواز کا مالک ہو اور آواز خوبصورت بھی ہو تربیت دینے کے لیے ایک آدمی یا استاد کا اپنے شاگر دیا آدمی کو تربیت دیتے ہوئے اذان کے کلمات سکھانا درست ہے ۔ اسی طرح ایک ایک کلمہ کر کے بھی مکمل اذان کا القاء کرنا درست ہے ۔
➍ خرید و فروخت کے وقت خیرخواہی کا حساب یہاں تک ہونا چاہیے کہ ایک پسند کی چیز خریدنے والے مسلمان بھائی کو اس کی توقع سے بڑھ کر ایسی چیز خریدنے کی پیشکش کرنی چاہیے جو فوائد کے اعتبار سے اس کے لیے ہر لحاظ سے اچھی ہو ۔
➎ اچھے اور بچے خواب آنا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں یہ نبوت کا چالیسواں حصہ ہوتے ہیں ۔ خواب کی تعبیر صاحب ادراک ذی شعور ادر علم سے لبریز شخصیت سے کروانی چاہیے جو کہ انسانیت کی ہمدردی اپنے جگر میں رکھتا ہو جاہل یا تعبیری فن سے نا آشنا کو خواب سنانا، گھر مجلس یا دوست و احباب کو خواب بتانا یہ درست نہیں ہے خواب کی تعبیر جب لگ جاتی ہے تو اسی طرح واقع ہو جاتا ہے اچھا خواب آنا اچھے اور نیک ہونے کی علامت ہوتی ہے مثال کے طور پر عام آدمی کو یہ سنائے کہ ”خواب میں وہ مرگیا ہے“ تو جاہل آدمی فور اً کہہ دے گا کہ تو مر جائے گا اس تعبیر سے تو اس کی جان جا سکتی ہے ۔ اس لیے جو خوابوں کی تعبیر کا ماہر ہو اور خیر خواہ ہو حاسد نہ ہو اس سے تعبیر کروانی چاہیے ۔
➏ خوشی یا جلدی کی وجہ سے چادر یا شلوار زمین پر لگتی جارہی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے شلوار یا چادر کو ہمیشہ ٹخنوں سے اوپر رکھنا چاہیے اگر شلوار یا چادر کو فخر سے جان بوجھ کر اتراتے ہوئے ٹخنوں سے نیچے رکھا ہو تو ایسا انسان قابل گرفت ہو گا اور مخالف سنت ہو گا ۔
➐ اسلام میں حق کی حمایت میں اور باطل کی مخالفت میں شہادت دیناجائز ہے ۔ جیسے حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ رضی اللہ عنہ نے آکر خواب میں ملی اذان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا تو اسی اذان کو سن کر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ انہوں نے بھی یہی اذان والا خواب دیکھا ہے ۔ اسلام کی پاسداری میں اگر مزید گواہیاں نہ ملیں تو ایک شخص کی بات بھی کافی ہوتی ہے جیسے حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اذان کے متعلق رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کیا تو آپ نے فرمایا یہ کلمات بلال رضی اللہ عنہ کو بتاتے جاؤ وہ اذان کہتے ہیں ۔ کسی بات کی مزید توثیق ہو جائے تواللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” فلله الحمد “ جب مزید حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آکر عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی تصدیق کی تھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت برحق ہے اور انبیاء کرام کو اللہ تعالیٰ ہی مبعوث فرمایا کرتے ہیں بس اس رب جلیل کی ہی قسم اٹھانا یا اٹھا کر بات کو پختہ بنانا چاہیے اور اسی کی تعریف کرنی چاہیے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” والذي بعثك بالحق “ ۔ وہ ذات جس نے آپ کو برحق مبعوث کیا ۔
➑ مجلس شوریٰ کا قائم کرنا اسلام کا وصف ہے اس میں ہر صاحب رائے کو مشورہ دینے کا موقعہ ملتا ہے ایک نبی بھی اپنی امت کے ذہین لوگوں سے مشاورت کرنے کو ترجیح دیتا ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے بلانے کے لیے صحابہ سے مشورے طلب کیے ۔ کسی نے بگل بجانے کا مشورہ دیا کسی نے آگ جلا کر بلند کرنے کا مشورہ دیا کسی نے ناقوس کا مشورہ دیا الغرض باہمی مشاورت سے اذان کو ایک امتیاز باوقار ملا ۔
وَيَقُولُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَقَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ مَا رَأَى فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ : فَلِلَّهِ الْحَمْدُ
أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ اسْحَقَ وَصَحْحَهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ .
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ جب نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے حکم دیا کہ ناقوس بنایا جائے تاکہ لوگوں کو نماز کے لیے جمع کرنے کی خاطر اسے بجایا جائے ایک آدمی نے جبکہ میں سویا ہوا تھا میرے چکر لگایا اس نے اپنے ہاتھ میں ناقوس اٹھایا ہوا تھا ، میں نے کہا اے اللہ کے بندے کیا تو یہ ناقوس بیچے گا اس نے کہا: آپ اس کا کیا کریں گے ؟ میں نے کہا: ہم اس کے ذریعے نماز کے لیے بلایا کریں گے ! اس نے کہا کیا میں تجھے اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟ میں نے کہا کیوں نہیں ۔ اس نے کہا آپ یہ کہیں ! ” الله اكبر الله اكبر“ اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے ” اشهد ان لا اله الا الله“ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا معبود حقیقی نہیں ” اشهد ان لا اله الا الله“ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ” اشهد ان محمد رسول الله“ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ” اشهد ان محمد رسول الله“ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ” حي على الصلوة“ آؤ نماز کی طرف ” حي على الفلاح“ آؤ کامیابی کی طرف ” قد مامت الصلوة“ نماز قائم ہو گئی ” قد قامت الصلوة “ نماز قائم ہو گئی ” الله اكبر الله اكبر“ اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے ” لا اله الا الله“ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں، راوی کہتا ہے کہ جب میں نے صبح کی تو میں نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے پاس آیا جو میں نے خواب میں دیکھا تھا وہ آپ کو بتایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ان شاء اللہ یہ برحق خواب ہے آپ بلال کے ساتھ کھڑے ہوں اور اسے جو آپ نے دیکھا بتا ئیں اور وہ ان کلمات کے ساتھ اذان کہے اس کی آواز تجھ سے زیادہ اونچی ہے“ میں بلال کے ساتھ کھڑا ہوا میں اسے بتانے لگا اور وہ ان کلمات سے اذان دینے لگا، حضرت عمر بن خطاب نے سنا وہ اس وقت اپنے گھر میں تھے وہ چاور گھسیٹتے دوڑے آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے ، میں نے بھی خواب میں یہی کچھ دیکھا جو اس نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اللہ کا شکر ہے“ ۔
ابوداؤد نے ابن اسحاق کے حوالے سے حدیث بیان کی ہے اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
تحقیق و تخریج :
یہ حدیث حسن ہے ۔ مسند امام احمد بن حنبل : 4/ 43 ابوداؤد : 499 ، ترمذی : 189 ترمذی نے کہا کہ یہ روایت حسن صحیح ہے ۔ ابن ماجه : 706،ابن خزیمه : 371؛ ابن حبان : 287 ، بیهقی : 1/ 391،390، یہ حدیث ابوداؤد کے ”باب کیف الاذان“ میں مذکور ہے ۔
فوائد :
➊ اذان کا مطلب ہے ”پکارنا، ندا دینا“مراد نماز کے لیے بلانا ۔ اذان عبداللہ بن زید اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خوابوں اور دیگر صحابہ کے مشوروں کا نتیجہ ہے ۔ اذان مدینہ منورہ میں ہجرت کے پہلے سال میں شروع ہوئی ۔
➋ وہ کلمات جو اس حدیث میں موجود ہیں ان کے علا وہ اذان سے پہلے کچھ غیر ضروری الفاظ کہنا درمیان اذان کچھ اضافے کرنا یا اذان کے بعد سوائے دعائے اذان اور دردرد ابراہیمی کے کچھ پڑھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یا صحابہ کے دور کی اذان سے ثابت نہیں ہے ۔
➌ اذان کے کلمات یہ بتاتے ہیں کہ توحید درسالت پہ گامزن رہنا چاہیے اذان ہمیں نماز جیسے فلاج دارین رکن کی طرف بلاتی ہے ۔ اذان وہ آدمی کہے جو بلند آواز کا مالک ہو اور آواز خوبصورت بھی ہو تربیت دینے کے لیے ایک آدمی یا استاد کا اپنے شاگر دیا آدمی کو تربیت دیتے ہوئے اذان کے کلمات سکھانا درست ہے ۔ اسی طرح ایک ایک کلمہ کر کے بھی مکمل اذان کا القاء کرنا درست ہے ۔
➍ خرید و فروخت کے وقت خیرخواہی کا حساب یہاں تک ہونا چاہیے کہ ایک پسند کی چیز خریدنے والے مسلمان بھائی کو اس کی توقع سے بڑھ کر ایسی چیز خریدنے کی پیشکش کرنی چاہیے جو فوائد کے اعتبار سے اس کے لیے ہر لحاظ سے اچھی ہو ۔
➎ اچھے اور بچے خواب آنا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں یہ نبوت کا چالیسواں حصہ ہوتے ہیں ۔ خواب کی تعبیر صاحب ادراک ذی شعور ادر علم سے لبریز شخصیت سے کروانی چاہیے جو کہ انسانیت کی ہمدردی اپنے جگر میں رکھتا ہو جاہل یا تعبیری فن سے نا آشنا کو خواب سنانا، گھر مجلس یا دوست و احباب کو خواب بتانا یہ درست نہیں ہے خواب کی تعبیر جب لگ جاتی ہے تو اسی طرح واقع ہو جاتا ہے اچھا خواب آنا اچھے اور نیک ہونے کی علامت ہوتی ہے مثال کے طور پر عام آدمی کو یہ سنائے کہ ”خواب میں وہ مرگیا ہے“ تو جاہل آدمی فور اً کہہ دے گا کہ تو مر جائے گا اس تعبیر سے تو اس کی جان جا سکتی ہے ۔ اس لیے جو خوابوں کی تعبیر کا ماہر ہو اور خیر خواہ ہو حاسد نہ ہو اس سے تعبیر کروانی چاہیے ۔
➏ خوشی یا جلدی کی وجہ سے چادر یا شلوار زمین پر لگتی جارہی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے شلوار یا چادر کو ہمیشہ ٹخنوں سے اوپر رکھنا چاہیے اگر شلوار یا چادر کو فخر سے جان بوجھ کر اتراتے ہوئے ٹخنوں سے نیچے رکھا ہو تو ایسا انسان قابل گرفت ہو گا اور مخالف سنت ہو گا ۔
➐ اسلام میں حق کی حمایت میں اور باطل کی مخالفت میں شہادت دیناجائز ہے ۔ جیسے حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ رضی اللہ عنہ نے آکر خواب میں ملی اذان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا تو اسی اذان کو سن کر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ انہوں نے بھی یہی اذان والا خواب دیکھا ہے ۔ اسلام کی پاسداری میں اگر مزید گواہیاں نہ ملیں تو ایک شخص کی بات بھی کافی ہوتی ہے جیسے حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اذان کے متعلق رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کیا تو آپ نے فرمایا یہ کلمات بلال رضی اللہ عنہ کو بتاتے جاؤ وہ اذان کہتے ہیں ۔ کسی بات کی مزید توثیق ہو جائے تواللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” فلله الحمد “ جب مزید حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آکر عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی تصدیق کی تھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت برحق ہے اور انبیاء کرام کو اللہ تعالیٰ ہی مبعوث فرمایا کرتے ہیں بس اس رب جلیل کی ہی قسم اٹھانا یا اٹھا کر بات کو پختہ بنانا چاہیے اور اسی کی تعریف کرنی چاہیے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” والذي بعثك بالحق “ ۔ وہ ذات جس نے آپ کو برحق مبعوث کیا ۔
➑ مجلس شوریٰ کا قائم کرنا اسلام کا وصف ہے اس میں ہر صاحب رائے کو مشورہ دینے کا موقعہ ملتا ہے ایک نبی بھی اپنی امت کے ذہین لوگوں سے مشاورت کرنے کو ترجیح دیتا ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے بلانے کے لیے صحابہ سے مشورے طلب کیے ۔ کسی نے بگل بجانے کا مشورہ دیا کسی نے آگ جلا کر بلند کرنے کا مشورہ دیا کسی نے ناقوس کا مشورہ دیا الغرض باہمی مشاورت سے اذان کو ایک امتیاز باوقار ملا ۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]