وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم : مَنْ قَالَ حِيْنَ يَسْمَعُ النِّدَاءَ : اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَةِ ، وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ ، وَالْفَضِيلَةَ ، وَالدَّرَجَةَ الرَّفِيعَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ، إِلَّا حَلَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جس نے یہ کلمات کہے جب وہ اذان سن لیتا ہے ۔ “
اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ الثَّامَةِ ، وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا اَلْوَسِيلَةَ ، وَالْفَضِيلَةَ ، وَالدَّرَجَةَ الرَّفِيعَةَ وَابْعَتُهُ مَقَامًا مَحْمُودَان الَّذِي وَعَدُتَهُ ، إِلَّا حَلْتلَهُ الشَّفَاعَةُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
”اے اللہ ! جو اس پوری دعوت کا رب ہے اور قائم ہونے والی نماز کا رب ہے ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور ان کو بلند درجہ پر فائز فرما اور ان کو مقام محمود پر بھیج دے جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے ۔“ قیامت کے دن اسے شفاعت نصیب ہو گی ۔ مسلم کے علاوہ محدثین نے اسے روایت کیا ۔
تحقیق و تخریج : بخاری : 471،614
فوائد :
➊ اذان کا جواب دینا مسنون ہے اذان کا جواب بالکل وہی دینا چاہیے جو مؤذن بول رہا ہے ۔
➋ اذان سننا اور مؤذن کے کلمات کا جواب دینا مشروع ہے پاکی ناپاکی دونوں میں درست ہے لیکن بیت الخلاء میں یا بول و براز کی مصروفیت میں اذان کا جواب دینے سے رکنا چاہیے ۔
➌ اللہ تعالیٰ کی مساجد سے گونج کر آنے والی صداؤں کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کا احترام کیا جائے ۔ ہم زیادہ حق دار ہیں کہ اللہ کے پیغام کو دل جمعی سے سنیں ۔ اور اس کا جواب دیں اذان کا احترام اتنا ہی کافی ہے کہ اس کو سنیں اور جواب دیں اور بعد میں دعا ، درود پڑھیں ۔ مؤذن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اذان معتدل انداز سے دے ۔ اذان کو حد سے بڑھ کر طویل کرنا یا بالکل چھ سات سیکنڈ میں اذان کہنا درست نہیں ہے ۔
➍ اذان کا جواب چلتے ہوئے ، بیٹھ کر لیٹے ہوئے اور دیگر انداز سے دینا درست ہے اذان کو سننے کے لیے رک جانا یا کھڑے ہیں تو فوراً بیٹھ جاتا ۔ یا جب تک سر پر ٹوپی کپڑا نہ ہو اس وقت تک جواب نہ دینا یہ تکلفات ہیں سوائے پیشاب جماع یا بیت الخلا میں بیٹھے کے ، پاکی ناپاکی میں جواب دیا جا سکتا ہے ۔ اذان کا جواب اس طرح ہے کہ کبھی اذان کو مؤذن کے پیچھے پیچھے دہرائے جائیں حي على الصلواة اور حي على الفلاح پر لاحول ولاقوة الا بالله کہنا ہے باقی سبھی اذان اسی طرح کہنا ہے ۔ اذان کے بعد یہ دعا اللهم رب هذه الدعوة … پڑھنی چاہیے اس کے بعد درود شریف بھی پڑھ سکتے ہیں ۔
➎ اذان کا جواب صدق دل سے دینا جنت میں دخول کا ذریعہ ہے اور اذان کے بعد دعا پڑھنا روز قیامت شفاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت کا باعث ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جس نے یہ کلمات کہے جب وہ اذان سن لیتا ہے ۔ “
اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ الثَّامَةِ ، وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا اَلْوَسِيلَةَ ، وَالْفَضِيلَةَ ، وَالدَّرَجَةَ الرَّفِيعَةَ وَابْعَتُهُ مَقَامًا مَحْمُودَان الَّذِي وَعَدُتَهُ ، إِلَّا حَلْتلَهُ الشَّفَاعَةُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
”اے اللہ ! جو اس پوری دعوت کا رب ہے اور قائم ہونے والی نماز کا رب ہے ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور ان کو بلند درجہ پر فائز فرما اور ان کو مقام محمود پر بھیج دے جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے ۔“ قیامت کے دن اسے شفاعت نصیب ہو گی ۔ مسلم کے علاوہ محدثین نے اسے روایت کیا ۔
تحقیق و تخریج : بخاری : 471،614
فوائد :
➊ اذان کا جواب دینا مسنون ہے اذان کا جواب بالکل وہی دینا چاہیے جو مؤذن بول رہا ہے ۔
➋ اذان سننا اور مؤذن کے کلمات کا جواب دینا مشروع ہے پاکی ناپاکی دونوں میں درست ہے لیکن بیت الخلاء میں یا بول و براز کی مصروفیت میں اذان کا جواب دینے سے رکنا چاہیے ۔
➌ اللہ تعالیٰ کی مساجد سے گونج کر آنے والی صداؤں کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کا احترام کیا جائے ۔ ہم زیادہ حق دار ہیں کہ اللہ کے پیغام کو دل جمعی سے سنیں ۔ اور اس کا جواب دیں اذان کا احترام اتنا ہی کافی ہے کہ اس کو سنیں اور جواب دیں اور بعد میں دعا ، درود پڑھیں ۔ مؤذن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اذان معتدل انداز سے دے ۔ اذان کو حد سے بڑھ کر طویل کرنا یا بالکل چھ سات سیکنڈ میں اذان کہنا درست نہیں ہے ۔
➍ اذان کا جواب چلتے ہوئے ، بیٹھ کر لیٹے ہوئے اور دیگر انداز سے دینا درست ہے اذان کو سننے کے لیے رک جانا یا کھڑے ہیں تو فوراً بیٹھ جاتا ۔ یا جب تک سر پر ٹوپی کپڑا نہ ہو اس وقت تک جواب نہ دینا یہ تکلفات ہیں سوائے پیشاب جماع یا بیت الخلا میں بیٹھے کے ، پاکی ناپاکی میں جواب دیا جا سکتا ہے ۔ اذان کا جواب اس طرح ہے کہ کبھی اذان کو مؤذن کے پیچھے پیچھے دہرائے جائیں حي على الصلواة اور حي على الفلاح پر لاحول ولاقوة الا بالله کہنا ہے باقی سبھی اذان اسی طرح کہنا ہے ۔ اذان کے بعد یہ دعا اللهم رب هذه الدعوة … پڑھنی چاہیے اس کے بعد درود شریف بھی پڑھ سکتے ہیں ۔
➎ اذان کا جواب صدق دل سے دینا جنت میں دخول کا ذریعہ ہے اور اذان کے بعد دعا پڑھنا روز قیامت شفاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت کا باعث ہے۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]