طائفہ منصورہ، ائمہ محدثین کے خلاف بعض لوگوں نے قرآن و حدیث کےخلاف یہ عقیدہ گھڑ رکھا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔ اس باطل اور انتہائی گمراہ کن عقیدےکےخلاف حدیثی دلائل اختصاراً ملاحظہ فرمائیں :
مضمون کے اہم نکات:
دليل نمبر 1 :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے :
فقدت رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة من الفراش، فالتمسته …
’’ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر سے گم پایا اور ان کو تلاش کرنے لگی۔۔۔“ (صحيح مسلم: 192/1، ح:486)
دليل نمبر 2 :
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
أصبح الناس وقد فقدوا نبيهم.
’’صبح ہوئی تو لوگوں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گم پایا۔۔۔“ (صحيح مسلم: 239/1، ح:681)
دليل نمبر 3 :
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة، ففقدناه. فالتمسناه في الأودية والشعاب. فقلنا: استطير أواغتيل. قال فبتنا بشر ليلة بات بها قوم. فلما أصبحنا إذا هو جاء من قبل حراء. قال فقلنا: يا رسول الله ! فقدناك فطلبناك فلم نجدك فبتنا بشر ليلة بات بها قوم.
’’ہم ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ تھے۔ اچانک ہم نے آپ کو گم پایا۔ ہم نے آپ کو وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کیا۔ پھر ہم نے کہا کہ (شاید) آپ پر جنوں یا انسانوں نے پراسرار طور پر حملہ کر دیا ہو۔ ہم نے وہ ساری رات سخت ترین پریشانی اور اذیت میں گزاری۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حراء کی جانب سے تشریف لائے۔ ہم نے عرض کی : اللہ کے رسول ! ہم نے آپ کو گم پایا اور تلاش کرتے رہے لیکن آپ کہیں نہ ملے، لہٰذا ہم نے پوری رات سخت ترین پریشانی اور اذیت میں گزاری۔۔۔“ (صحيح مسلم: 184/1، ح:450)
دليل نمبر 4 :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
افتقدت رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة فظننت أنه ذهب إلى بعض نسائه، فتحسست، ثم رجعت، فإذا هو راكع أو ساجد، يقول : سبحانك وبحمدك لا إله إلا أنت.
”ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (بستر سے ) گم پایا۔ میں نے سمجھا کہ آپ کسی بیوی کے گھر چلے گئے ہوں گے۔ میں نے تلاش کیا، پھر واپس لوٹی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع یا سجدے میں یہ دعا پڑھ رہےتھے : سبحانك وبحمدك لا إله إلا أنت …“ (صحيح مسلم: 192/1، ح:485)
دليل نمبر 5 :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم فقد أناسا فى بعض الصلوات.
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز میں کچھ لوگوں کو گم پایا۔۔۔“ (صحيح مسلم: 222/1، ح:651)
دليل نمبر 6 :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إن امرأة سوداء كانت تقم المسجد، أو شابا، ففقدھا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسأل عنھا أو عنه، فقالوا : مات …
’’ایک عورت یا نوجوان کی عادت مسجد میں جھاڑو دینے کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گم پایا تو اس کے بارے میں دریافت فرمایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اس کی وفات ہو گئی ہے۔“ (صحيح مسلم: 309/1، ح:956)
دليل نمبر 7 :
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :
أن النبي صلى الله عليه وسلم افتقد ثابت بن قيس، فقال رجل: يا رسول الله ! أنا أعلم لك علمه، فأتاه فوجده جالساً في بيته منكساً رأسه.
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو گم پایا۔ ایک آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں آپ کو ان کے بارے میں آگاہی دیتا ہوں۔ وہ شخص آیا تو دیکھا کہ وہ اپنے گھر میں سر جھکائے بیٹھے ہیں۔“ (صحيح البخارى: 510/1، ح:3613)
دليل نمبر 8 :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إنه لقى النبي صلى الله عليه وسلم فى طريق من طرق المدينة، وھو جنب، فانسل، فذھب، فاغتسل، فتفقده النبي صلى الله عليه وسلم، فلما جاءه قال: أين كنت يا أباھريرة؟
’’وہ مدینہ منورہ کے ایک راستے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔ اس وقت وہ جنابت کی حالت میں تھے، لہٰذا چپکے سے کھسک گئےاور جا کر غسل کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تلاش کیا۔ جب وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابوہریرہ ! تم کہاں تھے؟“ (صحيح مسلم: 162/1، ح:371)
دليل نمبر 9 :
سیدنا قرہ بن ایاس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری صحابی کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنا جانا تھا۔ ان کے ساتھ ایک بچہ بھی ہوا کرتا تھا۔ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں ؟ صحابی نے عرض کی : جی، اللہ کے رسول !۔۔۔ ففقده النبي صلى الله عليه وسلم، فسأل عنه، فقالوا : يا رسول الله ! مات ابنه. ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گم پایا تو اس کے بارے میں دریافت فرمایا۔ صحابہ کرام نے عرض کی : اللہ کے رسول ! اس کا بیٹا فوت ہو گیا ہے۔“ (مسند الطيالسي: ص 145، مسند الامام احمد: 436/3، سنن النسائي:1871، المستدرك علي الصحيحين للحاكم:384/1، وسنده صحيح)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (۲۹۴۷) نے ’’صحیح“ کہا ہے۔
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ھذا حديث صحيح الإسناد. ’’اس حدیث کی سند صحیح ہے۔“
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’صحیح“ قرار دیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إسناده صحيح. ’’اس کی سند صحیح ہے۔ (فتح الباري لابن حجر: 361/3)
دليل نمبر 10 :
سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة له، قال: فلما أفاء الله عليه، قال لأصحابه: هل تفقدون من أحد ؟ قالوا: نفقد فلانا، ونفقد فلانا، قال: انظروا، هل تفقدون من أحد ؟ قالوا: لا، قال: لكني أفقد جليبيبا . قال: فاطلبوه في القتلى. قال: فطلبوه، فوجدوه إلى جنب سبعة قد قتلهم، ثم قتلوه.
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوے میں نکلے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کومالِ غنیمت عطا کیا تو آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا : کیا تم کسی کو گم پاتے ہو؟ صحابہ نے عرض کی : ہم فلاں اور فلاں کو گم پاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دیکھو، کیا کسی اور کو بھی گم پاتے ہو؟ صحابہ نے عرض کی : نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لیکن میں تو جلیبیب کو گم پاتا ہوں۔ انہیں مقتولین میں تلاش کرو۔ صحابہ کرام نے تلاش کیا تو انہیں سات کفار کے پہلو میں پایا جنہیں جلیبیب رضی اللہ عنہ نے قتل کیا تھا، پھر کفار نے انہیں قتل کر دیا تھا۔“ (مسند الامام احمد: 422/4، وسنده صحيح)
تلك عشرة كاملة. یہ صحیح احادیث کی صورت میں پورے دس دلائل ہیں۔
ان دلائل سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات ِ مبارکہ میں بھی ہر جگہ حاضر و ناظر نہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے اور صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گم ہو جایا کرتے تھے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر تھے تو ایسا کیوں ہوتا تھا؟
اس سلسلے میں ایک اور حدیث پیش خدمت ہے۔
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :
كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فقال : يا مغيرة! خذ الإداوة، فأخذتھا، فانطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتي توارى عنى فقضى حاجته.
’’میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے مغیرہ ! (پانی والا) برتن پکڑو۔ میں نے برتن پکڑ لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے گئے حتی کہ مجھ سے چھپ گئےاور قضائے حاجت سے فارغ ہوئے۔“ (صحيح البخارى: 52/1، ح:363، صحيح مسلم: 133/1، ح:274)
کیا جو شخص دوسروں سے اتنا دُور ہو جائے کہ ان کی آنکھوں سے اوجھل ہو جائے، وہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہوتا ہے؟ عقلی طور پر بھی یہ محال اور ناممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر ہوں کیونکہ ہر جگہ میں تو گندگی اور غلاظت والی جگہیں بھی شامل ہیں، نیز لوگوں کی خلوت گاہیں اور ایسی جگہیں بھی شامل ہیں جن کو ایک عام مسلمان بھی دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ کسی مسلمان کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے پاس حاضر و ناظر ہوتے ہوئے اپنی زندگی کے سارےمعاملات کو انجام دے سکے۔ بہت سے جائز معاملات ایسے ہیں کہ ایک مسلمان مر تو سکتا ہے لیکن ان کو کسی دوسرے مسلمان بھائی کے سامنے بھی انجام نہیں دے سکتا چہ جائیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر و ناظر ہوتے ہوئے وہ ایسا کرے ! ! !
قارئین کرام سے ہماری درخواست ہے کہ وہ مذکورہ دلائل کو غور سے ملاحظہ فرمائیں اور ! ! فیصلہ کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے کا عقیدہ غلط ہے یا صحیح ! ! !