کیا تہجد کی آذان دینا مسنون ہے؟
تحریر : ابو ضیاد محمود احمد غضنفر حفظ اللہ

وَعَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أن النبى لم قَالَ : إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤْذِنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ – لَفْظُ رِوَايَةِ الْبُخَارِي
سالم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا :”بلال رات کو اذان دیتا ہے تو تم کھایا پیا کرو یہاں تک کہ عبداللہ بن ام مکتوم اذان دے ۔“ [متفق عليه]
تحقیق و تخریج :
بخاري : 620،617، 623 ،1918، 2656، 7248، مسلم : 1092 ۔
فوائد :
➊ لوگوں کو بیدار کرنے کی غرض سے طلوع فجر سے پہلے اذان دینا جائز ہے ۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اکثر تہجد کی اذان کہا کرتے تھے ۔ یہ فرض نہیں ہے ۔ اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ فرض نمازوں کے علاوہ کئی امور کے لیے اذان کہی جا سکتی ہے ۔ مثال کے طور پر بچہ پیدا ہو تو اس کے کان میں اذان کہنا ، لوگوں کی نماز کی تیاری یا روزہ رکھنے کی غرض سے اذان کہنا بارشیں نہ ہوں تو بارش کی طلب کے لیے اذان دینا، یا زیادہ بارش برس رہی ہو تھم نہ رہی ہو تو اذان کہنا وغیرہ یہ تمام تر اذانیں جائز ہیں فرض نہیں ہیں ۔
➋ حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ فجر کی اذان کہتے تھے یہ نابینا مؤذن صحابی تھے ۔
➌ جہاں آدمی اپنے نام کو والد کی طرف منسو ب کرتا ہے وہاں والدہ کی طرف بھی منسو ب کر سکتا ہے جیسے عبداللہ بن ام مکتوم محمد
بن حنفیہ رضی اللہ عنہ وغیرہ ۔
➍ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ فجر کی اذان شروع ہو جائے تو روزہ رکھنے سے رک جانا چاہیے یا مزید کھانا کھانے سے اجتناب کرنا چاہیے اپنی طرف سے رعایت رکھ کر کھاتے چلے جانا حتی کہ سارے شہر کی سبھی اذانیں ختم ہو جائیں یہ درست نہیں ہے ۔
وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: إِنَّ بلالًا أَذْنَ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ لَمْ أَنْ يَرْجِعَ فَيُنَادِي: أَلَا إِنَّ الْعَبْدَ نَامَ أَلَا إِنَّ الْعَبْدَ نام
أخْرَجَهُ أبو دَاوُدَ، وَقَدْ أُعِلَّ [ الْحَدِيثُ ]
حماد بن سلمہ نے ایو ب سے روایت کیا ، اس نے نافع سے اور اس نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بلال نے طلوع فجر سے پہلے اذان دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ دوبارہ اعلان کرے خبر دار بندہ سو گیا خبر دار بندہ سو گیا ۔
ابوداؤد نے اس حدیث کو معلل قرار دیا ۔
تحقیق و تخریج :
یہ حدیث ضعیف ہے ۔ ترمذی : 1/ 605،امام ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث غیر محفوظ ہے ۔ ابوداؤد : 332 ، دار قطنی : 1/ 345،244، التلخيص : 1/ 179
فوائد :
➊ یہ روایت ضعیف ہے اگر مان بھی لیا جائے تو اس کا مفہوم یہ ہو گا کہ ابتدائے اسلام میں صرف حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دیا کرتے تھے اس وقت کی بات ہے عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ بعد میں مقرر ہوئے ۔
➋ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر کوئی موذن بھول جائے دوبارہ اذان کہہ دے تو لوگوں کو اپنی غلطی سے مطلع کرے ۔ اسی طرح اگر وقت سے قبل اذان دے تو پھر بھی اطلاع دے ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!