کیا ابراہیم علیہ السلام شیعہ تھے ؟

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا ابراہیم علیہ السلام شیعہ تھے ؟
جواب : لفظ شیعہ کا معنی گروہ اور فرقہ ہے۔ قرآن مجید میں لفظ شیعہ کسی خاص مذہب کے لیے مستعمل نہیں ہوا۔ شیعہ حضرات کا اپنے مذہب کی حقانیت کے لیے الصافات کی آیت وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ [37-الصافات:83] پیش کرنا قطعاً درست نہیں۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے لیے یہ جو لفظ استعمال کیا گیا ہے، اس کا معنی گروہ ہے نہ کہ موجودہ شیعہ۔ آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سیدنا نوح علیہ السلام کے گروہ سے تھے۔ یعنی جس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے، اسی طرح ابراہیم علیہ السلام بھی نبی تھے۔ قرآن مجید نے جہاں ابراہیم علیہ السلام کے دین کا ذکر کیا ہے، وہاں یوں ارشاد فرمایا ہے :
مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَـكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ [3-آل عمران:67]
’’ ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی لیکن وہ تو یک سو مسلم تھے۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کا دین بیان کرتے ہوئے حنيفا مسلما کہا ہے۔ اگر وہ مذہباً شیعہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ یوں ارشاد فرماتے : ما كان ابراهيم يهوديا ولا نصرانيا ولكن كان شيعة لیکن قرآن میں اس طرح مذکو ر نہیں۔
قرآن مجید میں اکثر و بیشتر پر لفظ شیعہ شریروں، فسادیوں اور فتنہ بازوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ ﴿١٠﴾ وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ [15-الحجر:10]
’’ البتہ ہم نے آپ سے پہلے کئی رسول اگلے شیعوں میں بھیجے اور ان کے پاس کوئی بھی رسول نہیں آیا مگر وہ ان سے مذاق کرتے تھے۔“
اگر لفظ شیعہ سے مراد شیعہ فرقہ ہے تو پھر اس آیت سے معلوم ہوا کہ رسولوں کے ساتھ مذاق کرنے والے شیعہ تھے۔ اس آیت کی تفیسر میں شیعہ مفسر عمار علی نے اپنی تفسیرمیں لکھا ہے :
’’ یہاں شیعہ سے مراد وہ کافر ہیں جو رسولوں کے ساتھ ٹھٹھا و مذاق کرتے تھے۔“ [تفسير عمدة البيان : 2 / 174]
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ [6-الأنعام:65]
’’ کہہ دیجئیے اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ تمہارے اوپر سے عذاب بھیج دے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تم کو شیعہ بنا کر آپس میں لڑا دے۔“
اگر لفظ شيعا سے شیعہ فرقہ مراد ہے تو ان کے عذاب الہٰی میں گرفتار ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ اس آیت کے متعلق شیعہ مفسر عمار علی نے لکھا ہے :
’’ اس آیت میں لفظ شيعا شریروں، فسادیوں اور فتنہ بازوں پر بولا گیا ہے۔“ [ عمدة البيان : 1/ 353]
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا [28-القصص:4]
’’ بے شک فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور وہاں کے رہنے والوں کو شیعہ بنا دیا۔“
اس آیت سے معلوم ہو ا کہ لوگوں کو شیعہ بنانے والا فرعون تھا۔
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿٣١﴾ مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا [30-الروم:31]
’’ اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور وہ شیعہ تھے۔“ [الروم : 31، 32]
اس آیت کی تفسیر میں شیعہ مفسر نے لکھا ہے :
’’ اس آیت میں شیعہ …… مشرکوں، بت پرستوں، دشمنان دین اور یہود و نصاریٰ کو کہا گیا ہے۔“ [عمدة البيان : 3، 13]
إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ [6-الأنعام:159]
’’ بے شک وہ لوگ جنہوں نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور شیعہ ہو گئے، ان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں۔“
اس آیت نے صراحت کر دی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا شیعوں سے کوئی تعلق نہین۔ جس فرقہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی تعلق نہ ہو، اس کے گمراہ ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں۔
مندرجہ بالا آیات میں لفظ شیعہ گروہ بندی کے معنی میں ہے۔ اگر لفظ شیعہ سے خاص فرقہ مراد لیں تو خود سمجھ لیں کہ مذکورہ بالا پانچ آیات میں شیعہ کسے کہا گیا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل

ایپ سے بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھیں!

سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!