کھانے پینے کے آداب قرآن وسنت کی روشنی میں ملاحظہ کیجیے۔
مضمون کے اہم نکات:
الطعام کی تعریف
الطعام سے مراد ہر وہ چیز ھے جو بطور خوراک کھائی جائے مثلاً گندم ۔چاول۔کجھور۔ اور گوشت وغیرہ ۔
کھانے کا حکم
اسلام نے جسم اور نفس کے حقوق رکھے ہیں نفس انسانی کو بچانے اور اسے واجبات دینی کی ادائیگی کے قابل بنانے کے لئے مشروع کیا ھے اس لئے ھر چیز حلال کردی سوائے ان چیزوں کے جن کی حرمت بیان کردی گئی ہے کیونکہ وہ انسانی جسم کے لئے مضر ھیں
,(1)اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
ترجمہ
وہی ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے تمہارے لئے پیدا کیا سورہ بقرہ آیت (29)
(2)،یٰٓــاَیـُّـہَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّبًا:
ترجمہ اے لوگو! زمین میں جو ،کچھ حلال اور طیب ّہے اسے کھاؤ سورۃ بقرہ آیت (168)
(3)ام عبداللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا صرف حلال چیزوں کو کھاؤ اور نیک عمل کرو
مستدرک للحاکم حدیث (7159) صحیح
حرام کھانے سے بچنا ضروری ھے
(1).ابو بکر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا گوشت حرام مال سے پلا ھوگا وہ دوزخ کے زیادہ لاحق ھے
مستدرک للحاکم حدیث (7164) صحیح
(2).مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
جس نے کسی مسلمان کی بدخواہی کرکے ایک لقمہ بھی کھایا اللہ قیامت کے دن اس کے برابر دوزخ کی آگ کے کھانوں میں سے کھلائے گا
مستدرک للحاکم حدیث (7166) صحیح
(3). اگر کسی مسلمان کو گھر میں کھانے کی دعوت دی جائے تو اس کو حلال اور حرام کی تحقیق میں نہیں پڑھنا چائیے
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم اپنے کسی بھائی کے پاس جاؤ وہ اس کو کھانا پیش کرے تو اس کو چاھیے کہ اس میں سے کھالے اور اس کی تفصیل نہ پوچھے (کہ یہ کہانا حلال کمائی سے بنایا گیا ھے یا حرام سے )اور جو مشروب پیش کرے وہ پی لے اور اس سے کوئی تحقیق نہ کرے
مستدرک للحاکم حدیث (7160) صحيح
مومن ہر وقت کھانے پینے والا نہیں ہوتا
مومن کا کھانا پینا محض کھانے پینے کی غرض کے لئے نہیں ہوتا اور نہ ہی لذت اور شوق کے لئے یہی وجہ ھے کہ جب بھوک لگتی ھے توکھاتا ھےپیاس لگتی ھے تو پیتا ھے جیسا کہ
نبی صلى الله عليه وسلم قال له: نحن قوم لانأكل حتى نجوع، وإذا أكلنا لا نشبع
ترجمہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم بھوک کے بغیر نہیں کھاتے اور جب کھاتے ھیں تو شکم سیری نہیں کرتے
[يراجع في زاد المعاد والبداية لابن كثير]
کھانا ٹیک لگائے بغیر تواضع کے ساتھ بیٹھ کر کھانا چاہئیے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْأَقْمَرِ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا آكُلُ مُتَّكِئًا .
ترجمہ
ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا
سنن ابن ماجہ حدیث (3262) حسن
عن عائشہ رضی اللہ عنہا قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکُلُ کَمَا یَأْکُلُ الْعَبْدُ،وَأَجْلِسُ کَمَا یَجْلِسُ الْعَبْدُ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ‘
ترجمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں کھاتا ہوں جیسے بندہ کھاتا ہے اورمیں بیٹھتا ہوں جیسے بندہ بیٹھتا ہے اور میں بندہ ہی ہوں۔
أخرجه ابن سعد في ((الطبقات الكبرى)) (902)، وأبو يعلى (4920)، وأبو الشيخ في ((أخلاق النبي)) (617) سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، حدیث (544)وصحیح الجامع الصغیر، حدیث: (8) إسناده حسن
نوٹ
گھٹنوں کے بل اور دونوں قدموں کی پشت پر تواضع کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائے یا دایاں گھٹنا کھڑا کرے اور بائیں پاؤں پر بیٹھ کر کھانا چاہیئے۔
کھانے میں عیب نہیں نکالنے چاہیئے
حاضر کھانے کو پسند کرے عیب جوئی نہ کرے پسند آتا ھے تو کھائے اگر کسی وجہ سے پسند نہیں اتا تو ترک کردے
عن ابي هريرة ، قال:” ما عاب رسول الله صلى الله عليه وسلم طعاما قط إن رضيه اكله، وإلا تركه”.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں لگایا، اگر آپ کو کھانا اچھا لگتا تو اسے کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے۔
«صحیح البخاری/المناقب 23 (3564)، الأطعمة 21 (5409)، صحیح مسلم/الأشربة 35 (2064)، سنن ابی داود/الأطعمة 14 (3763)، سنن الترمذی/البروالصلة 84 (2031)، (تحفة الأشراف: 13403)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/474، 479، 481) (صحیح)»
فوائد و مسائل
(1)اگر پکانے والے سے کھانا پکانے میں کوئی کمی رہ جائے تو برداشت کرنی چاہیے۔ معمولی بات پر آپے سے باہر ہو جانا اخلاق کے منافی ہے۔
(2)بعض اوقات کھانا انسان کو پسند نہیں ہوتا تب طبیعت پر جبر کرکے کھانا ضروری نہیں اور نہ پیش کرنے والے ہی پر ناراض ہونا چاہیے کہ یہ کھانا کیوں پکایا گیا۔
کھانا مل کر کھانا چاہیئے البتہ الگ الگ کھانا جائز ہے
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي وَحْشِيُّ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا:” يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَأْكُلُ وَلَا نَشْبَعُ، قَالَ: فَلَعَلَّكُمْ تَفْتَرِقُونَ؟، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَاجْتَمِعُوا عَلَى طَعَامِكُمْ، وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ يُبَارَكْ لَكُمْ فِيهِ”، قَالَ أَبُو دَاوُد: إِذَا كُنْتَ فِي وَلِيمَةٍ فَوُضِعَ الْعَشَاءُ فَلَا تَأْكُلْ حَتَّى يَأْذَنَ لَكَ صَاحِبُ الدَّارِ.
ترجمہ
وحشی بن حرب حبشی حمصی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کھانا کھاتے ہیں لیکن پیٹ نہیں بھرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید تم لوگ الگ الگ کھاتے ہو؟“ لوگوں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ مل کر اور بسم اللہ کر کے (اللہ کا نام لے کر) کھاؤ، تمہارے کھانے میں برکت ہو گی“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جب تم کسی ولیمہ میں ہو اور کھانا رکھ دیا جائے تو گھر کے مالک (میزبان) کی اجازت کے بغیر کھانا نہ کھاؤ۔
(1)مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: 25 /486، والصحيحة للألبانى رقم: 664)
بنابریں مل کر کھانا برکت کا باعث ہے تاہم الگ الگ کھانا بھی جائز ہے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿لَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ أَن تَأكُلوا جَميعًا أَو أَشتاتًا﴾ (النور: 24: 61)
، ”تم پر اس میں بھی کوئی گناه نہیں کہ تم سب ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤ یا الگ الگ۔
کھانے پینے کی چیزوں میں پھونک مارنا منع ھے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:” نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُتَنَفَّسَ فِي الْإِنَاءِ أَوْ يُنْفَخَ فِيهِ”.
ترجمہ
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن میں سانس لینے یا پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے۔
[سنن ابي داود/كِتَاب الْأَشْرِبَةِ/حدیث: 3728]
«سنن الترمذی/ الأشربة 15 (1888)، سنن ابن ماجہ/الأشربة 23 (3429، 3430)، (تحفة الأشراف: 6149)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/220، 309، 357)، سنن الدارمی/الأشربة 27 (2180) (صحیح)»
(1)یہ حدیث صحیح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے برتن میں پھونک مارنے سے منع فرمایا۔ (دیکھیے ابن ماجہ حدیث: 3429)
(2)۔حضرت ابو سعید ؓ سےروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پینے کی چیز میں پھونک مارنے سےمنع فرمایا۔
ایک شخص نے کہا: اگر برتن میں کوئی ناپسندیدہ چیز (تنکا وغیرہ) نظر آ جائے تو؟ آپ نے فرمایا: اسے انڈیل دو۔ (تھوڑا سا پانی انڈیل دو تاکہ وہ بھی نکل جائے) اس نے کہا: میں ایک سانس سے (پیتا ہوں تو) سیر نہیں ہوتا۔ فرمایا: پیالے کومنہ سے ہٹا لیا کرو۔ (جامع الترمذي، الأشرية، باب ماجاء في كراهية النفخ في الشراب، حديث: 1887)
اس سے معلوم ہوا کہ برتن کو منہ سے ہٹا کر سانس لینا چاہیے
میز اور دسترخوان پر کھانا کھانے کا بیان
3292. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي الْفُرَاتِ الْإِسْكَافِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: مَا أَكَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى خِوَانٍ، وَلَا فِي سُكُرُّجَةٍ، قَالَ: فَعَلَامَ كَانُوا يَأْكُلُونَ، قَالَ «عَلَى السُّفَرِ»
ترجمہ
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے کبھی میز پر رکھ کر کھانا نہیں کھایا، اور نہ طشتری اور تھالی میں۔ قتادہ رحمۃ اللہ نے کہا: پھر لوگ کس چیز پر رکھ کر کھانا کھاتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: دستر خوان پر
سنن ابن ماجہ حدیث (3292)
انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر رکھ کر کھانا کھاتے تھے اور غلاموں کی دعوت قبول کرتے تھے۔
مستدرک للحاکم حدیث (7128)
تمھارا کھانا کسی متقی کے پیٹ میں جانا چاہیے
دوستی صرف مومن کے ساتھ کرو تمھارا کھانا کسی متقی کے پیٹ میں جانا چاہیے۔
عن ابي سعيد، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ” لا تصاحب إلا مؤمنا، ولا ياكل طعامك إلا تقي ” , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن إنما نعرفه من هذا الوجه.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”مومن کے سوا کسی کی صحبت اختیار نہ کرو، اور تمہارا کھانا صرف متقی ہی کھائے“ ۱؎۔
«سنن ابی داود 19 (4832) مسند احمد (3/38) (حسن)»
وضاحت:
۱؎: اس حدیث میں اشارہ اس طرف ہے کہ ایک مسلمان دنیا میں رہتے ہوئے اچھے اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرے، یہاں تک کہ کھانے کی دعوت دیتے وقت ایسے لوگوں کا انتخاب کرے جو متقی و پرہیزگار ہوں، کیونکہ دعوت سے آپسی الفت و محبت میں اضافہ ہوتا ہے اس لیے کوشش یہ ہو کہ الف و محبت کسی پرہیزگار شخص سے ہو۔
شرط لگاکر مال حاصل کرکے کسی کو کھانا کھلانا حرام ھے
عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقابلہ بازی (سےحاصل شدہ مال سے بنایا ھوا) کھانا کھانے سے منع فرمادیا (يعنى شرط لگا کر مقابلہ کیا اور شرط جیت کر جو مال حاصل ھوا اس سے پکایا ہوا کھانا نہیں کھانا چاہیے کیونکہ شرط لگانا حرام ھے )
مستدرک للحاکم حدیث (7170)حسن
دوجگہوں پر کھانا حرام ھے
سالم اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت ھے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو جگہوں پر کھانے سے منع فرمایا ھے
)1)ایسے دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا جس پر شراب پی جاتی ھے
پیٹ کے بل لیٹ کر کھانے سے بھی حضور نے منع فرمایا ھے
مستدرک للحاکم حدیث (7171)
کھانے کو ٹھنڈا کرکے کھانا چاہیے ۔
جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کھانے کو ٹھنڈا کرکے کھایاکرو اس لیے کہ گرم کھانے میں برکت نہیں ہوتی۔
مستدرک للحاکم حدیث (7125)
کھانسی کا علاج
عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروالوں کو جب بھی کھانسی اتی تو اپ شوربہ بنانے کا حکم دیتے جب وہ بنا لیا جاتا تو آپ اسے پینے کا حکم دیتے اور خود بھی پیتے تھے۔
مستدرک للحاکم حدیث (7122)
مسلمان کو کھانا کھلانے اور پانی پلانے کی فضیلت
عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اپنے بھائی کو پیٹ بھر کر روٹی کھلائی اور پیٹ بھر کرپانی پلایا اللہ تعالیٰ اس کے دوزخ سے سات خندقیں دور کرے گا دو خندقوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ھے۔
مستدرک للحاکم حدیث (7172)
حلال کمائی سے خود کھانا پینا بھی صدقہ ھے
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی حلال کمائی کرکے اس میں سے خود کھالے اور پہن لے وہ بھی اس کے لئے صدقہ کی حثیت رکھتی ہے اگرچہ وہ دوسروں کو نہ بھی دے۔
مستدرک للحاکم حدیث (7175)
گرا ہوا لقمہ اٹھا کر کھانا
کھانے کا لقمہ نیچے گر جائے تو گرا ہوا لقمہ اٹھا کر صاف کر کے کھا لینا چاہیے
صحيح مسلم: كِتَابُ الْأَشْرِبَةِ (بَابُ اسْتِحْبَابِ لَعْقِ الْأَصَابِعِ وَالْقَصْعَةِ، وَأَكْلِ اللُّقْمَةِ السَّاقِطَةِ بَعْدَ مَسْحِ مَا يُصِيبُهَا مِنْ أَذًى، وَكَرَاهَةِ مَسْحِ الْيَدِ قَبْلَ لَعْقِهَا)
حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
2034. و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْعَبْدِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا بَهْزٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَكَلَ طَعَامًا لَعِقَ أَصَابِعَهُ الثَّلَاثَ قَالَ وَقَالَ إِذَا سَقَطَتْ لُقْمَةُ أَحَدِكُمْ فَلْيُمِطْ عَنْهَا الْأَذَى وَلْيَأْكُلْهَا وَلَا يَدَعْهَا لِلشَّيْطَانِ وَأَمَرَنَا أَنْ نَسْلُتَ الْقَصْعَةَ قَالَ فَإِنَّكُمْ لَا تَدْرُونَ فِي أَيِّ طَعَامِكُمْ الْبَرَكَةُ
صحیح مسلم: کتاب: مشروبات کا بیان تمہید کتاب (باب: انگلیاں اور کھانے کا برتن چاٹنے اور نیچے گرجانے والے لقمے کو جو ناپسند چیز لگی ہے،اسے صاف کرکے کھالینے کااستحباب اور اس کو چاٹنے سے پہلے ،کہ برکت اسی میں ہوسکتی ہے،ہاتھ پونچھنا مکروہ ہے اور سنت تین انگلیوں سے کھانا ہے)
2034. بہز نے کہا: ہمیں حماد بن سلمہ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ثابت نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ جس وقت کھانا کھاتے تو(آخر میں) اپنی تین انگلیوں کو چاٹتے اور کہا: آپﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو وہ اس سے ناپسندیدہ چیز کو دور کرلے اور کھالے اور اس کو شیطان کے لئے نہ چھوڑے۔‘‘ اورآپﷺ نے ہمیں پیالہ صاف کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: ’’تم نہیں جانتے کہ تمھارے کھانے کے کس حصے میں برکت ہے۔‘‘
صحیح مسلم حدیث (2034)
حسب ضرورت کھانا اور برتن کو صاف کرنا
اپنی پلیٹ میں اتنا ھی کھانا لینا چاہیے جتنی ضرورت ھو اور پھر آخر میں برتن کو خوب صاف کرنا چاہئیے
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانا کھاتے تو اپنی تینوں انگلیاں چاٹتے اور فرماتے: ”جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اسے چاہیئے کہ لقمہ صاف کر کے کھا لے اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے“ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پلیٹ صاف کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: ”تم میں سے کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اس کے کھانے کے کس حصہ میں اس کے لیے برکت ہے“۔
«صحیح مسلم/الأشربة 18 (2034)، سنن الترمذی/الأطعمة 11 (1802)، (تحفة الأشراف: 310)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/177، 290)، سنن الدارمی/الأطعمة 8 (7071) (صحیح)
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا يزيد بن هارون ، انبانا ابو اليمان البراء ، قال: حدثتني جدتي ام عاصم ، قالت: دخل علينا نبيشة مولى النبي صلى الله عليه وسلم ونحن ناكل في قصعة، فقال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:” من اكل في قصعة فلحسها، استغفرت له القصعة”.
ترجمہ
ام عاصم بیان کرتی ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام نبیشہ رضی اللہ عنہ آئے، اس وقت ہم ایک بڑے پیالے میں کھانا کھا رہے تھے، انہوں نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”جو شخص کسی بڑے پیالے میں کھاتا ہے پھر چاٹ کر صاف کرتا ہے، اس کے لیے یہ پیالہ استغفار کرتا ہے“
«سنن الترمذی/الأطعمة 11 (1804)، (تحفة الأشراف: 11588)، وقد أخرجہ: مسند احمد (21001)، سنن الدارمی/الأطمة 7 (2070)
نوٹ
خاص طور پر آج کل کے ماحول میں جس طرح بعض لوگ برتن میں زیادہ کھانا لے لیتے ہیں اور تھوڑا سا کھا کر باقی ضائع کردیتے ہیں۔ یہ انتہائی بری عادت ہے۔ اس سے کھانے کی بےقدری ہوتی ہے۔ اور بلاضرورت ضائع کرنا تبذیر میں شامل ہے جس کے مرتکب کو قرآن نے ”شیطان کا بھائی“ کہا ہے اسلامی اخلاق کا تقاضا ہے کہ کھانا کھاتے وقت پلیٹ میں صرف ضرورت کے مطابق لیا جائے اور اس میں بچایا نہ جائے۔ اور جو پکا ہوا کھانا بچ جائے وہ پھینکنے کے بجائے ضرورت مندوں، غریبوں اور ہمسایوں میں تقسیم کر دیا جائے۔
مالک اپنے خادم کے ساتھ مل کر کھانا کھائے
جیسا کہ مسند حمیدی حدیث 1101میں
حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا ابو الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «إذا كفي احدكم خادمه صنعة طعامه، وكفاه حره ودخانه، فليجلسه، فلياكل معه، فإن ابي، فلياخذ لقمة فليروغها ثم ليعطها إياه» .
1101- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جب کسی شخص کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے، تو اس خادم نے اس کی تپش اور دھویں کو برداشت کیا ہوتا ہے اس لیے اس شخص کو چاہیے کہ اس خادم کو اپنے ساتھ بٹھا کراسے کھلائے اگر وہ ایسا نہیں کرتا، تو اسے ایک لقمہ لے کر اسے سالن میں ڈال کر پھر اس خادم کو دینا چاہیے“۔
«إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2557، 5460، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1663، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3846، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1853، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2117، 2118، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3289، 3290، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15881، 15882، 15883، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7456، 7630، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6320»
تنبیہ: غلاموں اور خادموں کے ساتھ حسن سلوک کامعاملہ اور ان کی ہر ممکن دل جوئی اسلامی تہذیب وثقافت کا حصہ ہے ان کا دل توڑنا ان کو حقیر سمجھنا یا ان کی تحقیر کرنا بہت بڑا گناہ ھے جس کی شریعت اجازت نہیں دیتی۔
ھاتھ دھونے چاہیے
اگر ہاتھوں پر میل کچیل ھے یا صاف نہ ہونے کا گمان ھے تو کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھولے۔
زمین پر بیٹھ کر کھانا دسترخوان پر رکھ کر کھائے اس میں تواضع زیادہ ھے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ساری زندگی اسی پر عمل کیا ھے۔
بسم اللہ پڑھ کرکھانا شروع کریں
عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں بچہ تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر تربیت تھا، میرا ہاتھ پلیٹ میں چاروں طرف چل رہا تھا ۱؎، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”لڑکے! «بسم الله» کہو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اور اپنے قریب سے کھاؤ۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3267]
تنبیہ
(1)حضرت ابو سلمہ عبداللہ بن عبدالاسد رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی برہ بنت عبدالمطلب کے بیٹے تھے۔
یہ سابقین اولین میں سے ہیں۔
(4 ہجری میں فوت ہوئے تو ان کی بیوی حضرت ام سلمہ ہند بنت ابو امیہ رضی اللہ عنہا کو ام المومنین بننے کا شرف حاصل ہوا۔
اس طرح ان کے بیٹے عمر بن ابوسلمہ رضی اللہ عنہ اور بیٹی زینب بنت ابو سلمہ ؓ رسول ا للہ کے زیر سایہ آ گئے۔
(2)بچے غلطی کریں تو نرمی سے سمجھا دینا چاہیے۔
(3)بچوں کو واضح اور آسان اسلوب میں سمجھانا چاہیے اور اختصار پیش نظر رکھا جائے۔
(4)جب برتن میں ایک ہی قسم کا کھانا ہو تو ہر ایک کواپنے سامنے سے کھانا چاہیے البتہ اگر مختلف قسم کی چیزیں (کھجوریں یا مٹھائی وغیرہ)
ہوں تو اپنی پسند کی چیز دوسری طرف سے بھی لی جا سکتی ہے
اپنےسامنے سے کھانا چاہیے
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دسترخوان پر کھانا لگایا جائےتو ادمی کو اپنے سامنے سے کھانا کھاناچاہیے اپنے ساتھی کے سامنے سے نہ کھائے شعب الایمان للبیہقی حدیث (5865) حسن واللہ اعلم
کھانا برتن کے درمیان سے نہیں کھانا چاہیے
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کھانا رکھ دیا جائے تو اس کے کنارے سے لو، اور درمیان کو چھوڑ دو، اس لیے کہ برکت اس کے درمیان میں نازل ہوتی ہے
سنن ابی داود/الأطعمة 18 (3772)، سنن الترمذی/الأطعمة 12 (1805)، (تحفة الأشراف: 5566)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/270، 300، 343، 343، 345، 364)، سنن الدارمی/الأطعمة 16 (2090) (صحیح)
نوٹ
اس میں کھانے کا ادب و طریقہ بتایاگیا ہے کہ درمیان سے مت کھاؤ بلکہ اپنے سامنے اور کنارے سے کھاؤ،کیوں کہ برکت کھانے کے بیچ میں نازل ہوتی ہے، اور اس برکت سے تاکہ سبھی فائدہ اٹھائیں، دوسری بات یہ ہے کہ ایسا کرنے سے جو حصہ کھانے کا بچ جائے گا وہ صاف ستھرا رہے گا، اور دوسروں کے کام آجائے گا، اس لیے اس کا خیال رکھا جائے۔
کھانا دائیں ہاتھ سے کھانا چاہئے
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا اكل احدكم فلياكل بيمينه وليشرب بيمينه، فإن الشيطان ياكل بشماله ويشرب بشماله . . .»
”. . . رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص کھائے تو دائیں ہاتھ سے کھائے اور (پئیے تو) اپنے دائیں ہاتھ سے پئیے کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا اور بائیں ہاتھ سے پیتا ہے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 399]
[وأخرجه مسلم 2020، من حديث ما لك به]
فوائد:
➊ معلوم ہوا کہ بغیر شرقی عذر کے بائیں ہاتھ سے کھانا پینا منع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں ہاتھ سے کھانا کھانے اور ایک جوتی میں چلنے سے منع فرمایا ہے۔ دیکھئے: [الموطأ ح:104، وصحيح مسلم 2099/70]
➋ کھانے پینے اور تمام امور دنیا میں آداب شریعت کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
➌ شیاطین جنات کھاتے اور پیتے ہیں۔
➍ بلاعذر بائیں ہاتھ سے کھانا پینا شیطان کا طریقہ ہے۔
کھانا شروع کرتے وقت بسم اللہ پڑھنی چاہیے
یاد نہ رہے تو یاد آنے پر (بسم الله اوله وآخره) يا (بسم الله فى أوله وآخره) پڑھ لے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چھ صحابہ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ ایک اعرابی (دیہاتی) آیا، اور اس نے اسے دو لقموں میں کھا لیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو، اگر یہ شخص «بسم الله» کہہ لیتا، تو یہی کھانا تم سب کے لیے کافی ہوتا، لہٰذا تم میں سے جب کوئی کھانا کھائے تو چاہیئے کہ وہ ( «بسم الله») کہے، اگر وہ شروع میں ( «بسم الله») کہنا بھول جائے تو یوں کہے: «بسم الله في أوله وآخره» “
(ابن ماجہ، تحفة الأشراف: 16267، ومصباح الزجاجة: 1122)، وقد أخر جہ: سنن ابی داود/الأطعمة 16 (3767)، سنن الترمذی/الأطعمة 47 (1858)، مسند احمد (6/143، 207، 246، 265)، سنن الدارمی/الأطعمة 1 (2063) (صحیح)»
کھانے کے درمیان میں یا جب بھی پانی پئے تو تین سانسوں میں پئیں
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا داود بن عبد الله , عن عبد العزيز بن محمد , عن الحارث بن ابي ذباب , عن عمه , عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” إذا شرب احدكم فلا يتنفس في الإناء , فإذا اراد ان يعود فلينح الإناء , ثم ليعد إن كان يريد”.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی کچھ پئے تو برتن میں سانس نہ لے، اور اگر سانس لینا چاہے تو برتن کو منہ سے علیحدہ کر لے، پھر اگر چاہے تو دوبارہ پئے“۔
(تحفة الأشراف: 15490، ومصباح الزجاجة: 1186) (صحیح)
نوٹ
تین بار سانس لینے کا مطلب یہ ھے کہ تھوڑا سا پانی پی کر برتن منہ سے ہٹا لیا جائے گا پھر دوبارہ اور سہ بار پانی پیا جائے یہی سنت طریقہ ھے
کھانا کھانے کے بعد یہ دعا پڑھنی چاہیئے
معاذ بن انس جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کھانا کھا لے تو یہ دعا پڑھے:
الحمدُ للهِ الذي أطعَمَني هذا الطَّعامَ ورَزَقَنيه من غيرِ حولٍ مِنِّي ولا قوةٍ
ترجمہ
”حمد و ثناء اور تعریف ہے اس اللہ کی جس نے مجھے یہ کھلایا، اور بغیر میری کسی طاقت اور زور کے اسے مجھے عطا کیا“ تو اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے گناہ معاف فرما دے گا“۔
«سنن ابی داود حدیث (4023)، سنن الترمذی حدیث (3458)، (تحفة الأشراف: 11297)، (حسن)»
ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے جب کھانا اٹھایا جاتا تو آپ یہ دعا پڑھتے ( الحمدُ للهِ حمدًا كثيرًا طيِّبًا مُبارَكًا فيه غيرَ مَكفيٍّ ولا مودَّعٍ ولا مستغنًى عنه )
”تمام تعریفیں اللہ کے لیے، بہت زیادہ پاکیزہ برکت والی، ہم اس کھانے کا حق پوری طرح ادا نہ کر سکے اور یہ ہمیشہ کے لیے رخصت نہیں کیا گیا ہے (اور یہ اس لیے کہا تاکہ) اس سے ہم کو بےپرواہی کا خیال نہ ہو، اے ہمارے رب!۔“
صحیح بخاری حدیث (5458)
.یہ دعا( اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْ وَبَارِكْ لَهُمْ وَارْزُقْهُمْ)»اس بندے کے گھر والوں کو دینی چاہیے جس کے ہاں آپنے کھانا کھایا ھے۔
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنْبَرِيُّ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ السَّلَامِ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَنْبَأَ عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَمْرٍو السَّكْسَكِيِّ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُسْرٍ، قَالَ: قَالَ أَبِي لِأُمِّي: لَوْ صَنَعْتِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا فَصَنَعَتْ ثَرِيدَةً تُقَلَّلُ فَانْطَلَقَ أَبِي فَدَعَاهُ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهَا ثُمَّ قَالَ: «كُلُوا بِسْمِ اللَّهِ» فَأَخَذُوا مِنْ نَحْوِهَا فَلَمَّا طَعِمُوا دَعَا لَهُمْ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْ وَبَارِكْ لَهُمْ وَارْزُقْهُمْ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ
ترجمہ
” حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میرے والد نے میری والدہ سے کہا : اگر تم رسول اللہ ﷺ کے لیے کھانا تیار کرو ( تو کتنی ہی اچھی بات ہے ) انہوں نے تھوڑا سا ثرید ( ایک خاص قسم کا کھانا ) تیار کر لیا ، میرے والد رسول اللہ ﷺ کو بلا کر لے آئے ، اس پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا : بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ ، سب نے اسی طرح کھایا ، جب سب لوگ کھا چکے تو حضور ﷺ نے ان کے لئے یوں دعا فرمائی ’’اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْ وَبَارِكْ لَهُمْ وَارْزُقْهُمْ» اے اللہ ! ان کی مغفرت فرما ، ان پر رحم فرما ، ان کے لئے برکت فرما ، ان کو رزق عطا فرما ‘‘۔ ٭٭ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو نقل نہیں کیا
التعليق – من تلخيص الذهبي] 7085 – صحيح
کوئی بھی چیز کھائیں یا پئے تو یہ دعا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَ وَسَقٰی وَسَوَّغَہٗ وَجَعَلَ لَہٗ مَخْرَجًا لازمی پڑھیں
ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کھاتے یا پیتے تو یہ کہا کرتے تھے :
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَ وَسَقٰی وَسَوَّغَہٗ وَجَعَلَ لَہٗ مَخْرَجًا
ترجمہ
( تمام تعریفیں اس اللہ تعالی کے لیے ہیں جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا اوراسے آسانی سے ھضم ہونےوالا اوراسے باہرنکالنے کا راستہ بنایا ) ۔
ابوداود حدیث ( 3851 ) اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے سلسلہ احادیث الصحیحہ حديث ( 2061 ) میں صحیح کہا ہے
جب کسی کے یہاں کھانا کھایا جائے تو اس کے لیے دعا کرے
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو وہ آپ کی خدمت میں روٹی اور تیل لے کر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھایا پھر آپ نے یہ دعا پڑھی:(( وأفطرَ عندَكُمُ الصَّائمونَ ، وصلَّت عليكُمُ الملائِكَةُ
)) تمہارے پاس روزے دار افطار کیا کریں، نیک لوگ تمہارا کھانا کھائیں، اور فرشتے تمہارے لیے دعائیں کریں۔“
مسند احمد (3/118، 138، 201)، سنن الدارمی حدیث (1813) مصنف عبدالرزاق حدیث (7907) (صحیح)
کھڑے ہو کر کھانا اور پینا جائز ھے
جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چلتے ہوئے کھاتے تھے اور کھڑے ہو کر پیتے تھے
سنن الترمذی حدیث (1880)، (تحفة الأشراف: حدیث (7821)، مسند احمد (2/108، 12، 24، 29)، سنن الدارمی (2171) (صحیح)
البتہ بیٹھ کر کھانا پینا ہی افضل ہے۔
انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے اور کھڑے ہو کر کھانے سے منع فرمایا ھے
مجمع الزوائد ج 5—-15حدیث ((7921))حسن
مسجد میں کھانا کھانے کا جواز
عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد میں روٹی اور گوشت کھایا کرتے تھے۔
سنن ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5238، ومصباح الزجاجة: 1133) (صحیح)
کھانے کے بعد دانتوں کو صاف کرلینا چاہئے
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ تَمِيمٍ الْقَنْطَرِيُّ، ثَنَا أَبُو قِلَابَةَ، ثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ حُصَيْنٍ الْحِمْيَرِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخَيْرِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَكَلَ فَمَا لَاكَ بِلِسَانِهِ فَلْيَبْلَعْ وَمَا تَخَلَّلَ فَلْيَلْفِظْ مَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَحْسَنَ وَمَنْ لَا فَلَا حَرَجَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ
ترجمہ
” حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کھاتے وقت جو چیز زبان کے ساتھ ہو ، اسے نگل لیں اور جو دانتوں میں پھنس جائے اس کو گرا دو ، جس نے ایسا کیا ، اس نے اچھا کیا اور جس نے ایسا نہ کیا ، اس کو بھی کوئی گناہ نہیں ہے ۔ ٭٭ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو نقل نہیں کیا
التعليق – من تلخيص الذهبي] 7199 – صحيح
کھانا کھانے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیئے
حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حُرَّةَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ أَبِي حُرَّةَ، عَنْ سَلْمَانَ الْأَغَرِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ لِلطَّاعِمِ الشَّاكِرِ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلَ الصَّائِمِ الصَّابِرِ»
ترجمہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بے شک کھانا کھا کر شکر ادا کرنے والا ، روزہ دار صابر کی طرح ہے۔
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 7195 – سكت عنه الذهبي في التلخيص
رات کا کھانا کھانا ضروری ھے
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شام کا کھانا مت ترک کرو اگرچہ اس کی مقدار ایک مشت کھجور ہو، اس لیے کہ شام کا کھانا نہ کھانے سے بڑھاپا آتا ہے۔
(تحفة الأشراف: 3052، ومصباح الزجاجة: 1160)
اگر مہمان کھانے کی دعوت میں کوئی خلاف شرع کام دیکھے تو کیا کرے؟
حدثنا مسعود بن جويرية، قال: حدثنا وكيع، عن هشام، عن قتادة، عن سعيد بن المسيب، عن علي، قال: صنعت طعاما , فدعوت النبي صلى الله عليه وسلم فجاء، فدخل فراى سترا فيه تصاوير فخرج , وقال:” إن الملائكة لا تدخل بيتا فيه تصاوير".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کھانا تیار کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدعو کیا، چنانچہ آپ تشریف لائے اور اندر داخل ہوئے تو ایک پردہ دیکھا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں ۱؎، تو آپ باہر نکل گئے اور فرمایا: ”فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جن میں تصویریں ہوں“۔
«سنن ابن ماجہ حدیث (3359)، (3650) (تحفة الأشراف: 10117) (صحیح)»
فوائد ومسائل
1: اگر اس پردے میں کوئی جاندار تصاویر سمجھی جائیں تو پھاڑ دینے سے زائل ہو گئیں اور انہیں تکیے وغیرہ میں استعمال کرنا جائز ہو گیا۔
2: بے مقصد طور دیواروں پر پردے لٹکانا اسراف اور فضول خرچی ہے جو قطعاحرام ہے۔
3: کتا اگر رکھوالی کے لئے ہو تو جائز ہے ورنہ نہیں۔
4: ذی روح اشیا کی تصاویریا ان کے بت گھروں اور دکانوں وغیر ہ میں رکھنے حرام ہیں۔ ان کی وجہ سے رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
5: یہ حدیث غیر شرعی اورمنکر کام کرنے والے کو اس کے سلام جواب نہ دینے پر بھی دلالت کرتی ہے۔
6: یہ حدیث صدیق اکبر کی بیٹی صدیقہ وعفیفہ کائنات ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ کی عظمت اور فضیلت پر بھی دلالت کرتی ہے کہ وہ ہر حال میں رسول ؐ کو راضی اور خوش رکھنے کے لئے مستعد رہتی تھیں اور آپ کی رضا مندی آپ کی اطاعت ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ھے اللہ تعالیٰ ھم سب کو قرآن وسنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین ثم آمین یارب العالمین