تحریر: ابوسعید سلفی
دنیا میں اس شخص سے بڑھ کر شقی اور بدبخت کون ہو سکتا ہے جو پیغمبر اسلام، محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیٹیوں کو کسی کالے کافر کی اولاد قرار دے، جو جہالت و ضلالت کا سوداگر بن کر یہ نعرہ بلند کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک ہی بیٹی تھی، جو اپنے غلیظ دامن میں یہ عقیدہ بھی رکھتا ہو کہ اہل بیت کی تحقیر و تصغیر فرض عین ہے، جو بصیرت قلبی سے محروم ہو کر قرآنی و حدیثی اور اجماعی دلائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے یہ کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ زینب، سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہن کے بابا نہیں محض مربی تھے ؟ ؟ ؟
روز محشر کا وہ منظر کتنا اندوہناک ہو گا جب ان ناانصافوں کے خلاف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیٹیاں اللہ احکم الحاکمین کی عدالت میں مقدمہ دائر کریں گی کہ انہوں نے ہماری نسبت ہمارے پاک بابا سے توڑنے اور ایک ناپاک کافر سے جوڑنے کی کوشش کی تھی اور اللہ تعالیٰ ان ظالموں اور باغیوں کو گرفتار کر کے عبرت ناک عذاب سے دوچار کرے گا۔ وہ دن بہت جلد آنے والا ہے جس دن ان کے ناپاک ارادے خاک میں مل جائیں گے۔
بنات رسول کے بارے میں شیعہ کا موقف
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) شیعہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
بل منهم من ينكر أن تكون زينب، ورقية، وأم كلثوم، من بنات النبى صلى الله عليه وسلم، ويقولون : إنهن لخديجة، من زوجها الذى كان كافرا، قبل النبى صلى الله عليه وسلم.
”ان میں سے بعض تو ایسے بھی ہیں جو سیدہ زینب، سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہن کے بنات رسول ہونے کے منکر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تینوں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اس کافر خاوند سے پیدا ہونے والی بیٹیاں ہیں جس سے انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آنے سے پہلے نکاح کیا تھا۔“ [منهاج السنة النبوية فى نقض كلام الشيعة والقدرية : 493/4]
◈ ایک مقام پر فرماتے ہیں :
ومنهم من يقول : إن رقية، وأم كلثوم، زوجتي عثمان، ليستا بنتي النبى صلى الله عليه وسلم، ولكن هما بنتا خديجة من غيره، ولهم فى المكابرات وجحد المعلومات بالضرورة أعظم مما لأولئك النواصب الذين قتلوا الحسين، وهذا مما يبين أنهم أكذب وأظلم وأجهل من قتلة الحسين.
”بعض شیعہ کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی دونوں بیویاں، سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہما، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں نہیں، بلکہ وہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی پہلے خاوند سے ہونے والی بیٹیاں ہیں۔ سینہ زوری اور مسلمات کا انکار کرنے میں شیعہ لوگ ان ناصبیوں سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں جنہوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ لوگ قاتلین حسین سے بڑھ کر جھوٹے، ظالم اور جاہل ہیں۔“ [منهاج السنة النبوية : 368/4]
آیئے اب اس بارے میں شیعہ کے اہل علم کے اقوال ملاحظہ فرمائیں :
① مشہور شیعہ ابوالقاسم علی بن احمد بن موسیٰ کوفی (م : 352 ھ) نے لکھا ہے :
وصح لنا فيهما ما رواه مشايخنا من أهل العلم عن الأئمة من أهل البيت عليهم السلام، وذلك أن الرواية صحت عندنا عنهم أنه كانت لخديجة بنت خويلد من أمها أخت، يقال لها هالة، قد تزوجها رجل من بني مخزوم، فولدت بنتا اسمها هالة، ثم خلف عليها بعد أبى هالة رجل من تميم، يقال له أبو هند، فأولدها ابنا، كان يسمى هند ابن أبى هند، وابنتين، فكانتا هاتان الابنتان منسوبتين إلى رسول الله (ص)، زينب ورقية
”ان دونوں (رقیہ اور زینب ) کے بارے میں ہم اپنے اہل علم اور ائمہ اہل بیت کی اس روایت کو درست مانتے ہیں کہ ماں کی طرف سے ایک بہن تھی جس کا نام ہالہ تھا۔ اس کی شادی بنو مخزوم کے ایک شخص سے ہوئی۔ اس سے ایک لڑکی پیدا ہوئی، اس کا نام بھی ہالہ ہی رکھا گیا۔ ابوہالہ کی وفات کے بعد خدیجہ کی بہن سے بنوتمیم کے ایک شخص ابوہند نے شادی کر لی۔ اس سے ایک لڑکا ہند بن ابوہند اور دو لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ یہی دو لڑکیاں زینب اور رقیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوئیں۔۔۔“ [الاستغاثة فى بدع الثلاثة : 68/1]
② مشہور شیعہ ابن شہر آشوب (م : 588 ھ ) نے لکھا ہے :
يؤكد ذلك ما ذكر فى كتابي الأنوار والبدع أن رقية وزينب كانتا ابنتي هالة أخت خديجة.
”اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے جو الانوار اور البدرع نامی کتابوں میں مذکور ہے کہ رقیہ اور زینب، خدیجہ کی بہن ہالہ کی بیٹیاں ہیں۔“ [مناقب آل أبى طالب : 159/1]
③ مشہور شیعہ ملا احمد بن حمد المعروف بہ مقدس اردبیلی (م : 993ھ) نے لکھا ہے :
قيل : هما رقية وزينب كانتا ابنتي هالة أخت خديجة، ولما مات أبوهما ربيتا فى حجر رسول الله صلى الله عليه وسلم، كما كانت عادة العرب فى نسبة المربى إلى المربي، وهما اللتان تزوجهما عثمان بعد موت زوجيهما.
”کہا جاتا ہے کہ رقیہ اور زینب دونوں خدیجہ کی بہن ہالہ کی بیٹیاں تھیں۔ جب ان کا والد فوت ہو گیا تو ان دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پرورش پائی۔ یوں ان کی نسبت آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو گئی، جیسا کہ عربوں کی عادت تھی کہ پرورش کرنے والے کی طرف نسبت کر دیتے تھے۔ ان دونوں کے خاوند فوت ہونے کے بعد ان سے عثمان نے شادی کر لی تھی۔“ [حاشيه زبدة البيان فى أحكام القرآن، ص : 575]
④ مشہور شیعہ محمد مہدی بن صالح موسوی (م : 1348ھ) نے لکھا ہے :
ما زعمه (أي ابن تيمية) من أن تزويج بنتيه لعثمان فضيلة له، من عجائبه من حيث ثبوت المنازعة أنهما بنتاهٔ.
ان تیمیہ نے جو کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیوں سے شادی، عثمان کے لیے فضیلت کا باعث ہے، عجیب بات ہے، کیونکہ ان دونوں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں ہونے میں اختلاف ثابت ہے۔“ [منهاج الشريعة فى الرد على ابن تيمية : 289/2]
⟐ مزید کہتا ہے :
قد عرفت عدم ثبوت أنهما بنتا خير الرسل صلى الله عليه وسلم، وعدم وجود فضل لهما، تستحقان به الشرف والقدم على غيرهما.
”آپ یہ بات بخوبی جان چکے ہیں کہ ان دونوں کا نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں ہونا ثابت نہیں، نہ ان کے لیے کوئی فضیلت موجود ہے جس کی وجہ سے وہ دوسروں پر شرف و فضل کی مستحق ہوں۔“ [منهاج الشريعة : 291/2]
↰ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیٹیوں کے بارے میں یہ تو تھا شیعہ کا موقف، اب ملاحظہ فرمائیں :
بنات رسول کے بار سے میں اہل سنت کا موقف
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کے بارے میں اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار صاجزادیاں تھیں۔ ان کے نام بالترتیب سیدہ زینب، سیدہ رقیہ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہن ہیں۔
اہل حق کے دلائل
دلیل نمبر ① اجماع
اس بات میں اہل حق کے دو فرد بھی باہم اختلاف نہیں کرتے، جیسا کہ :
➊ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (368-463 ھ) فرماتے ہیں :
وولده – صلى الله عليه وسلم – من خديجة أربع بنات، لا خلاف فى ذلك
”آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے چار بیٹیاں تھیں۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں۔“ [الاستيعاب فى معرفة الأصحاب : 50/1، وفي نسخة : 89/1 بحاشية الإصابة]
➋ حافظ عبدالغنی مقدسی رحمہ اللہ (541-600 ھ) فرماتے ہیں :
فالبنات اربع بلا خلاف .
”آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں ہیں۔ اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔“ [الدرة المضية على السيرة النبوية : 8/6 مع التعليق]
➌ حافظ صفدی رحمہ اللہ (696-764 ھ) فرماتے ہیں :
قال الحافظ عبدالغني : فالبنات اربع بلا خلاف .
”حافظ عبدالغنی فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔“ [الوافى بالوفيات : 79/1]
➍ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) لکھتے ہیں :
فالبنات اربع بلا خلاف .
”آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی بالاتفاق چار بیٹیاں ہیں۔“ [تهذيب الأسماء : 26/1]
➎ حافظ مزی رحمہ اللہ (654-742ھ) فرماتے ہیں :
وكان له من البنات أربع بلا خلاف.
”آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں۔“ [تهذيب الكمال فى أسماء الرجال : 57/1، وفي نسخة : 191/1]
↰ جو لوگ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کا انکار کرتے ہیں اور انہیں کسی کافر کی طرف منسوب کرتے ہیں، وہ مسلمانوں کے اجماع کے منکر ہیں۔ جو شخص اجماع مسلمین کی مخالفت کرے، اس کے گمراہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ اجماع امت حق ہے۔
دلیل نمبر ②
✿ فرمان باری تعالیٰ ہے :
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّـهِ [ 33-الأحزاب:5]
”تم لوگوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔ اللہ کے ہاں یہی بات انصاف والی ہے۔“
↰ معلوم ہوا کہ کسی انسان کو اس کے باپ کے علاوہ کسی غیر کی طرف منسوب کرنا ناانصافی ہے۔ احادیث میں واضح طور پر سیدہ زینب، سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں کہا گیا ہے۔ سارے مسلمان بھی ہر دور میں ان کو آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں قرار دیتے رہے ہیں۔ اگر یہ آپ کی حقیقی بیٹیاں نہیں تھیں تو ان کو آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا ناانصافی تھی اور یہ ناممکن ہے کہ احادیث اور اجماع امت مسلمہ ناانصافی پر مبنی ہو۔ لہٰذا بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ سیدہ زینب، سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہن کسی کافر کی بیٹیاں تھیں اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان کی پرورش کی، اسی بنا پر ان کی نسبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئی، اس آیت کریمہ کے صریحا خلاف ہے۔
↰ حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں صاحبات آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی حقیقی بیٹیاں تھیں۔ ان کے (معاذ اللہ) کسی کافر کی اولاد ہونے پر کوئی دلیل نہیں۔ پھر اصول فقہ کا یہ مسلمہ قاعدہ بھی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ جب تک حقیقت متعذر نہ ہو اور مجاز پر کوئی دلیل نہ ہو، مجازی معنیٰ کی طرف انتقال جائز نہیں ہوتا۔ ان تینوں صاحبات کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی اولاد ہونے میں کوئی مانع نہیں، نہ ان کے غیر کی اولاد ہونے پر کوئی دلیل ہے۔ لہٰذا یہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی حقیقی بیٹیاں تھیں۔
دلیل نمبر ③
✿ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَحِيمًا [الأحزاب 59 : 33]
”اے نبی ! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں۔ یہ بات اس کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور انہیں تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔“
↰ یہ آیت کریمہ واضح دلیل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سے زائد بیٹیاں تھیں، کیونکہ اس میں بنات کا لفظ مستعمل ہے جو کہ بنت کی جمع ہے۔ جمع کے کم سے کم تین افراد ہوتے ہیں۔ کسی خارجی دلیل کے ملنے پر جمع کے اقل افراد دو ہو سکتے ہیں۔ ایک فرد کے جمع ہونے کا دنیا میں کوئی بھی قائل نہیں۔ ایک تو مفرد حقیق ہے۔ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیق بیٹی صرف سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں تو بنات کہنے کا کیا معنی ؟
حدیثی دلائل
آیئے اب پیارے رسول کی پیاری بیٹیوں کے بارے بالترتیب حدیثی دلائل ملاحظہ فرمائیں :
➊ سیدہ زینب :
آپ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں۔ آپ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ ان کی شادی ابوالعاص بن ربیع سے ہوئی تھی۔ آپ کے بارے میں :
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں :
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما قدم المدينة، خرجت ابنته من مكة مع بني كنانة، فخر جوا فى اثرها، فادركها هبار بن الاسود، فلم يزل يطعن بعيرها حتي صرعها، فالقت ما فى بطنها واهريقت دما، فانطلق بها، و اشتجر فيها بنو هاشم وبنو امية، فقالت بنو امية: نحن احق بها، وكانت تحت ابن عمه، ابي العاص بن ربيعة بن عبدشمس، فكانت عند هند بنت ربيعة، وكانت تقول لها هند : هذا فى سبب أبيك، فقال رسول الله عليه السلام لزيد بن حارثة : الا تنطلق، فتجيء بزينب ؟، قال : بلي يا رسول الله ! قال : ”فخذ خاتمى هذا، فأعطها إياه“، قال : فانطلق زيد، فلم يزل يلطف و ترك بعيره حتي اتي راعيا، فقال : لمن ترعى ؟ فقال : لأبي العاص بن ربيعة، قال : فلمن هذه الغنم ؟ قال : لزينب بنت محمد عليه السلام، فسار معه شيئا، ثم قال له : هل لك ان أعطيك شيئا تعطيها اياه، ولا تذكره لاحد؟ قال: نعم، فاعطاه الخاتم، فانطلق الراعي، فادخل عنمه، واعطاها الخاتم، فعرفته، فقالت: من اعطاك هذا؟ قال رجل، قالت: واين تركته؟ قال: مكان كذا و كذا، فسكنت حتي اذا كان الليل خرجت اليه، فقال لها: اركبي بين يدي! قالت: لا، ولكن اركب انت، فركب وركبت وراءه، حتي اتت النبى عليه السلام، فكان رسول الله عليه السلام يقول: ”هي افضل بناتي، اصيبت في“
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کی تو آپ کی صاحبزادی (سیدہ زینب رضی اللہ عنہا) بھی مکہ سے بنو کنانہ کے ساتھ روانہ ہوئیں۔ کفار مکہ ان کے پیچھے آئے اور ہبار بن اسود نے ان کو پا لیا۔ وہ ان کے اونٹ کو نیزے مارتا رہا حتی کہ ان کو زمین پر گرا دیا۔ ان کے بطن میں بچہ تھا، وہ گر گیا۔ بہت سارا خون بھی ضائع ہوا۔ ان کو واپس لے جایا گیا۔ بنو ہاشمم اور بنوامیہ ان کے سلسلے میں جھگڑنے لگے۔ بنوامیہ نے کہا کہ ہم ان کے زیادہ حق دار ہیں۔ دراصل سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ان کے چچا زاد ابوالعاص بن ربعیہ بن عبد شمس کے نکاح میں تھیں۔ چنانچہ وہ ہند بنت ربیعہ کے پاس رہیں۔ ہند انہیں کہا کرتی تھی کہ تیرے ساتھ یہ سب تیرے باپ کی وجہ سے ہوا ہے۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کیا تم جا کر زینب کو نہیں لے آتے؟ انہوں نے عرض کی : کیوں نہیں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری یہ انگوٹھی لو اور انہیں پہنچاؤ۔ سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ روانہ ہوئے۔ وہ چلتے چلتے ایک چرواہے کے پاس پہنچے۔ اس سے پوچھا: کس کی بکریاں چرواتے ہو؟ اس نے جواب دیا: زینب بنت محمد علیہ السلام کی۔ زید رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ کچھ دیر چلے، پھر فرمایا: کیا ”تمہیں ایک چیز دی جائے تو رازداری سے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا تک پہنچا دو گے؟“ اس نے کہا: ہاں۔ زید رضی اللہ عنہ نے وہ انگوٹھی اسے دے دی۔ چرواہے نے بکریاں گھر میں داخل کیں اور انگوٹھی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو دے دی۔ جب سیدہ نے انگوٹھی دیکھی تو فورا پہچان لی اور چرواہے سے کہا : یہ انگوٹھی تجھے کس نے دی ہے؟ چرواہے نے کہا : ایک انجان آدمی نے۔ سیدہ نے کہا: تو اسے کہاں چھوڑ کر آیا ہے ؟ اس سے وہ جگہ بتا دی۔ سیدہ رات ہونے تک ٹھہری رہیں، پھر اس جگہ پہنچ گئیں۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے سیدہ سے کہا: آپ اونٹ پر آگے سوار ہو جائیے۔ سیدہ نے فرمایا : نہیں آ گے آپ سوار ہوں۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ آگے سوار ہوئے اور سیدہ پیچھے۔ یوں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئیں۔ اس کے بعد رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے : یہ میری سب سے فضیلت والی بیٹی ہے، کیونکہ انہوں نے میرے لیے مصائب اٹھائے ہیں۔“ [الأحاد والمثاني لابن أبى عاصم : 2975، المعجم الكبير للطبراني : 431/22-432، شرح مشكل الاثار للطحاوي : 142، والسياق له، مسند البزار كشف الأستار : 6626، المستدرك على الصحيحين للحاكم : 2 / 200 – 1 20، 44-43/4، دلائل النبوة للبيهقي : 156/3-157، وسنده حسن]
↰ امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے بخاری و مسلم کی شرط پر ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
◈ حافظ ہیثمی فرماتے ہیں :
رجاله رجال الصحيح. ”اس کے راوی صحیح بخاری والے ہیں۔“ [مجمع الزوائد: 213/9]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو جید قرار دیا ہے۔ [فتح الباری:109/7]
اس کا راوی یحییٰ بن ایوب غافقی جمہور محدثین کرام کے نذدیک ”موثق، حسن الحدیث ہے۔“ اس کے بارے میں :
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) لکھتے ہیں :
فيه أدنى كلام، وقد وثقه الأكثرون.
”اس میں تھوڑا سا کلام ہے، البتہ اسے جمہور محدثین کرام نے ثقہ قرار دیا ہے۔“ [المجموع شرح المهذب : 447/3، خلاصة الأحكام : 352/1، ح : 1069]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ (673- 748ھ) فرماتے ہیں :
لهٔ غرائب و مناكير، يتجنبها أرباب الصحاح، وينقون حديثة، وهو حسن الحديث.
”اس نے کچھ منکر روایات بیان کی ہیں جس کی وجہ سے وہ محدثین اس کی ان روایات سے اجتناب کرتے تھے جنہوں نے صحت کا التزام کیا ہے۔ ایسے محدثین اس کی صرف صحیح احادیث کا انتخاب کرتے تھے۔ اس راوی کی حدیث حسن ہے۔“ [سير أعلام النبلاء : 6/8]
❀ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
لما ماتت زينب بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم : ”اغسلنها وترا، ثلاثا، أو خمسا، واجعلن فى الخامسة كافوراه.“
”جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا : انہیں طاق تعداد میں یعنی تین یا پانچ دفعہ غسل دو۔ اور پانچویں (یا تیسری) مرتبہ کافور ملاؤ۔“ [صحيح البخاري : 167/1، ح : 1253، صحيح مسلم : 304/1، ح : 1939 واللفظ له]
❀ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں :
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي، وهو حامل أمامة بنت زينب، بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولأبي العاص بن ربيعة بن عبد شمس، فإذا سجد وضعها، وإذا قام حملها.
”بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نواسی امامہ کو اٹھائے ہوئے نماز پڑھ لیتے تھے جو کہ آپ کی بیٹی زینب اور ابوالعاص بن ربیعہ بن عبد شمس کی لخت جگر تھیں۔“ [صحيح البخاري : 74/1، ح : 516، صحيح مسلم : 205/1، ح : 543]
❀ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹیوں کے ذکر میں اپنے داماد ابوالعاص کی تعریف فرمائی۔ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ کیا تھا تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أما بعد ! ! أنكحث أبا العاص بن الربيع، فحدثني وصدقني .
”حمد و ثنا کے بعد ! میں نے ابوالعاص بن ربیع سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا۔ انہوں نے مجھ سے جو بات بھی کی، اس میں سچے اترے۔“ [صحيح البخاري : 528/1، ح : 3729، صحيح مسلم : 290/2، ح : 2449]
➋ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا :
آپ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیٹی تھیں۔ آپ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی پہلی زوجہ محترمہ تھیں۔ آپ بھی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن پاک سے پیدا ہوئیں۔ ان کے بارے میں :
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں : إنما تغيب عثمان عن بدر، فانهٔ كانات تحته بنت رسول الله صلى الله عليه و سلم، و كانت مريضة، فقال له النبى صلى الله عليه وسلم : ”إن لك أجر رجل ممن شهد بدرا، و سهمه“
”سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ غزوۂ بدر میں موجود نہ تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر تھیں اور وہ بیمار تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ آپ کے لیے بدر میں حاضر ہونے والوں کی طرح اجر اور حصہ ہے۔“ [صحيح البخاري : /4421، ح : 3130]
❀ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : إني تخلفت يوم بدر، فإني كنت أمرض رقية بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى ماتت، وقد ضرب لي رسول الله صلى الله عليه وسلم بسهمي، ومن ضرب له رسول الله صلى الله عليه وسلم بسهمه، فقد شهد.
”میں بدر والے دن پیچھے رہا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ میں رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی بیٹی رقیہ کی تیمارداری کر رہا تھا، حتی کہ وہ وفات پا گئیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے مال غنیمت میں حصہ بھی مقرر کیا تھا۔ جس شخص کا حصہ اللہ کے رسول مقرر فرما دیں، وہ حاضر ہی شمار ہو گا۔“ [مسند الامام احمد : 68/1، ح : 490، و سندهٔ حسن]
➌ سیدہ أم کلثوم رضی اللہ عنہا :
آپ رضی اللہ عنہا سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن اطہر سے پیدا ہونے والی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری بیٹی تھیں۔ ان کی شادی ان کی بہن سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ یوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحبزادیاں ان کے نکاح میں دیں۔ اسی بنا پر آپ رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین کا لقب ملا۔ سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے بارے میں :
❀ سیدنا انس مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
شهدنا بنتا لرسول الله صلى الله عليه وسلم، قال : ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس على القبر، قال : فرأيت عينيه تدمعان، قال : فقال : ”هل منكم رجل لم يقارف الليلة ؟“، فقال أبو طلحة : أنا، قال : ”فانزل“، قال : فنزل فى قبرهما .
”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کی تدفین میں حاضر تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے آپ کی دونوں آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہتے دیکھے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص ہے جس نے رات کو اپنی بیوی سے مباشرت نہ کی ہو ؟ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی : جی ہاں، میں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قبر میں اترو۔ وہ قبر میں اترے۔“ [صحيح البخاري : 171/1، ح : 1285]
❀ یہ روایت ان الفاظ سے بھی مروی ہے :
لم يقارف اهله الليلة [شرح مشكل الآثار للطحاوي : 2514، المستدرك على الصحيحين للحاكم : 47/4، وسنده حسن]
↰ اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی سیدہ ام کلثوم ہی مراد ہیں، کیونکہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے وقت تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر میں تھے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی غیر موجودگی میں ان کی تدفین ہو گئی تھی۔
❀ مسند احمد کی ایک روایت [229/3، ح 13431 : 0، 270/3، ح :] میں إن رقية لما ماتت کے الفاظ ہیں۔ ان کے بارے میں :
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهم حماد فى تسميتها فقط. ”حماد کو صرف نام میں وہم ہوا ہے۔“ [فتح الباري فى شرح صحيح البخاري : 158/3]
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :
إنه رأى على أم كلثوم، عليها السلام، بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم برد حرير سيراء.
”انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ام کلثوم علیہاالسلام کے اوپر دھاری دار ریشم کی چادر دیکھی [صحيح البخاري : 5842. السنن الكبرى للنسائي : 9505]
سنن نسائی [5294] اور سنن ابن ماجہ [3588] میں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا نام بیان ہوا ہے۔
یہ روایت شاذ ہے۔
یہ امام زہری رحمہ اللہ کی ”تدلیس“ کی وجہ سے بھی ”ضعیف“ ہے۔
فائدہ : عبد اللہ بن عمر بن محمد بن ابان جعفی بیان کر تے ہیں :
قال لي خالي حسين (بن علي) الجعفي (م : 204هـ) : يا بني ! لم يسمى عثمان ذو النورين ؟ قلت : لا أدري، قال : لم يجمع بين ابنتي نبي منذ خلق الله آدم الي ان تقوم الساعة غير عثمان بن عفان رضي الله عنه، فلذلك سمي ذوالنورين
”میرے ماموں حسین بن علی جعفی (م : 204ھ) نے مجھ سے فرمایا : بیٹے ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین کیوں کہا جاتا ہے ؟ میں نے عرض کی : میں نہیں جانتا۔ فرمایا : سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر قیامت تک کس بھی نبی کی دو بیٹیاں سوائے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے کس شخص کے نکاح میں نہیں آئیں۔ اس لیے آپ کو ذوالنور ین کہا جاتا ہے۔“ [الشريعة للآجري : 1405، معرفة الصحابة لأبي نعيم الأصبهاني : 239، السنن الكبرى للبيهقي : 73/7، واللفظ لهٔ، و سندهٔ حسن]
➍ سیدہ فاطمۃ الزہراء :
آپ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن پاک سے ہیں۔ آپ مولاعلی رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ اور حسنین کریمین کی والدہ ماجدہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کے بے شمار فضائل و مناقب کتب احادیث میں بیان ہوئے ہیں۔ چونکہ باقی بنات رسول کا انکار کرنے والے سیدہ فاطمہ کے بنت رسول ہونے کے اقراری ہیں لہذا تفصیل کی ضرورت نہیں۔
بعض شیعہ اہل علم کا اقرار
بعض شیعہ علماء بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چار حقیقی بیٹیوں کو تسلیم کرتے ہیں، جیسا کہ :
① بعض شیعہ نے امام جعفر باقر رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے :
ولد لرسول الله صلى الله عليه وسلم من خديجة : القاسم، والطاهر، وام كلثوم، ورقية، وفاطمة، وزينب
”سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد یہ تھی : قاسم، طاہر، ام کلثوم، رقیہ، فاطمہ اور زینب رضی اللہ عنھن۔“ [قرب الإسناد للحميري : 9/3، بحار الأنوار للمجلسي : 151/22]
↰ اگرچہ اصول محدثین کے مطابق اس قول کی سند سخت ترین ”ضعیف“ ہے، لیکن اسے نقل کرنے والے شیعہ کے اصولوں کے مطابق یہ قول بالکل صحیح اور ثابت ہے۔
② ایک شیعہ امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے :
ولد لرسول الله صلى الله عليه وسلم من خديجة : القاسم، والطاهر، وهو عبدالله، وام كلثوم، ورقية، وزينب، وفاطمة
”رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن اطہر سے اولاد یہ تھی۔ قاسم، عبداللہ طاہر، ام کلثوم، رقیہ، زینب اور فاطمہ رضی اللہ عنھن۔“ [الخصال لابن بابويه القمي، ص : 404]
③ شیخ الشیعہ محمر باقر مجلس رافضی (م : 1111ھ) نے رمضان المبارک میں پڑھی جانے والی تسبیح یوں ذکر کی ہے :
اللهم صل على أم كلثوم ابنة نبيك، والعن من أذى نبيك فيها، اللهم صل على رقية ابنة نبيك، والعن من أذى نبيك فيها.
”اے اللہ ! تو اپنے نبی کی بیٹی ام کلثوم پر رحمتیں نازل فرما اور اس شخص پر لعنت فرما جس نے تیرے نبی کو ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے حوالے سے تکلیف دی۔ اے اللہ ! تو اپنے نبی کی بیٹی رقیہ پر رحمتیں نازل فرما اور اس شحص پر لعنت فرما جس نے تیرے نبی کو رقیہ کے حوالے سے تکلیف پہنچائی۔“ [بحار الأنوار : 110/95]
④ ابن ابی الحدید رافضی شیعہ (م : 656ھ) نے لکھا ہے :
ثم ولدت خديجة من رسول الله صلى الله عليه وسلم : القاسم، والطاهر، وزينب، ورقية، وأم كلثوم، وفاطمة.
”سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بیٹے، قاسم و طاہر رضی اللہ عنہما اور چار بیٹیاں، زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہن تھیں۔“ [شرح نهج البلاغة : 132/5]