سوال :
ا ایک عورت پرانا سونا لے کر سونے کی مارکیٹ میں جاتی ہے اور صراف (سنار) سے کہتی ہے کہ اس کی قیمت کا اندازہ لگاؤ جب وہ اس کی قیمت کا اندازہ کر لیتا ہے تو کہتی ہے کہ اس کی قیمت کے بدلے مجھے نیا سونا دے دو۔ کیا اس طریقہ کار میں شریعت اسلامیہ کے مخالف کوئی چیز ہے ؟
جواب :
یہ معاملہ ناجائز ہے اس لئے کہ یہ سونے کے بدلے سونے کی بیع ہے اور تماثل کا علم نہیں جو کہ معاملے کی صحت کے لیے شرط ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :۔
«الذهب بالذهب مثلا بمثل، سواء بسواء، وزنا بوزن، يدا بيد، فمن زاد أو استزاد فقذ أربي» [صحيح مسلم]
”سونا سونے کے بدلے (فروخت ہو سکتا ہے) جبکہ وہ مثل بمثل (ایک جیسا) ہو یا برابر ہو، ہم وزن ہو اور نقد در نقد ہو۔ جو زیادہ دے یا زیادہ طلب کرے تو اس نے سود کا ارتکاب کیا۔“
اس لئے سونے کو زیادہ سونے کے بدلے فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ یہ اس تماثل سے مانع ہے جو کہ ایسے معاملے کی صحت کے لئے شرط ہے۔ اس کے متعلق شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ وہ اپنے پاس موجود سونے کو مستقل قیمت وصول کر کے فروخت کر دے،، پھر اس شخص سے یا کسی اور سے اپنی ضرورت کے مطابق سونا خرید لے یہ معاملہ سود سے ہٹ کر ایک مستقل معاملہ ہوتا ہے۔
ایسے معاملات میں یوں کرنا بھی جائز ہے کہ آپ اس سے کرنسی نوٹوں یا چاندی کی کرنسی کے بدلے نقد سونا خرید لیں، یا نقدی کے علاوہ کسی اور چیز کے بدلے سونا خرید لیں چاہے وہ ایک معین عرصہ تک ادھار ہی کیوں نہ ہو، مثلا قہوہ، الائچی، چاول، چینی اور کپڑے وغیرہ کے بدلے، اس لئے کہ ان اشیاء اور سونے کے تبادلے میں سود نہیں ہے۔ واللہ ولی التوفیق۔
(شیخ ابن باز)