قبلہ اور سترہ
مضمون کے اہم نکات:
● قبلہ کی طرف رُخ کرنا :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ (البقره: ١٤٤)
’’جہاں بھی تم ہو اپنے چہرے مسجد حرام کی طرف پھیرو۔“
جب فرض نماز ادا کرنا مقصود ہوتا، تو آپ ﷺ سواری سے اترتے اور قبلہ رُخ کھڑے ہو جاتے۔
صحیح بخاری ، کتاب تقصير الصلاة ، رقم: ۱۰۹۹
اگر ایسی جگہ ہو جہاں قبلہ نظر نہیں آتا تو قبلہ کی سمت نماز پڑھیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’مشرق اور مغرب کے درمیان (مغرب کی طرف) تمام سمت قبلہ ہے۔‘‘
سنن ترمذی ، کتاب الصلاة ، رقم: ٣٤٤،٣٤٢- سنن ابن ماجه ، رقم: ۱۰۱۱
● سترہ رکھنا :
سترہ سے مراد وہ چیز ہے جسے نمازی اپنے آگے کھڑا کر کے نماز ادا کرتا ہے، تاکہ آگے سے گزرنے والا گزر جائے اور گناہ گار نہ ٹھہرے اور اس کی نماز میں بھی خلل واقع نہ ہو۔ یہ سترہ لاٹھی، برچھی، دیوار، ستون اور درخت سمیت کسی بھی آڑ بنے والی چیز کو بنایا جا سکتا ہے۔ اور یہ طول میں ہونا چاہیے، عرض میں نہیں۔ امام ابن حبانؒ سترہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
«يجب أن يكون بالطول لا بالعرض.»
’’سترہ طول میں ہونا چاہیے، نہ کہ عرض یعنی چوڑائی میں۔‘‘
صحیح ابن حبان، رقم: ۲۳۷۷
● سترہ کی اہمیت :
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
«إذا قام أحدكم يصلي ، فإنه يستره إذا كان بين يديه مثل آخرة الرحل.»
’’تمہارا جب کوئی نماز پڑھنے لگے اور اس کے سامنے پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی شے ہو تو وہ آڑ کے لیے کافی ہے۔‘‘
صحیح مسلم، كتاب الصلاة ، رقم: ٥١٠.
ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
«لا تصل إلا إلى سترة»
’’سترے کے بغیر نماز نہ پڑھو۔“
صحیح ابن خزیمه : ٣٠٥/٣ رقم ٠٧٧٥ ابن حبان، رقم : ٢٣٦٢
↰ فائدہ
سامنے سترہ رکھ کر نماز پڑھنا افضل ہے، لیکن یہ فرض نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے بغیر سترہ کے نماز پڑھنا بھی ثابت ہے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ : ایک دفعہ میں اور بنو ہاشم کا ایک لڑکا گدھے پر سوار ہو کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔ آپ ﷺ نماز پڑھا رہے تھے۔ ہم گدھے سے اُترے اور اسے چرنے کے لیے چھوڑ آئے، پھر آپ کے ساتھ نماز میں شامل ہو گئے۔ ایک شخص نے پوچھا : ”کیا آپ کے سامنے نیزہ تھا؟ تو انہوں نے فرمایا : ”نہیں۔“
صحیح بخاری، کتاب الصلاة ، رقم : ٤٩٣
علامہ قسطلانی فرماتے ہیں :
إلى غير جدار ، قال الشافعي : إلى غير سترة.
’’یعنی امام شافعیؒؒ نے کہا کہ آپ ﷺ بغیر سترہ کے نماز پڑھ رہے تھے۔“
اسی لیے اس حدیث پر امام بہیقیؒ نے یوں باب قائم کیا ہے :
«باب من صلى إلى غير سترة.»
’’باب اس شخص کے متعلق جو بغیر سترہ کے نماز پڑھے۔“
ملخصا از شرح بخاری، داؤد راز دهلوی: ۵۱۹/۱
اس حدیث کو دلیل بناتے ہوئے جمہور علماء نے سترہ رکھنا مستحب قرار دیا ہے۔
سبل السلام: ۳۲۹/۱
سید سابق کہتے ہیں : ’’نمازی کے لیے سترہ رکھنا مستحب ہے۔‘‘
فقه السنة: ٢٢٤/١
● نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ :
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کو اس کے گناہ کا علم ہو جائے، تو وہ چالیس (سال، ماہ یا دن) تک ٹھہر جائے، یہ اس کے لیے اس کے سامنے سے گزرنے سے بہتر ہے۔‘‘
راوی حدیث سالم بن ابی امید ابو النضرؒ فرماتے ہیں : ’’میں نہیں جانتا کہ آپ ﷺ نے چالیس دن کہا، یا چالیس مہینے، یا پھر چالیس سال کہا۔
صحيح بخاري، كتاب الصلاة، رقم : ٥١٠۔ صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم: ٥٠٧.
● سترہ کے اندر سے گزرنے والے کو روکنا :
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’جب کوئی شخص کسی ایسی چیز کو سامنے رکھ کر نماز پڑھے، جو اسے لوگوں سے بچائے، پھر اگر کوئی اس کے آگے سے گزرنا چاہے تو وہ نمازی اسے روکے، اگر وہ باز نہ آئے تو اس سے لڑائی کرے، کیوں کہ وہ شیطان ہے۔“
صحیح بخاری، کتاب الصلاة، رقم: -٥٠٩ صحيح مسلم، کتاب الصلاة، رقم: ٥٠٥
● سترہ کتنے فاصلے پر ہو :
سہل بن سعدؓ فرماتے ہیں :
’’رسول اللہ ﷺ کے مصلیٰ اور دیوار کے درمیان صرف بکری گزرنے کی جگہ ہوتی تھی۔‘‘
صحیح بخاری، کتاب الصلاة، رقم : ٤٩٦ – صحيح مسلم، كتاب الصلاة، رقم: ٥٠٨
● سترہ کی مقدار :
رسول اللہ ﷺ سے نمازی کے سترہ کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمايا :
«مثل موخرة الرحل.»
’’اونٹ کے پالان کے پچھلے حصہ کی اونچائی کے برابر ہونا چاہیے۔“
صحيح مسلم، کتاب الصلاة، رقم : ٤٩٩
↰ فائدہ
عطاؒ فرماتے ہیں : ”پالان کی پچھلی لکڑی ایک ہاتھ یا اس سے کچھ بڑی ہوتی ہے۔‘‘
سنن ابوداؤد، کتاب الصلاة، رقم : ٦٨٦
● سترہ کے اہم مسائل واحکام :
⟐ امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہے۔
صحيح بخاري، كتاب الصلاة، باب سترة الإمام سترة في خلقه، قبل حديث رقم : ٤٩٣
⟐ بیٹھے یا لیٹے شخص کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے اور اس کی حرکت سے کوئی فرق نہیں پڑتا، جیسا کہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ لیٹی ہوئی تھیں اور رسول اللہ ﷺ نے ان کے پیچھے نماز ادا فرمائی۔
صحیح بخاری، کتاب الصلاة، رقم : ٥١٣- صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم:٥١٢
⟐ جانور کو بھی سترہ بنانا جائز ہے۔
صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم : ٥٠٢