نماز مغرب کے فرائض سے پہلے دو سنتوں کا ثبوت 10 صحیح احادیث سے
یہ اقتباس شیخ بدیع الدین شاہ راشدی کی کتاب تحفہ مغرب سے ماخوذ ہے۔

احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

حدیث نمبر 1

بروایت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ

عن عبد الله بن المغفل قال قال رسول الله ما بين كل اذانين صلاة بين كل اذانين صلاة ثم قال الثالثة لمن شاء
(متفق عليه، مشكاة ص 65)
عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”ہر دو اذانوں کے مابین نماز ہے۔“ دو مرتبہ اسی طرح فرمانے کے بعد تیسری مرتبہ فرمایا: ”جو چاہے پڑھے۔“
یہاں دو اذانوں سے مراد اذان اور اقامت ہے کیوں کہ اقامت کو بھی اذان کہا جاتا ہے۔ اسی لئے امام نسائی نے اپنی سنن میں اس حدیث پر اس طرح باب قائم کیا ہے:
«الصلوة بين الاذان والاقامة» (ص 111)
یعنی اذان اور اقامت کے درمیان نماز کا بیان۔ اور حافظ ابن حجر فتح الباري ص 107 ج 2 میں اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ:
«قوله بين كل اذانين أى اذان و اقامه» یعنی اس سے مراد اذان اور اقامت ہے۔ قسطلانی شرح بخاری ص 13 ج 2 میں بھی اسی طرح ہے۔
سوال: بظاہر اذان سے مراد تو اذان ہی ہوتی ہے؟
جواب: اس طرح تو اس حدیث کے معانی لغو اور بے فائدہ ہو جائیں گے۔ «فتح الباري» صفحہ مذکورہ میں ہے کہ: «ولا يصح حمله على ظاهره لان الصلوة بين الاذانين مفروضة والخبر ناطق بالتخيير لقوله لمن شاء» یعنی اس سے ظاہری مراد یعنی اذان سمجھنا صحیح نہیں ہے کیوں کہ دو اذانوں کے درمیان تو فرض نماز ہوتی ہے اور یہاں یہ الفاظ ہیں کہ ”جو چاہے پڑھے۔“ اس لئے یہاں اذان مراد نہیں ہے کیوں کہ حدیث سے اختیاری نماز یعنی سنت مراد ہے۔
سوال: اقامت کو اذان کس مناسبت سے کہا گيا ہے؟
جواب: قسطلانی شرح بخاری ص 13 ج 2 میں ہے کہ:
« أى الاذان والاقامة فهو من باب التغليب او الاقامة اذان بجامع الاعلام فالاول للوقت و الثاني للفعل»
یعنی اس سے مراد اذان اور اقامت ہے اور یہاں اقامت کو اذان تغلیباً کہا گيا ہے، یعنی دو چیزوں پر ایک چیز کا نام استعمال کرنا، مثلاً سورج اور چاند کو «القمرين» یا القمران کہنا، مغرب اور عشاء کو العشائين یا ظہر اور عصر کو العصرين کہنا وغیرہ۔ یا پھر اس لئے کہ لفظ اذان کے معنی معلوم کرانا یا اطلاع دینا ہیں اور چونکہ اذان نماز کا وقت بتانے کے لئے اور اقامت نماز کے شروع ہونے کو بتانے کے لئے ہوتی ہے لہذا اقامت کو اذان کہا گيا ہے۔ ناظرین! اس حدیث میں یہ مسئلہ بیان کیا گيا ہے کہ ہر اذان اور اقامت کے مابین نماز پڑھنی چاہئے اور اس میں مغرب کی اذان اور اقامت بھی داخل ہیں کیوں کہ حدیث عام ہے۔

حدیث نمبر 2

بروایت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما

أخرج ابن حبان فى صحيحه عن عبد الله بن الزبير قال قال رسول الله والله ما من صلوة مفروضة الا وبين يديها ركعتان
(موارد الظمآن ص 162، سنن الدارقطني ص 99 ج 1، مختصر قيام الليل للمروزي ص 26، نصب الراية للزيلعي ص 142 ج 2)
عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”ہر فرض نماز سے پہلے دو رکعتیں ہیں۔“
صحت حدیث:
اس حدیث کو امام ابن حبان نے اپنی صحیح میں داخل کیا ہے لہذا یہ حدیث ان کے نزدیک صحیح ہے اور امام مروزي نے اس کو ثابت مانا ہے اور علامہ سیوطی نے الجامع الصغير ص 150 ج 2 میں اس حدیث کو حسن کہا ہے اور نصب الراية ص 142 ج 2 کے حاشیہ میں لکھا ہوا ہے کہ: ورجال الدارقطني ثقات یعنی دارقطنی کی سند کے تمام راوی ثقہ اور معتبر ہیں۔
توضیح:
اس روایت میں ہر فرض کا ذکر ہے جس میں مغرب کی نماز بھی شامل ہے اس لئے اس فرمان نبوی صلى الله عليه وسلم کے مطابق اس سے پہلے بھی دو رکعتیں پڑھنی چاہئیں۔ اس حدیث کو حافظ زیلعی نے نصب الراية میں نماز مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنے کے ثبوت کے لئے ذکر کیا ہے۔ اس طرح امام مروزي اور امام دارقطنی نے اس حدیث سے اسی سنت کا ثابت ہونا مراد لیا ہے۔

حدیث نمبر 3

بروایت عبد اللہ المزنی رضی اللہ عنہ

عن عبد الله المزني عن النبى قال صلوا قبل المغرب قال فى الثالثة لمن شاء كراهية ان يتخذها الناس سنة
(رواه البخاري في صحيحه ص 157 ج 1)
عبد اللہ مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: ”نماز مغرب سے پہلے سنت پڑھو۔“ تیسری مرتبہ فرمایا: ”جو چاہے پڑھے۔“ اس لئے کہ کوئی اس کو لازمی نہ سمجھ لے یعنی فرض نہ جان لے۔
توضیح:
اس حدیث میں صریح حکم موجود ہے اس لئے کسی بھی مسلمان کو اس سنت سے عار محسوس نہیں کرنی چاہئے اور اس پر عمل کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتنی چاہئے۔ اور یہاں بھی آپ صلى الله عليه وسلم نے ”جو چاہے۔“ فرمایا تاکہ کوئی اس کو فرض نہ سمجھ بیٹھے کیوں کہ سنت شریعت میں واجب کو بھی کہا جاتا ہے جیسے فقہ حنفی کی مشہور کتاب الشامي ص 178 ج 2 میں ہے اور یہاں آپ صلى الله عليه وسلم کا یہ فرمانا کہ کوئی اس کو سنت نہ سمجھ لے اس سے مراد ”واجب“ اور ”فرض“ ہے صرف مستحب مراد نہیں ہے کیوں کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے مسلسل تین بار حکم دینے سے گمان ہو سکتا تھا کہ ”فرض“ ہے اور علماء اصول کے نزدیک حکم فرض اور واجب کے لئے ہوتا ہے اور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی نافرمانی کرنے والے کے لئے سخت وعید آئی ہے۔
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
(24-النور:63)
”جو بھی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں وہ کسی بڑے فتنے یا دردناک عذاب میں گرفتار ہو سکتے ہیں۔“
ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا حکم ”فرض“ ہوتا ہے جب تک اس کے لئے دوسرا کوئی قرینہ صارفہ نہ ہو کہ اس کی وجہ سے حکم کے اصلی معنی نہ رہیں بلکہ وہ استحباب کے لئے ہو جائے۔ اسی طرح آپ صلى الله عليه وسلم نے یہاں بھی ”جو چاہے۔“ فرمایا کہ یہ حکم فرضیت کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ جملہ اس حکم کے لئے قرینہ صارفہ ہے کہ اس کو فرض نہ سمجھ لیا جائے باقی اس کے سنت ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اس لئے مسلمان جیسے دوسری سنتوں کو ادا کرتے ہیں اسی طرح اس سنت کے ادا کرنے میں بھی کوئی کوتاہی نہ کریں۔

حدیث نمبر 4

بروایت انس بن مالک رضی اللہ عنہ

عن مختار بن فلفل عن انس بن مالك قال كنا نصلي على عهد رسول الله ركعتين بعد غروب الشمس قبل صلوة المغرب فقلت له أكان رسول الله صلاهما قال كان يرانا نصليهما فلم يأمرنا ولم ينهانا
(رواه مسلم في صحيحه ص 278 ج 1 مع النووي)
مختار بن فلفل انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے دور میں نماز مغرب سے قبل دو رکعت سنت پڑھا کرتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم بھی یہ دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ کہنے لگے کہ آپ صلى الله عليه وسلم ہمیں ان کو پڑھتے ہوئے دیکھتے تھے پس نہ ہمیں مزید حکم دیتے اور نہ منع کرتے۔
توضیح:
اس حدیث سے ظاہر ہوا کہ عہد نبوی صلى الله عليه وسلم میں مسجد نبوی صلى الله عليه وسلم میں اس سنت پر عمل جاری تھا لہذا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے سچی محبت کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ مسجد نبوی والا یہ طریقہ اپنی مساجد میں جاری رکھیں۔
سوال: اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم خود نہیں پڑھتے تھے؟
جواب: اس حدیث میں ایسا کوئی انکار نہیں ہے بلکہ حدیث نمبر 9 میں ان شاء اللہ بیان ہو گا کہ آپ صلى الله عليه وسلم بھی یہ سنت پڑھتے تھے۔ نیز جس کام کے بارے میں آپ صلى الله عليه وسلم حکم کریں اور ترغیب دلائیں اور پھر خود اس پر عمل نہ کریں، ایسا سمجھنا آپ صلى الله عليه وسلم کی شان اقدس میں سوء ظن اور بدگمانی ہے اور آپ صلى الله عليه وسلم اس طرح کیسے کر سکتے ہیں حالانکہ جو قرآن آپ صلى الله عليه وسلم پر نازل ہوا اس میں خطاب ہے کہ:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ‎﴿٢﴾‏ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ ‎﴿٣﴾‏
(61-الصف:3، 2)
”تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے، اللہ کو اس پر بہت بڑی ناراضگی ہوتی ہے کہ تم دوسروں سے کہو اور خود عمل نہ کرو۔“
اس لئے یہ ناممکن ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم جو حکم کریں خود عمل نہ کریں۔ ایضاً اگر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم یہ سنت نہ پڑھتے ہوتے تو عام صحابہ رضی اللہ عنھم بھی قطعاً نہ پڑھتے۔
سوال: اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حکم نہیں دیا؟
جواب: اس حدیث میں اس کا انکار نہیں ہے بلکہ راوی کہتا ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے نہ حکم دیا نہ ہی منع فرمایا۔ اس جملے سے یہ مطلب اخذ کرنا غلط ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حکم نہیں دیا کیونکہ اس موقع پر حکم دینے کی کوئی ضرورت نہ تھی اس لئے کہ حکم اس وقت دیا جاتا ہے جب عمل نہ ہو رہا ہو۔ جب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے سامنے عمل ہو رہا تھا تو حکم دینے کی کیا ضرورت؟ بلکہ جب حکم کے بارے میں احادیث اوپر گزریں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اس کی تعمیل کی اور اس سنت کو معمول بنایا تو اس کے سنت ہونے کے لئے یہی کافی ہے کیونکہ سنت کی تین قسمیں ہیں:
1. قولی:
یعنی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کسی کام کے بارے میں حکم یا ترغیب دیں۔
2. فعلی:
جو کام رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے عملاً ثابت ہو۔
3. تقریری:
جس کام کو دیکھ کر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم خاموش رہیں، منع نہ فرمائیں۔
اور یہ سنت تینوں طریقوں قولاً، فعلاً، تقریراً ثابت ہے۔ اس لئے اس کے سنت ہونے میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں رہی۔

حدیث نمبر 5

بروایت عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ

«عن عبد الله بن بريدة عن عبد الله المزني قال قال رسول الله صلوا قبل المغرب ركعتين ثم صلوا قبل المغرب ركعتين لمن شاء خشية ان يتخذها الناس سنة»
(رواه أبو داود في سننه ص 183 ج 1 والدارقطني في سننه ص 99 وقال فيه ثلاثا)
عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ عبد اللہ المزنی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھا کرو۔“ تیسری مرتبہ فرمایا: ”جو چاہے پڑھے۔“ اس لئے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو یہ ناپسند تھا کہ کوئی اس کو واجب یا فرض سمجھ لے۔
صحت حدیث:
اس حدیث پر امام ابو داود نے کوئی جرح نہیں کی اور امام دارقطنی و امام مروزي نے اس کو صحیح کہا ہے۔

حدیث نمبر 6

بروایت مرثد بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ

«عن مرثد بن عبد الله المزني قال اتيت عقبة بن عامر الجهني فقلت الا اعجبك من ابي تميم ركع ركعتين قبل صلوة المغرب فقال عقبة انا كنا نفعله على عهد رسول الله قلت فما يمنعك الآن قال الشغل»
(رواه البخاري في صحيحه ص 108 ج 1 والدارقطني في سننه ص 100 ج 1 وفيه ان ابا تميم الجيشاني قام فركع ركعتين قبل صلوة المغرب)

مرثد بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں آپ کو ابو تمیم کی عجیب بات بتاؤں کہ وہ مغرب سے قبل دو رکعتیں پڑھتے ہیں۔ جواب میں عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے عہد مبارک میں یہ دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ تب میں نے کہا کہ پھر اب آپ کو کس نے روکا ہے؟ کہنے لگے: ”الشغل یعنی مشغولیت نے۔“
توضیح:
شغل سے مراد ضروری مصروفیات ہیں اس لئے کہ اس وقت یہ صحابی یعنی عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ مصر کے گورنر تھے اور عوام کے مسائل میں زیادہ مصروف رہتے تھے (بلوغ الاماني شرح الفتح الرباني ص 217 ج 4) اور اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ عہد نبوی صلى الله عليه وسلم میں یہ سنت مروجہ تھی۔
سوال: صحابہ رضی اللہ عنھم کے نہ پڑھنے سے معلوم ہوا کہ یہ سنت نہیں ہے؟
جواب: جو فعل رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے عہد مبارک میں رائج ہو وہ سنت ہی ہوتی ہے اور اسی لئے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے ابو تمیم کے بارے میں ان دو رکعتوں کے پڑھنے کی خبر سننے کے بعد ان پر کوئی اعتراض اور انکار نہیں کیا بلکہ اس کے مسنون ہونے کا ثبوت فراہم کیا اور اپنی کوتاہی تسلیم کی۔

حدیث نمبر 7

بروایت انس بن مالک رضی اللہ عنہ

عن انس بن مالك قال كنا بالمدينة فاذا اذن المؤذن لصلوة المغرب ابتدروا السواري فركعوا ركعتين حتى ان الرجل الغريب ليدخل المسجد فيحسب ان الصلوة قد صليت من كثرة من يصليها
(رواه مسلم في صحيحه ص 278 ج 1 مع النووي وابن ماجه في سننه ص 73 نحوه)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم مدینہ میں ہوتے تھے جب مغرب کی اذان ہوتی تھی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جلدی جلدی ستونوں کے پیچھے کھڑے ہو کر دو رکعتیں پڑھتے تھے، یہاں تک کہ باہر سے آنے والے مسافر بہت سارے لوگوں کو سنت پڑھتے دیکھ کر یہ خیال کرتے کہ شاید فرض نماز پڑھی جا چکی ہے۔
توضیح:
اس حدیث سے بھی بالتفصیل معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے عہد مبارک میں مسجد نبوی صلى الله عليه وسلم میں یہ عمل عام تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت دے کہ وہ بھی اپنی مساجد کو مسجد نبوی صلى الله عليه وسلم جیسا نمونہ بنائیں اور نبوی رواج کو اپنے وقت میں رائج کریں۔ اللہم آمین۔

حدیث نمبر 8

بروایت انس بن مالک رضی اللہ عنہ

«عن انس بن مالك رضى الله عنه يقول كان المؤذن يؤذن على عهد رسول الله لصلوة المغرب فيبتدر لباب أصحاب رسول الله السواري ليصلون الركعتين قبل المغرب حتى يخرج رسول الله وهم يصلون»
(رواه الامام محمد بن نصر المروزي في قيام الليل مختصر قيام الليل ص 24)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے عہد مبارک میں جب مؤذن مغرب کی اذان دیتا تھا تب بڑے اور خاص صحابہ رضی اللہ عنھم بسرعت ستونوں کے پیچھے جا کر فرض نماز سے پہلے دو رکعت سنت پڑھتے تھے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نکلتے اور وہ نماز پڑھ رہے ہوتے تھے۔
توضیح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنھم کو یہ سنت مرغوب اور پسندیدہ تھی اور ان کی یہ کوشش رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو بھی پسند تھی۔

حدیث نمبر 9

بروایت عبد اللہ المزنی رضی اللہ عنہ

عن عبد الله المزني ان رسول الله صلى قبل المغرب ركعتين ثم قال صلوا قبل المغرب ركعتين ثم قال عند الثالثة لمن شاء خاف ان يحسبها الناس سنة
(رواه المروزي في قيام الليل ص 28)
عبد اللہ مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھیں پھر فرمایا: ”مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھا کرو۔“ پھر تیسری بار فرمایا: ”جو چاہے پڑھے۔“ اس ڈر سے کہ کوئی اس کو فرض نہ سمجھ لے۔
صحت حدیث: علامہ احمد بن علی مقریزی نے مختصر قيام الليل میں اس حدیث کے بعد لکھا ہے کہ: وهذا اسناد على شرط مسلم یعنی اس حدیث کی اسناد صحیح مسلم کی شروط پر صحیح ہیں۔ نیز امام ابن حبان نے اس کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے (موارد الظمآن ص 63-162) اس لئے یہ حدیث ان کے نزدیک بھی صحیح ہے۔
توضیح:
اس حدیث کے مطابق یہ سنت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے قولاً و فعلاً دونوں طرح ثابت ہے۔ سبل السلام شرح بلوغ المرام ص 5 ج 2 میں ہے کہ: فثبت شرعيتهما بالقول والفعل یعنی ان دو رکعتوں کا مشروع و مسنون ہونا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے قول اور فعلاً دونوں طرح ثابت ہے۔ اسی طرح جد امجد صاحب الخلافة کا بھی فرمان ہے جیسا کہ آخر میں آپ کی عبارت بھی ذکر کی جائے گی ان شاء اللہ۔
ناظرین! اس حدیث سے یہ وہم دور ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے تو یہ سنت نہیں پڑھی کیونکہ اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے خود یہ سنت پڑھی پھر دوسروں کو حکم فرمایا۔ اس سے اس سنت کی بڑی شان ظاہر ہوئی اور اس کے خلاف تمام عذر ختم ہو گئے۔

حدیث نمبر 10

بروایت ابو امامہ رضی اللہ عنہ

عن أبى امامة رضى الله عنه قال كنا لا ندع الركعتين قبل المغرب فى زمن رسول الله
(رواه بيهقي ص 476 ج 2)
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے عہد مبارک میں نماز مغرب سے پہلے دو رکعت سنت پڑھنا ترک نہیں کرتے تھے۔
توضیح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ ”دائمی“ اور راتبہ سنت ہے اور کچھ لوگوں کا یہ کہنا غلط ہوا کہ کبھی پڑھنی چاہئے اور کبھی ترک کر دینی چاہئے۔
ناظرین!
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم یہ سنت پڑھتے تھے اور دوسروں کو تاکید فرماتے تھے اور عہد نبوی صلى الله عليه وسلم میں اس پر عمل تھا۔ نیز رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے خادم جو عمر کے آخری دس سال آپ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں رہے یعنی انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور آپ صلى الله عليه وسلم کے دیگر صحابہ جیسے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ، ابو امامہ باهلی رضی اللہ عنہ وغیرہم رضی اللہ عنھم بھی اس سنت پر عامل تھے۔ مزید تاکید کے لئے کچھ صحابہ رضی اللہ عنھم کے آثار بیان کئے جاتے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1