نمازی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے عقیدہ توحید کو مضبوط کرلے
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب نماز مصطفیٰ علیہ الصلوۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

عقیدہ توحید

نمازی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے عقیدہ توحید کو مضبوط کرلے، جو کہ اصل الاسلام، بلکہ عین الاسلام ہے۔ نماز اور توحید کا آپس میں بڑا مضبوط تعلق ہے، نماز توحید الہ العالمین کا درس دیتی ہے، پوری کی پوری نماز مضمون توحید پر مشتمل، توحید کی متقاضی ہے۔ اسی لیے فرمایا :
أَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ‎﴿٣١﴾ (الروم:۳۱)
’’نماز کو قائم کرو، اور مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ۔“

معلوم ہوا کہ حفاظت نماز کا عمل انسان کو شرک کی غلاظتوں سے محفوظ کر لیتا ہے، شرک نمازی کے لیے تکلیف دہ چیز ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیمؑ کو حکم فرمایا کہ بیت اللہ کو شرک اور اس قسم کی دوسری آلائشوں اور گندگیوں سے پاک رکھیں، تا کہ طواف کرنے والوں، نماز پڑھنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کو ایذاء و تکلیف نہ پہنچے :
وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ‎﴿٢٦﴾ (الحج:٢٦)
’’اور جب ہم نے ابراہیم کے لیے خانہ کعبہ کی جگہ مقرر کر دی، اور ان سے کہا کہ آپ کسی چیز کو بھی میرا شریک نہ ٹھہرائیے، اور میرے گھر کو، طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھیئے۔“

لیل و نہار کی گردش شمس و قمر کا نور، اور ان کا ایک نظام محکم کے مطابق اپنے مدار میں چلتے رہنا، اور اس میں ذرہ برابر فرق کا نہ آنا، اللہ تعالیٰ کی ایسی عظیم نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت اور اس کے علم و حکمت پر دلالت کرتی ہیں، اور انسان کو دعوت دیتی ہیں کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے :
وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۚ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ‎﴿٣٧﴾ (حم السجده : ٣٧)
’’اور اس کی نشانیوں میں رات اور دن، اور آفتاب و ماہتاب ہیں، لوگو! تم آفتاب کو سجدہ نہ کرو، اور نہ ماہتاب کو، اور اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے، اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو۔“

وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا (النساء:٣٦)
’’اور ہر قسم کی عبادت اللہ کے لیے انجام دو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔‘‘

ولَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًا (الكهف:١١٠)
’’اور (کوئی) اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔“

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
«حق الله على عباده أن يعبدوه ولا يشركوا به شيئا»
’’اللہ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔‘‘
صحیح بخاری، کتاب اللباس، رقم : ٥٩٦٧

مذکورہ بالا حدیث پاک میں سید ولد آدم، محبوب سبحانی، ہادی عالم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا بندوں پر یہ حق بیان کیا ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ توحید کی تکمیل صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت سے نہیں ہوتی، بلکہ عبادت کے ساتھ ہر قسم کے شریک کی نفی اور انکار بھی ضروری ہے، ورنہ توحید ناقص ہی رہے گی، بلکہ نا قابل قبول ہوگی۔

اسی مذکورہ بالا حدیث سے شیخ الاسلام محمد تمیمیؒ نے کتاب التوحید میں استدلال کیا ہے :

«إن العبادة هي التوحيد.»
«إن عبادة الله لا تحصل إلا بالكفر بالطاغوت.»

سورۃ ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ﴾ کا بھی یہی مضمون ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فرمان :
فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ (البقرة:٢٥٦)
’’پس جو کوئی طاغوت کا انکار کر دے گا، اور اللہ پر ایمان لے آئے گا، اُس نے در حقیقت ایک مضبوط کڑے کو پوری قوت کے ساتھ تھام لیا۔‘‘
کا بھی یہی معنی ہے، فاتح بدروحنین، رسول اللہ ﷺ کو بھی یہی دعوت پیش کرنے پر مامور کیا گیا :

قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا أُشْرِكَ بِهِ ۚ إِلَيْهِ أَدْعُو وَإِلَيْهِ مَآبِ ‎﴿٣٦﴾ (الرعد:٣٦)
’’آپ بیان فرما دیں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی عبادت کروں، اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤں، میں لوگوں کو اسی طرف بلاتا ہوں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“

اس آیت کریمہ میں سیرت و صورت میں بے مثال، محمد رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ کافروں کو بتادیں کہ آپ ﷺ صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اور کسی کو اس کا شریک نہیں بناتے۔ اور یہ بنیادی عقیدہ ہے جس پر تمام ادیان سماویہ کا اتفاق ہے۔
(تيسير الرحمن، ص: ۷۱۹)

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام : ١٦٢-١٦٣)
’’آپ کہیے کہ میری نماز اور میری قربانی، اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اور مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے اور میں اللہ کا پہلا فرمانبردار ہوں۔“

حکیم لقمانؑ بھی اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں، وہ کسی کو اللہ کا شریک نہ ٹھہرائے، کیونکہ شرک ظلم عظیم ہے، وہ جب تک زندہ رہے صرف اکیلے معبود اللہ عزوجل کی عبادت کرے، لہذا اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہوسکتا ہے کہ بندہ اپنے خالق کی مرضی کی مخالفت کرتے ہوئے غیروں کے سامنے سجدہ کرے، مرادیں مانگے اور اپنی جھولی پھیلائے :
وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ‎﴿١٣﴾ (لقمان:١٣)
’’اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا، اے میرے بیٹے ! کسی کو اللہ کا شریک نہ بنا، بے شک شرک ظلم عظیم ہے۔“

شرک کی وجہ سے انسان کے سارے کے سارے اعمال اکارت ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالی نے سورۃ الانعام میں اٹھارہ (۱۸) انبیاء کی نبوت و رسالت ، ہدایت و عظمت کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اگر وہ ان عظمتوں کے باوجود شرک کا ارتکاب کر بیٹھتے تو ان کے سارے اعمال صالحہ ضائع ہو جاتے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ‎﴿٨٨﴾ (الانعام:۸۸)
’’اگر وہ شرک کرتے تو ان کے اعمال ضائع ہو جاتے۔“

حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ’’اس آیت کریمہ میں شرک کی ہیبت ناکی اور اس کی خطرناکی کو بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد میں فرمایا ہے :
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ (زمر ۶۵)
’’کہ آپ کو اور آپ سے پہلے تمام انبیاء کرام کو بذریعہ وحی بتا دیا گیا ہے کہ اگر آپ نے شرک کیا تو آپ کا عمل ضائع ہو جائے گا۔‘‘
مختصر تفسير ابن كثير : ٤۸۸/۲، طبع دار السلام، لاهور.

جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا، اس پر جنت حرام ہے، اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے :
إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ (المائدة: ۷۲)
’’بے شک جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرائے گا تو اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے، اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔“

مشرک پر اللہ کی جنت حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو سورہ اعراف میں بھی بیان کیا ہے، ارشاد فرمایا:
وَنَادَىٰ أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنَا مِنَ الْمَاءِ أَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ ۚ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِرِينَ ‎﴿٥٠﴾ (الاعراف: ٥٠)
’’اور جہنم والے جنت والوں کو پکاریں گے کہ ہمارے اوپر تھوڑا پانی ہی ڈال دو، یا اور کچھ دے دو جو اللہ نے تم کو دے رکھا ہے تو جنت والے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں چیزوں کو کافروں پر حرام کر دیا ہے۔“

اور بخاری ومسلم نے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کر دے :
«إن الجنة لا يدخلها إلا نفس مسلمة»
’’جنت میں صرف مسلمان انسان ہی داخل ہو سکے گا۔‘‘
صحيح بخاري، كتاب الرقاق، رقم: ٦٥٢٨ صحيح مسلم، كتاب الإيمان ، رقم: ۲۱۱/۳۷۷

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!