روایت ہے کہ حضرت دحیہ کلبی قیصر کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خط دے کر واپس آئے تو وہاں کسریٰ کے صنعاء علاقے کے جو گورنر تھے ان کی طرف سے قاصد آئے ہوئے تھے اور کسریٰ نے صنعاء کے گورنر کو دھمکی آمیز خط لکھا تھا اور بڑے زور سے لکھا تھا کہ تم اس آدمی کا (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) کا کام تمام کر دو جو تمہارے علاقے میں ظاہر ہوا ہے اور وہ مجھے اس بات کی دعوت دے رہا ہے کہ یا تو میں اس کا دین قبول کر لوں نہیں تو میں اسے جزیہ دینے لگ جاؤں اور اگر تم نے اس کا کام تمام نہ کیا تو میں تم کو قتل کر دوں گا اور تمھارے ساتھ ایسا ویسا کروں گا، چنانچہ صنعاء کے گورنر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پچس آدمی بھیجے جن کو حضرت دحیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود پایا۔ جب ان کا نمائندہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خط سنا چکا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پندرہ دن تک کچھ نہ کہا۔ جب پندرہ دن گزر گئے تو یہ لوگ آپ کے سامنے آئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھا تو ان کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ جا کر اپنے گورنر سے کہہ دو کہ آج رات میرے رب نے اس کے رب کو قتل کر دیا ہے۔ چنانچہ وہ واپس چلے گئے اور اپنے گورنر کو ساری سرگزشت سنائی، اس نے کہا کہ اس رات کی تاریخ یاد رکھو اور یہ بھی کہا کہ مجھے بتاؤ کہ تم نے ان کو (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو) کیسا پایا، تو انھوں نے کہا کہ ہم نے ان سے زیادہ برکت والا کوئی بادشاہ نہیں دیکھا وہ عام لوگوں میں بلاخوف و خطر چلتے پھرتے ہیں، ان کا لباس معمولی اور سیدھا سادھا ہے۔ ان کا کوئی پہرے دار اور محافظ نہیں ہے۔ ان کے سامنے لوگ اپنی آواز بلند نہیں کرتے۔ حضرت دحیہ فرماتے ہیں کہ پھر یہ خبر آ گئی کہ کسریٰ ٹھیک اسی رات قتل کیا گیا جو رات آپ نے بتائی تھی۔
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔
ہیثمی مجمع الرواند 309/5 کتاب الجہاد رقم الحدیث 9591 میں کہتے ہیں اس کو بزار، رقم 2374 میں روایت کیا ہے اس کی سند یہ ہے : «عن ابراهيم بن اسماعيل بن يحيي بن سلمه» اوروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں جبکہ دونوں ضعیف ہیں۔