فضائل اعمال ، صدقہ
تالیف : حافظ عبد العظیم المنذری, ترجمہ: ابوعمار عمر فاروق سعیدی حفظ اللہ

صدقہ کی فضیلت
فرشتوں کی دعائیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہےکہ :
مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ الْعِبَادُ فِيهِ، إِلَّا مَلَكَانِ يَنْزِلَانِ، فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا: اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، وَيَقُولُ الْآخَرُ اللَّهُمَّ: أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا
”ہر دن جب لوگ صدقہ کرتے ہیں تو دو فرشتے اترتے ہیں ایک کہتا ہے : اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو نعم البدل عنایت فرما، اور دوسرا کہتا ہے : اے اللہ ! خرچ کرنے والے ( بخیل ) کا مال ضائع کر دے ! “ [صحيح بخاري مسلم2336]

صدقہ کی اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ :
لَا يَتَصَدَّقُ أَحَدٌ بِتَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ، إِلَّا أَخَذَهَا اللَّهُ بِيَمِينِهِ، فَيُرَبِّيهَا كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ أَوْ قَلُوصَهُ، حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ أَوْ أَعْظَمَ
”جب تم میں سے کوئی اپنی حلال کمائی میں سے ایک کھجور بھی صدقہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور پھر اس کو بڑھاتا اور پالتا رہتا ہے جیسے کہ تم بچھیرے اور توڈے ( گھوڑے اور اونٹ کے بچے ) کو پالتے ہو، حتی کہ وہ (ایک کھجور) پہاڑ یا اس سے بھی بڑی ہو جائے گی۔ “ [صحيح مسلم 2343 ]

صدقہ کے موقعہ کو غنیمت جاننا چاہیے
حضرت حارثہ بن وھب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے کہ :
تَصَدَّقُوا فَيُوشِكُ الرَّجُلُ يَمْشِي بِصَدَقَتِهِ، فَيَقُولُ الَّذِي أُعْطِيَهَا لَوْ جِئْتَنَا بِهَا بِالْأَمْسِ قَبِلْتُهَا، فَأَمَّا الْآنَ فَلَا حَاجَةَ لِي بِهَا، فَلَا يَجِدُ مَنْ يَقْبَلُهَا
”صدقہ دیا کرو، عنقریب ایسا وقت آنے والا ہے کہ آدمی اپنا صدقے کا مال لے کر نکلے گا، تو جس شخص کو دے گا وہ کہے گا کہ اگر آپ کل لے آتے تو میں لے لیتا مگر اب تو مجھے اس کی ضرورت نہیں چنانچہ اسے کوئی ایسا آدمی نہ ملے گا جو اس کا صدقہ قبول بھی کر لے۔“ [صحيح مسلم2337 ]

صدقہ کرنے کے لئے مقدار کے متعلق نہ سوچنا چاہئے
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار دوزخ کی آگ کا ذکر کیا اور اللہ کی پناہ چاہی یہ کہتے ہوئے آپ نے اپنا منہ بھی ایک جانب کو پھیرا اور تین بار ایسا کیا اور پھر ارشاد فرما یا :
”آگ سے بچاؤ حاصل کر لو اگرچہ وہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے ہی ہو اگر نہ ملے تو اچھی بات کہہ کے ہی بچاؤ حاصل کرو۔“ [متفق عليه ]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول مقبول علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ مجھے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ احد پہاڑ جتنا سونا ملے اور تین رات تک میرے پاس اس میں سے کوئی ایک دینار بھی باقی بچے ! سوائے اس دینار کے جو میں قرض کی ادائیگی کے لئے روک لوں۔ [متفق عليه]

صدقہ مال کا – – – – سایہ اللہ کا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ :
سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ، الْإِمَامُ الْعَادِلُ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ، وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ، وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخْفَى حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ
”سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنا سایہ عنایت فرمائے گا جس دن کہ اس کے علاوہ کسی اور کا سایے نہ ہو گا۔
➊ امام عادل یعنی منصف حاکم
➋ وہ نوجوان جو عالم جوانی میں اللہ کا عبادت گزار رہا۔
➌ وہ شخص کہ اس کا دل اللہ کی مسجدوں میں اٹکا رہتا ہے۔
➍ وہ دو آدمی جو آپس میں اللہ کی رضا کے لئے محبت کرتے ہیں اسی پر اکھٹے ہوتے اور اسی پر جدا ہوتے ہیں۔
➎ وہ انسان کہ اسے کسی خوبصورت عزوجاہ والی عورت نے دعوت (بدکاری ) دی تو اس نے یہ جواب دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔
➏ وہ آدمی جس نے خاموشی سے صدقہ دیا اور اس قدر چھپا کر دیا کہ گویا اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں کہ دائیں نے کیا دیا۔
➐ وہ شخص جس نے اکیلے بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کو یاد کیا ہو اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔“ [صحيح البخاري660 ]

سب سے افضل صدقہ ؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار رسالت مآب علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور پوچھا کہ :
يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ أَجْرًا؟، فَقَالَ: ” أَمَا وَأَبِيكَ لَتُنَبَّأَنَّهُ أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ، تَخْشَى الْفَقْرَ وَتَأْمُلُ الْبَقَاءَ، وَلَا تُمْهِلَ حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ "، قُلْتَ: لِفُلَانٍ كَذَا، وَلِفُلَانٍ كَذَا، وَقَدْ كَانَ لِفُلَانٍ
”اے اللہ کے رسول ! کون سا صدقہ سب سے عظیم اور افضل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : تو اس حال میں دے کہ تو صحت مند اور مال کے لئے حریص بھی ہو، محتاجی سے خائف ہو اور دولت مندی کا متمنی بھی ہو، اور صدقہ دینے کے لئے انتظار نہ کر کہ جب جان حلق میں آن اٹکے تو کہنے لگے اتنا فلاں کے لئے اور اس قدر فلاں کے لئے حالانکہ وہ تو کسی نہ کسی کا حق ( ورثہ ) ہو چکا ہو ! “ [ صحيح مسلم2383 ]

خرچ کرنے میں ”اول خویش بعد درویش“ کا خیال رکھنا چاہیے
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
يا ابن آدم إنك ان تبذل الفضل خير لك، وان تمسكه شر لك، ولا تلام على كفاف، وابدا بمن تعول، واليد العليا خير من اليد السفلى
” اے فرزند آدم ! ضرورت سے زائد مال کا خرچ کر دینا تیرے لیے خیر اور بہتر ہے اور اسے بچا بچا کر رکھنا تیرے لیے برا ہے اور کفایت بھر مال کے لئے تم پر کوئی ملامت نہیں . دیتے ہوئے ان لوگوں سے ابتداء کر جو تیری عیال داری میں ہوں اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے سے بہتر ہوں اوپر والے ہاتھ نیچے والے سے بہتر ہے۔ “ [ صحیح مسلم 2388]
”اوپر والے ہاتھ“ کا معنی حدیث میں ”خرچ کرنے اور دینے والا“ آیا ہے۔
امام خطابی رحمہ اللہ کی روایات میں اس سے مراد وہ عفیف اور خودار شخص ہے جو کسی سے مانگے نہیں۔ اور ”نیچے والا ہاتھ“ اس سے مراد ”مانگنے والا “ ہے۔
امام حسن حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ اس سے مراد ”بخیل“ ہے۔
خیال رہے کہ بعض جاہل قسم کے صوفی لوگوں نے ”اوپر والے ہاتھ“ کا مفہوم ”لینے والا“ مراد لیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی کا نائب ہے لیکن حدیث میں وارد مطلب ہی واضح اور صحیح ہے .
(اس قول کی توضیح یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے لیے دیتا ہے تو وہ کسی محتاج ضرورت مند شخص کے ہاتھ میں ہی دیتا ہے۔ تو یہ لینے والا ہاتھ قبول کرنے کے اعتبار سے اللہ کا نائب ہوتا ہے تو ان کے قول کے مطابق دینے اور خرچ کرنے والے کے مقابلے میں یہ لینے والا ہاتھ افضل ہوا۔ لیکن یہ نکتہ لغو اور لا یعنی ہے اس لیے کہ اللہ تعالی بھی بذات خود کسی کو نہیں دیتا بلکہ لوگوں کے ہاتھوں ہی دلواتا ہے تو اس طرح دینے والا ہاتھ بھی اللہ تعالی کا نائب ہوا)۔

صدقہ کی مختلف صورتیں
حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
على كل مسلم صدقة، فقالو يا رسول الله فمن لم يجد قال يعين ذا الحاجة الملهوف، قالوا : فإن لم يجد ؟ , قال : فليعمل بالمعروف، وليمسك عن الشر فإنها له صدقة
”ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے، صحابہ بولے، اے اللہ کے رسول : اگر نہ ملے تو ؟ فرمایا کہ پریشان حال حاجت مند کی مدد ہی کر دے وہ کہنے لگے اگر کوئی ایسی صورت نہ بنے تو ؟ فرمایا کہ نیکی کا کام اختیار کرے اور برائی سے دور رہے یہی اس کے لیے صدقہ ہے“۔ [صحيح بخاري 6022]

باب ”صدقہ“ خرچ کرنے والوں کے لیے جنت کا خصوصی دروازہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ :
”جو شخص کسی چیز کا ایک جوڑا اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا اسے جنت کی طرف ندا دی جائے گی، اے اللہ کے بندے یہ بہتر ہے، تو جو نمازی ہوا، اسے نماز کے دروازے سے آواز ہو گی، جو مجاھد ہوا اسے جہاد والے دروازے سے آواز پڑے گی، جو شخص صدقہ دیتا رہا اسے باب صدقہ سے پکارا جائے گا اور جو روزے رکھتا رہا اسے باب الریان سے بلاوا آئے گا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! کسی کو سب دروازوں سے آواز آئے، یہ کوئی ضرورت تو نہیں، لیکن کیا کوئی ایسے لوگ ہوں گے جنہیں ان سب دروازوں سے پکار ہو گی . . . . فرمایا . . . ہاں کیوں نہیں . . . مجھے امید ہے کہ تم ان ہی لوگوں میں سے ہو گے! “۔
اس حدیث کی شرح میں امام حسن بصری رحمتہ اللہ نے فرمایا کہ جو ”زوج“ یعنی جوڑا خرچ کرنے سے مراد ہر شئی کے دو عدد ہیں۔ یعنی دو عدد درہم، دو عدد دینار، دو عدد کپڑے . کچھ علماء کا خیال ہے کہ مطلقاً دو چیزیں مراد ہیں . یعنی ایک دینار اور ایک درہم، یا ایک درہم اور ایک کپڑا یا ایک موزا اور ایک لگام جانور کی وغیرہ۔
امام باجی رحمة الله کا خیال ہے کہ اس سے مراد عمل ہے یعنی دو نمازیں دو دن کے روزے وغیرہ۔
(کچھ روایات سے یہ مفہوم بھی ملتا ہے کہ ”زوجین“ سے مراد یہ ہے کہ اس قدر دے کے دونوں ہتھیلیاں بھر جائیں مثلاً گندم، جو وغیرہ)۔

حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جناب ابو طلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ کے انصاریوں میں خاصے کھاتے پیتے امیر شخص تھے۔ وہ انہیں اپنا ”بیرحا“ ( لفظ بیرحاء کئی طرح پڑھا گیا ہے بیرحا را کی فتح کے۔ ساتھ تمام عرابی حالات میں ایسے ہی پڑھا جاتا ہے۔ یا حالت رفع میں را کی ضمہ۔ حالت نصب میں فتحہ اور حالت جر میں راء کی کسرہ کے ساتھ ہی ہے منقول ہے۔ ) نامی باغ بہت ہی محبوب تھا جو مسجد کے سامنے ہی تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر وہاں تشریف لے جاتے اور وہاں کا عمدہ پانی نوش فرماتے۔ حضرت انس بیان کرتی ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئیں کہ :
لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ
” تم اس وقت تک نیکی کا بلند ترین درجہ نہیں پا سکتے جب تک کہ اپنا محبوب ترین مال نہ خرچ کر ڈالو۔“ [3-آل عمران:92]
تو حضرت ابو طلحہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہو گئے اور کہا کہ حضرت ! اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں ایسے ایسے ارشاد فرمایا ہے۔ تو میرا محبوب ترین مال باغ بیرحا ہے لہذا میں اسے اللہ کی رضا کے لیے صدقہ کرتا ہوں۔ میں اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ کرا کر کے اس کے اجر و ثواب کا امیدوار ہوں، اے اللہ کے رسول ! آپ جہاں مناسب جانیں اسے خرچ فرمائیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : خوب خوب ! یہ تو نفع والا مال ہے، یہ تو نفع والا ہے۔ (لفظ ”رابح“ کے اعتبار سے ہے۔ ایک ضبط اس لفظ کا ”رایح “کے ساتھ بھی ہے۔ تو اس صورت میں معنی ہوگا ”یہ مال تو دائمی اجر والا ہے یا فوری اجر کا باعث ہے۔“ ) تو نے جو کہا : میں نے سن لیا۔ میری رائے یہ ہے کہ تو اسے عزیز رشتے داروں میں تقسیم کر دے۔ ابو طلحہ نے اسے اپنے بعض قریبی اور چچازاد عزیزوں میں تقسیم کر دیا۔ [متفق عليه]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے