فرض نمازیں کس پر لازم اور کس سے ساقط ہیں
کیونکہ شریعت کے تمام احکامات صرف اسی پر نافذ ہوتے ہیں جو مکلّف ہو جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین آدمیوں کا گناہ نہیں لکھا جاتا“
عن النائم حتى يستيقظ وعن الصبى حتى يحتلم وعن المجنون حتى يعقل
”خوابیدہ شخص کا جب تک کہ وہ بیدار نہ ہو جائے ، بچے کا جب تک کہ وہ بالغ نہ ہو جائے اور پاگل کا جب تک کہ وہ سمجھدار نہ ہو جائے ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 3698 – 3699 ، كتاب الحدود: باب فى المجنون يسرق أو يصيب حدا ، أحمد: 100/6 ، أبو داود: 4398 ، نسائي: 3432 ، ابن ماجة: 2041 ، دارمي: 171/2]
یاد رہے کہ جب سونے والا بیدار ہو گا یا بھولنے والے کو یاد آئے گا تو ان پر متروکہ عبادت بجا لانا ضروری ہو گا جیسا کہ حدیث میں ہے۔
من نام عن صلاة أو نسيها فليصلها إذا ذكرها
”جب کوئی نماز کے وقت سویا رہ جائے یا اسے بھول جائے تو جب اسے یاد آئے نماز پڑھ لے ۔“
[بخاري: 597 ، أبو داود: 435]
اور جس حدیث میں بچوں کو بلوغت سے پہلے ہی نماز پڑھانے کا حکم دیا گیا ہے اس میں وجوب بچوں کے لیے نہیں ہے بلکہ والدین کے لیے ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کریں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کو حکم دیا کہ :
مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين واضربوهم عليها وهم أبناء عشر سنين
”اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوں اور جب دس سال کے ہو جائیں تو انہیں مار کر نماز پڑھاؤ ۔“
[حسن: صحيح أبو داود: 466 ، كتاب الصلاة: باب متى يؤمر الغلام بالصلاة ، أبو داود: 495 ، حاكم: 197/1]
جو شخص اشارے سے بھی نماز پڑھنے سے عاجز ہو۔ یا جس پر غشی طاری ہو جائے حتی کہ نماز کا وقت ختم ہو جائے تو اس سے نماز ساقط ہو جاتی ہے
مندرجہ ذیل دلائل اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں:
➊ فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ [التغابن: 16] ”حسب استطاعت اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔“
➋ لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا [البقرة: 286] ”اللہ تعالیٰ کسی نفس کو بھی اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف میں نہیں ڈالتے۔“
➌ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَالَا طَاقَةَ لَنَا [البقرة: 286] ”اے ہمارے رب! ہم پر اس قدر بوجھ نہ ڈال جس کی ہم میں طاقت نہیں۔ “
➍ حدیث نبوی ہے کہ : إذا أمـرتـكـم بـأمر فاتوا منه ما استطعتم ”جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو جتنی تم میں طاقت ہو اس پر عمل کر لو۔“
[مسلم: 1337 ، نسائي: 110/5 – 111]
➎ یہ بات اصول میں بھی ثابت ہے کہ لا يحوز التكليف بالمستحيل ”ناممکن کام کی تکلیف جائز نہیں ہے۔“
[إرشاد الفحول: 30/1 ، الإحكام للآمدى: 187/1 ، المستصفى للغزالى: 74/1 ، الوجيز: ص / 77]
ایسے انسان پر نماز کا وجوب اس لیے نہیں ہے کیونکہ ایسی حالت میں وہ شخص مکلّف ہی نہیں ہے کیونکہ مکلّف وہی شخص ہو سکتا ہے جو سمجھ بوجھ رکھتا ہو جیسا کہ گذشتہ صحیح حدیث میں یہ بات گزری ہے ۔ رفع القـلـم عـن ثلاثة…. عن المجنون حتى يعقل ”تین آدمیوں کا گناہ نہیں لکھا جاتا پاگل کا جب تک کہ وہ عقلمند نہ ہو جائے ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 3698 ، أبو داود: 4398]
اور اصول میں بھی یہ بات ثابت ہے کہ صحت تکلیف کے لیے فہم شرط ہے۔
[الإحكام للآمدي: 138/1 ، إرشاد الفحول: 35/1 ، المستصفي: 183/1]
اور وہ اس شخص سے مفقود ہے کیونکہ بے ہوش شخص کچھ بھی سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔
بیمار شخص کھڑا ہو کر نماز پڑھے (اگر اس کی طاقت نہ ہو تو) پھر بیٹھ کر (اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو ) پھر پہلو کے بل لیٹ کر نماز پڑھ لے
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے بواسیر کی بیماری تھی۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے (اس حالت میں ) نماز کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اصل قائما فإن لم تستطع فقاعدا فإن لم تستطع فعلي جنب
”کھڑے ہو کر نماز پڑھو ، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھ لو اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لو۔“
[بخاري: 1117 ، كتاب الجمعة: باب إذا لم يطق قاعدا صلى على جنب ، أبو داود: 952 ، ترمذي: 372 ، ابن ماجة: 1223 ، ابن خزيمة: 979]
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ :
فإن لم يستطع أن يصلى على جنبه الأيمن صلى مستلقيا رجلاه ممايلي القبلة
”اگر کوئی شخص اپنے دائیں پہلو پر لیٹ کر نماز پڑھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو چت لیٹ کر اپنے قدم قبلہ رخ کرتے ہوئے نماز پڑھ لے۔“
[ضعيف: دار قطني: 42/2 ، اس كي سند ميں حسن بن حسين العرني راوي هے كه جسے حافظ ابن حجرؒ نے متروك كها هے۔ تلخيص الحبير: 410/1 ، امام نوويؒ نے اس حديث كو ضعيف كها هے۔ نيل الأوطار: 467/2]
اگر مریض ان صورتوں میں سے کسی صورت میں بھی نماز پڑھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ جیسے بھی پڑھ سکتا ہے پڑھ لے کیونکہ انسان اسی کام کا مکلّف ہے جس کی اس میں طاقت ہے جیسا کہ ابھی پیچھے یہی ذکر گزرا ہے۔
(جمہور ) پہلو پر لیٹنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دائیں پہلو پر لیٹے۔
(ابو حنیفہؒ) اس کا معنی یہ ہے کہ کمر پر لیٹ کر اپنے پاؤں قبلہ رخ کرلے۔
[المجموع: 206/4 ، حلية العلماء: 221/2 ، رد المختار: 569/2 ، المبسوط: 213/1]
(راجح) جمہور کا موقف راجح ہے۔
[نيل الأوطار: 468/2]
◈ باب شروط الصلاة میں دوران نماز ممنوعہ افعال کا مزید بیان دیکھا جا سکتا ہے۔