شرک کا ایک چور دروازہ وطن پرستی بھی ہے
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی اور حافظ محمود الخضری کی کتاب شرک کے چور دروازے سے ماخوذ ہے۔

فتنہ وطنیت

شرک کا ایک چور دروازہ وطن پرستی بھی ہے۔ وطن پرستی دین کی موت ہے، جب کوئی قوم وطن پرستی کے فتنہ میں مبتلا ہو جاتی ہے اور یہ نظریہ اختیار کر لیتی ہے کہ ” قومین اوطان‘‘ سے بنا کرتی ہیں، اور آب و گل کی پرستش میں منہمک ہو جاتی ہے تو اس وقت سے ہی وہ شرک کی لعنت کا طوق گلے میں پہن کر اپنے خالق حقیقی کو ناراض کر لیتی ہے، جس کے سبب اس کی تنزلی شروع ہو جاتی ہے۔ بلکہ وہ اپنی عاقبت برباد کر بیٹھتی ہے۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر

قزمان بن حارث نے غزوہ اُحد میں شدید لڑائی کی، چھ سات مشرکین کو تنہا موت کے گھاٹ اتارا، مگر رسول اللہ ﷺ نے اسے جہنمی قرار دیا۔
أَمَا إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ.
’’یقیناً وہ جہنمی ہے۔“

کیوں؟ اس لئے کہ اس نے یہ لڑائی محض اپنی قوم اور وطن کی نام آوری کی خاطر لڑی تھی، اس نے صحابہ کے سامنے خود اپنی زبان سے اقرار کیا تھا۔
وَاللَّهِ مَا قَاتَلْنَا إِلَّا عَلَى الْإِحْسَابِ.
’’اللہ کی قسم ! ہم نے خاندانی شرافت اور حسب کی خاطر لڑائی لڑی۔“
(الاصابة لإبن حجر ٣٣٥/٥ ، ترجمة رقم: ۷۱۲۳)

خاندانی شرافت، عظمت اور افتخار کی خاطر لڑنے والا تو جہنمی ہوا، اور جو محض اپنے وطن کے غلبہ اور تسلط کی خاطر لڑے، وہ؟

یقیناً وطن کی حفاظت و پاسبانی کی خاطر قتال لازمی ہے، مگر اس سے ”اعلاء کلمتہ اللہ“ اور صرف ”رضائے الہی‘‘ مقصود ہو۔ وطن کی سرحدوں کی حفاظت لازمی امر ہے! مگر بائیں فکر و نظر کہ دشمنانِ اسلام کی مدافعت اور مسلمانوں کے دین و ایمان کی حفاظت ہوگی۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان عالی شان ہے :
مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّوَجَل.
’’جو شخص اللہ کے کلمے کو سر بلند کرنے کے لئے لڑے، وہ اللہ عزوجل کی راہ میں (لڑتا) ہے۔“
صحیح بخاری، کتاب العلم، رقم: ۱۲۳

اشکال
وطن پرست اپنے نظریہ کو ثابت کرنے کے لیے ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
حُبُّ الْوَطنِ مِنَ الْإِيمَانِ.
’’وطن سے محبت کرنا ایمان سے ہے۔“

ازاله
لیکن یہ روایت موضوع ہے، علامہ البانی ’’سلسلة الاحاديث الضعيفه ١١٠/١ رقم: ٣٦“ میں فرماتے ہیں کہ یہ روایت موضوع ہے۔ جیسا کہ صغانی (ص ۷) و غیر نے کہا ہے۔ اور اس کا معنی بھی درست نہیں ہے۔ کیونکہ وطن انسان کو جان و مال کی طرح عزیز ہوتا ہے۔ اور جان و مال سے محبت کرنے پر انسان مدوح نہیں ٹھہرتا، اور نہ ہی یہ لوازم ایمان سے ہے، کیا آپ نہیں دیکھتے کہ آج مسلمان ہوں، یا کافر، عموماً ہر کوئی اپنے وطن سے محبت کرتا ہے۔ انتھی

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!