إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
نیت کے مسائل
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ
(98-البينة:5)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور انہیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اس حال میں کہ اس کے لیے دین کو خالص کرنے والے۔“
حدیث 1
عن عبادة بن الصامت رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من غزا فى سبيل الله ولم ينو الا عقالا فله ما نوى
صحیح سنن نسائی، للالبانی رقم: 2941
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جس نے اللہ کی راہ میں جنگ کی لیکن اس کی نیت اونٹ کو باندھنے کی ایک رسی حاصل کرنے کی تھی، اسے وہی چیز ملے گی جو اس کی نیت تھی۔“ (یعنی وہ اجر و ثواب سے محروم رہے گا)
حدیث 2
عن ابي امامة الباهلي رضى الله عنه قال جاء رجل الي النبى صلى الله عليه وسلم فقال ارايت رجل غزا يلتمس الاجر والذكر ماله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا شيء له، فاعادها ثلاث مرات، يقول له رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا شيء له ثم قال: ان الله لا يقبل من العمل الا ما كان له خالصا وابتغي به وجهه
صحیح سنن نسائی، للالبانی، رقم: 2943
اور سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ”ایک آدمی ثواب اور ناموری حاصل کرنے کے لیے جہاد کرتا ہے، اس کے لیے کیا ہے؟“ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے کوئی ثواب نہیں۔“ آپ نے یہ الفاظ تین مرتبہ فرمایا۔ ہر بار آپ صلى الله عليه وسلم نے اسے یہی فرمایا: ”اس آدمی کے لیے کوئی اجر و ثواب نہیں۔“ پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کوئی عمل قبول نہیں فرماتا جب تک وہ خالص اس کے لیے نہ کیا گیا ہو اور اس سے مقصود محض اس کی رضا طلبی نہ ہو۔“
جہاد سے پہلے عقیدہ اور ایمان صحیح کریں
حدیث 3
عن البراء رضى الله عنه يقول: اتى النبى صلى الله عليه وسلم رجل مقنع بالحديد، فقال يا رسول الله اقاتل او اسلم، قال: اسلم ثم قاتل، فاسلم ثم قاتل فقتل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عمل قليلا واجر كثيرا
صحيح البخاری کتاب الجهاد، رقم: 2808
اور سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک زرہ پوش آدمی نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں پہلے کافروں سے جنگ کروں یا پہلے اسلام قبول کروں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: پہلے اسلام قبول کرو، پھر جنگ کرو۔ وہ شخص مسلمان ہو گیا، پھر اس نے جنگ کی اور مارا گیا۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اس نے عمل تھوڑا کیا اور اجر زیادہ پایا۔“
جہاد میں بدعقیدہ سے مدد لینے سے انکار
حدیث 4
عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم انها قالت: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل بدر، فلما كان بحرة الوبرة ادركه رجل قد كان يذكر منه جراة ونجدة، ففرح اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم حين راوه، فلما ادركه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: جئت لاتبعك واصيب معك، قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: تومن بالله ورسوله؟ قال: لا، قال: فارجع فلن استعين بمشرك، قالت: ثم مضى حتي اذا كنا بالشجرة ادركه الرجل فقال له كما قال اول مرة، فقال له النبى صلى الله عليه وسلم: كما قال اول مرة، قال: فارجع فلن استعين بمشرك، قال: ثم رجع فادركه بالبيداء، فقال له كما قال اول مرة تومن بالله ورسوله؟ قال: نعم، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: فانطلق
صحيح مسلم، کتاب الجهاد والسیر، رقم: 4700
اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم بدر کی طرف نکلے جب حرة الوبرہ (مدینہ سے چار میل کے فاصلہ پر ایک جگہ کا نام) پہنچے تو ایک شخص آپ صلى الله عليه وسلم سے ملا جس کی بہادری اور جرأت کا بڑا شہرہ تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ جب وہ شخص آپ سے ملا تو اس نے عرض کیا: میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ کے ساتھ جاؤں اور جو کچھ ملے اس میں سے حصہ پاؤں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کیا تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”لوٹ جا میں مشرک کی مدد نہیں چاہتا۔“ اور آپ صلى الله عليه وسلم آگے روانہ ہو گئے۔ جب مقام شجرہ پر پہنچے تو وہ شخص پھر حاضر ہوا اور وہی کہا جو پہلے کہا تھا۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے وہی فرمایا: ”لوٹ جا میں مشرک کی مدد نہیں چاہتا۔“ وہ شخص پھر لوٹ گیا۔ اس کے بعد وہ پھر مقام بیداء میں آپ صلى الله عليه وسلم سے ملا، آپ صلى الله عليه وسلم نے وہی فرمایا: کیا تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے؟ اس بار اس نے کہا میں ایمان رکھتا ہوں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”تو پھر چل۔“
جہاد فرض کفایہ ہے
حدیث 5
عن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من امن بالله وبرسوله، واقام الصلوة، وصام رمضان كان حقا على الله ان يدخله الجنة، جاهد فى سبيل الله او جلس فى ارضه التى ولد فيها، فقالوا: يا رسول الله افلا نبشر الناس قال: ان فى الجنة مائة درجة، اعدها الله للمجاهدين فى سبيل الله ما بين الدرجتين كما بين السماء والارض، فاذا سالتم الله فاسالوه الفردوس، فانه اوسط الجنة واعلى الجنة
صحيح البخاری، کتاب الجهاد والسیر، رقم: 2790
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کہتے ہیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا، نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے، اس کا اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ (یعنی اللہ تعالیٰ) اسے جنت میں داخل فرمائے، خواہ وہ جہاد کرے یا اسی سرزمین پر بیٹھا رہے جہاں پیدا ہوا۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم لوگوں کو یہ خوشخبری نہ دیں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جنت میں سو درجے ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کیا ہے۔ ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان ہے۔ جب تم لوگ اللہ تعالیٰ سے (جنت) مانگو تو فردوس مانگا کرو، فردوس جنت کا سب سے اونچا اور درمیانی حصہ ہے۔“
حدیث 6
عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بني الاسلام على خمس: شهادة ان لا اله الا الله وان محمدا رسول الله، واقام الصلوة، وايتاء الزكوة، والحج، وصوم رمضان
صحيح البخاری کتاب الایمان، رقم: 8
اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: (1) اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں (2) نماز قائم کرنا (3) زکوٰۃ ادا کرنا (4) حج ادا کرنا اور (5) رمضان کے روزے رکھنا۔“
جہاد کے لیے والدین کی اجازت ضروری ہے
حدیث 7
عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما يقول: جاء رجل الي النبى صلى الله عليه وسلم فاستاذنه فى الجهاد، فقال: احي والداك؟ قال: نعم قال: ففيهما فجاهد
صحيح البخاری، کتاب الجهاد والسیر، رقم: 3004
اور سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جہاد کی اجازت طلب کی۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے اس سے دریافت فرمایا: کیا تیرے والدین زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا ”ہاں یا رسول اللہ!“ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جا اور (ان کی خدمت کا) جہاد کر۔“
حدیث 8
عن جاهمة رضى الله عنه انه جاء الي النبى صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله اردت ان اغزو وقد جئت استشيرك فقال: هل لك من ام؟ قال: نعم، قال: فالزمها فان الجنة تحت رجليها
صحیح سنن نسائی، للالبانی، رقم: 2908
اور سیدنا جاہمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے جہاد کا ارادہ کیا ہے اور آپ سے مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کیا تیری والدہ زندہ ہے؟ اس نے عرض کیا: ہاں! آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”پھر اس کی خدمت کر، جنت اس کے قدموں کے نیچے ہے۔“
حدیث 9
عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال: اتى رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله اني جئت اريد الجهاد معك ابتغي وجه الله والدار الاخرة، ولقد اتيت وان والدي ليبكيان، قال: فارجع اليهما فاضحكهما كما ابكيتهما
صحيح سنن ابن ماجه، للالبانی، رقم: 2242
اور سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں آپ کے ساتھ جہاد کرنے کی نیت سے حاضر ہوا ہوں۔ اللہ کی رضا جوئی کے لیے اور آخرت میں گھر بنانے کے لیے اور ہاں میرے آنے پر میرے والدین رو رہے تھے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اپنے والدین کے پاس جا اور جس طرح انہیں رلایا ہے اسی طرح انہیں ہنسا۔“
بیماری اور مجبوری میں جہاد نہیں
حدیث 10
عن انس رضى الله عنه ان النبى صلى الله عليه وسلم كان فى غزاة فقال: ان اقواما بالمدينة خلفنا ما سلكنا شعبا ولا واديا الا وهم معنا فيه حبسهم العذر
صحيح البخاری کتاب الجهاد، رقم: 2839
اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم ایک غزوہ (تبوک) میں تھے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”کچھ لوگ مدینہ میں ہمارے پیچھے رہ گئے ہیں تاہم ہم کسی گھاٹی اور وادی سے نہیں گزرے مگر وہ ہمارے ساتھ تھے کیونکہ انہیں کسی نہ کسی عذر نے ہمارے ساتھ آنے سے روک لیا تھا۔“
حدیث 11
عن ابن عباس رضي الله عنهما انه سمع النبى صلى الله عليه وسلم يقول: لا يخلون رجل بامراة ولا تسافرن امراة الا ومعها محرم، فقام رجل، فقال: يا رسول الله اكتبت فى غزوة كذا وكذا، وخرجت امراتي حاجة، قال: اذهب فحج مع امراتك
صحيح البخاری، کتاب الجهاد والسیر، رقم: 3006
اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی مرد کسی غیر عورت سے خلوت نہ کرے اور نہ ہی کوئی عورت محرم کے بغیر سفر کرے۔ ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا نام فلاں فلاں جہاد میں لکھا گیا ہے اور میری بیوی (اکیلی) حج کو جا رہی ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”(جہاد پر نہ جا اور) اپنی بیوی کے ساتھ حج کر۔“
صرف حکمران مسلمانوں سے جہاد کے لیے بیعت کرے
حدیث 12
عن جابر رضى الله عنه قال: كنا يوم الحديبية الفا واربع مائة فبايعناه وعمر اخذ بيده تحت الشجرة وهى سمرة وقال: بايعناه على ان لا نفر ولم نبايعه على الموت
صحيح مسلم، کتاب الامارة، رقم: 4807
اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حدیبیہ کے روز ہم لوگ چودہ سو کی تعداد میں تھے اور ہم نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی بیعت کی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سمرہ (کیکر) کے نیچے آپ صلى الله عليه وسلم کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ ہم نے اس شرط پر آپ صلى الله عليه وسلم کی بیعت کی کہ میدان جنگ سے فرار نہیں ہوں گے اور یہ بیعت نہیں کی کہ ہم ضرور جان دیں گے۔
جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت
حدیث 13
عن ابي هريرة رضى الله عنه قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم اي الاعمال افضل؟ واي الاعمال خير؟ قال: ايمان بالله ورسوله، قيل: ثم اي شيء؟ قال: الجهاد سنام العمل قيل: ثم اي شيء؟ يا رسول الله قال: ثم حج مبرور
صحیح سنن ترمذی، للالبانی، رقم: 1255
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کہتے ہیں، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے پوچھا گیا: کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں؟ یا پوچھا گیا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پھر پوچھا گیا: اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے۔ پھر پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”حج مبرور۔“
حدیث 14
عن عبادة بن الصامت رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: جاهدوا فى سبيل الله، فان الجهاد فى سبيل الله تبارك وتعالى باب من ابواب الجنة ينجي الله تبارك وتعالى به من الهم والغم
مسند احمد، بدیع التفاسیر، رقم: 83
اور سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جہاد کرو، بے شک جہاد فی سبیل اللہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اور اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ رنج و غم سے نجات دلاتا ہے۔“
حدیث 15
عن فضالة بن عبيد رضى الله عنه يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: انا زعيم والزعيم الحميل لمن امن بي واسلم وهاجر ببيت فى ربض الجنة، وببيت فى وسط الجنة، وانا زعيم لمن امن بي واسلم وجاهد فى سبيل الله ببيت فى ربض الجنة، وببيت فى وسط الجنة، وببيت فى اعلى غرف الجنة من فعل ذلك فلم يدع للخير مطلبا ولا من الشر مهربا يموت حيث شاء ان يموت
صحیح سنن نسائی، للالبانی، رقم: 2936
اور سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”میں ضامن ہوں جنت سے باہر اور جنت کے وسط میں ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو مجھ پر ایمان لایا اور ہجرت کی اور میں ضامن ہوں جنت سے باہر ایک گھر، جنت کے وسط میں ایک گھر اور جنت کے بالا خانوں میں ایک گھر کا، اس شخص کے لیے جو مجھ پر ایمان لایا، ہجرت کی اور جہاد کیا، جس نے یہ تینوں کام کیے، اس نے گویا نیکی کی کوئی بات نہ چھوڑی اور برائی سے مکمل طور پر بچا، ایسا شخص جہاں بھی مرنا چاہے، مرے (اس کے اجر و ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی)۔“
حدیث 16
عن ابي هريرة رضى الله عنه قال: جاء رجل الي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: دلني على عمل يعدل الجهاد، قال: لا اجده، قال: هل تستطيع اذا خرج المجاهد ان تدخل مسجدك فتقوم ولا تفتر وتصوم ولا تفطر؟ قال: ومن يستطيع ذلك؟
صحيح البخاری، کتاب الجهاد والسیر، رقم: 2785
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جس کا ثواب جہاد کے برابر ہو؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”ایسا تو کوئی عمل نہیں۔“ پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے اس آدمی سے سوال کیا: کیا تو ایسا کر سکتا ہے کہ جب کوئی مجاہد (جہاد کے لیے) اپنے گھر سے نکلے تو اپنی مسجد میں داخل ہو جائے اور مسلسل نماز پڑھتا رہے اور بالکل وقفہ نہ کرے اور ساتھ مسلسل روزے بھی رکھے اور کبھی ترک نہ کرے؟ اس آدمی نے عرض کیا: ”ایسا کون کر سکتا ہے؟“
حدیث 17
عن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم: من احتبس فرسا فى سبيل الله ايمانا بالله وتصديقا بوعده فان شبعه وريه وروثه وبوله فى ميزانه يوم القيامة
صحيح البخاری کتاب الجهاد، رقم: 2853
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ پر ایمان کے ساتھ اور اس کے وعدوں کو سچا جانتے ہوئے جہاد فی سبیل اللہ کے لیے گھوڑا رکھے تو اس گھوڑے کا کھانا، پینا اور لید و پیشاب قیامت کے دن مجاہد کے ترازو میں رکھے جائیں گے۔“
حدیث 18
عن عبد الرحمن بن جبر رضى الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ما والله اغبرت قدما عبد فى سبيل الله فتمسه النار
صحيح البخاری، کتاب الجهاد، رقم: 2811
اور سیدنا عبدالرحمن بن جبر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی راہ میں غبار آلود ہونے والے پاؤں کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔“
حدیث 19
عن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يلج النار رجل بكى من خشية الله حتى يعود اللبن فى الضرع ولا يجتمع غبار فى سبيل الله ودخان جهنم
صحیح سنن ترمذی، للالبانی، رقم: 1333
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کہتے ہیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کے ڈر سے رویا وہ کبھی آگ میں داخل نہ ہوگا، الا یہ کہ دودھ تھن میں واپس چلا جائے (جو کہ ناممکن ہے) اور اللہ کی راہ میں پڑنے والا غبار اور جہنم کا دھواں کبھی اکٹھے نہیں ہوں گے۔“
حدیث 20
عن ابي هريرة رضى الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: موقف ساعة فى سبيل الله خير من قيام ليلة القدر عند الحجر الاسود
الاربعون فی الحث على الجهاد لابن عساکر، رقم: 18
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کہتے ہیں میں نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ کی راہ میں گھڑی بھر ٹھہرنا حجر اسود کے سامنے لیلۃ القدر کے قیام سے بہتر ہے۔“
جان اور مال کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا
حدیث 21
عن ابي سعيد الخدري رضى الله عنه ان رجلا اتى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: اي الناس افضل؟ فقال: رجل يجاهد فى سبيل الله بماله ونفسه، قال: ثم من؟ قال: مؤمن فى شعب من الشعاب يعبد الله ربه ويدع الناس من شره
صحیح مسلم، کتاب الامارة، رقم: 4886
اور سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! لوگوں میں سے سب سے افضل کون ہے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”وہ مومن جو اپنی جان اور مال کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرے۔“ اس آدمی نے پھر پوچھا: اے اللہ کے رسول! پھر کون؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”پھر وہ شخص جو کسی پہاڑ کی گھاٹی میں الگ ہو کر اپنے رب کی عبادت کرے اور لوگوں کو اپنے شر سے بچائے۔“
مجاہد کو عابد کے برابر ثواب ملتا ہے
حدیث 22
عن ابي هريرة رضى الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: مثل المجاهد فى سبيل الله والله اعلم بمن يجاهد فى سبيله كمثل الصائم القائم الخاشع الراكع الساجد
صحیح سنن نسائی، للالبانی، رقم: 2930
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”مجاہد فی سبیل اللہ کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی (مسلسل) روزے رکھے، (مسلسل) قیام کرے، (ہر وقت) اللہ سے ڈرے، (مسلسل) حالت رکوع میں رہے، (مسلسل) سجدے میں پڑا رہے۔“
مجاہد اللہ کا مہمان ہوتا ہے
حدیث 23
عن ابن عمر رضي الله عنهما عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: الغازي فى سبيل الله والحاج والمعتمر وفد الله دعاهم فاجابوه وسألوه فاعطاهم
صحیح سنن ابن ماجه للالبانی، رقم: 2339
اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا، حاجی اور عمرہ کرنے والا، تینوں اللہ کے مہمان ہیں، اللہ نے بلایا تو وہ آگئے، لہٰذا جب وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو اللہ انہیں عطا فرمائے گا۔“
سمندر میں ڈوبنے والا بھی شہید ہے
حدیث 24
وعن ام حرام رضي الله عنها عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: المائد فى البحر الذى يصيبه القى له اجر شهيد، والغرق له اجر شهيد
صحیح سنن ابی داؤد للالبانی، رقم: 2177
اور سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جو شخص (جہاد یا حج کے لیے) سمندر پر سوار ہوا اور اسے قے آئے تو اس کے لیے ایک شہید کا ثواب ہے اور اگر وہ سمندر میں ڈوب جائے تو اس کے لیے دو شہیدوں کا ثواب ہے۔“
اللہ کی راہ میں نکلنے والے کی مدد کرنے کا ثواب
حدیث 25
عن زيد بن خالد الجهني رضى الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قال: من جهز غازيا فى سبيل الله فقد غزا، ومن خلفه فى اهله بخير فقد غزا
صحیح مسلم، کتاب الامارة، رقم: 4903
اور سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جس نے اللہ کی راہ میں نکلنے والے مجاہد کا سامان تیار کیا اس نے بھی جہاد کیا اور جس نے مجاہد کے جانے کے بعد اس کے گھر بار کی خبرگیری کی اس نے بھی جہاد کیا۔“
اللہ کی راہ میں نکلنے والے کی راہنمائی کرنے کا ثواب
حدیث 26
عن ابي مسعود الانصاري رضى الله عنه قال: جاء رجل الى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: اني ابدع بي فاحملني فقال: ما عندي، فقال رجل: يا رسول الله انا ادله على من يحمله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من دل على خير فله مثل اجر فاعله
صحیح مسلم، کتاب الامارة، رقم: 4899
اور سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک آدمی نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میری سواری گم ہو گئی، مجھے (اللہ کی راہ میں جانے کے لیے) سواری دیجیے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس تو کوئی سواری نہیں ہے۔“ ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں اسے ایسے شخص کا پتہ بتا دیتا ہوں جو اسے سواری مہیا کر دے گا۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جو شخص نیکی کے کام میں کسی کی راہنمائی کرے گا اسے اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا نیکی کرنے والے کو۔“
شہید ہونے والے جنت کا بلند ترین درجہ پائیں گے
حدیث 27
عن انس بن مالك رضى الله عنه ان ام الربيع بنت البراء وهى ام حارثة بن سراقة اتت النبى صلى الله عليه وسلم فقالت: يا نبي الله! الا تحدثني عن حارثة، وكان قتل يوم بدر اصابه سهم غرب فان كان فى الجنة صبرت، وان كان غير ذلك اجتهدت عليه فى البكاء، قال: يا ام حارثة انها جنان فى الجنة، وان ابنك اصاب الفردوس الاعلى
صحيح البخاری، کتاب الجهاد، رقم: 2809
اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام ربیع بنت البراء جو کہ حارثہ بن سراقہ کی والدہ تھیں، نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! مجھے حارثہ کے بارے میں بتائیے وہ کہاں ہے؟ حارثہ بدر کے دن اچانک تیر لگنے سے مارے گئے تھے، اگر وہ جنت میں ہے تو مجھے صبر آجائے گا اور اگر وہ جنت میں نہیں تو میں دل کھول کر روؤں گی۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اے ام حارثہ! جنت میں درجہ بدرجہ کئی باغ ہیں اور تیرا بیٹا سب سے اعلیٰ باغ فردوس میں ہے۔“
شہداء کی روحیں عرش الٰہی سے لٹک رہی ہیں
حدیث 28
عن مسروق رضى الله عنه قال: سالنا عبد الله عن هذه الاية ﴿ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ﴾ (3-آل عمران:169)
قال: اما انا قد سالنا عن ذلك فقال: ارواحهم فى جوف طير خضر لها قناديل معلقة بالعرش تسرح من الجنة حيث شاءت ثم تاءوى الى تلك القناديل فاطلع اليهم ربهم اطلعة فقال: هل تشتهون شيئا؟ قالوا: اي شيء نشتهي ونحن نسرح من الجنة حيث شئنا ففعل ذلك بهم ثلاث مرات فلما راوا انهم لن يتركوا من ان يسالوا قالوا: يا رب نريد ان ترد ارواحنا فى اجسادنا حتى نقتل فى سبيلك مرة اخرى فلما راى ان ليس لهم حاجة تركوا
صحیح مسلم، کتاب الامارة، رقم: 4885
اور سیدنا مسروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا:﴿ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ﴾ [آل عمران: 169] تو انہوں نے کہا: ہم نے اس کا مطلب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے پوچھا، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کی شکل میں ایسی قندیلوں میں رہتی ہیں جو عرش الٰہی سے لٹکی ہوئی ہیں، جب چاہتی ہیں جنت میں سیر کے لیے چلی جاتی ہیں، پھر ان قندیلوں میں واپس آجاتی ہیں۔ ایک بار ان کے رب نے ان کی طرف توجہ فرمائی اور پوچھا: تمہاری کوئی خواہش ہے؟ شہداء کی ارواح نے جواب دیا: ہم جہاں چاہیں جنت کی سیر کرتی ہیں اور ہمیں کیا چاہیے؟ اللہ تعالیٰ نے تین مرتبہ ان سے یہی سوال کیا، پھر جب شہداء کی ارواح نے دیکھا کہ جواب دیے بغیر چھٹکارا نہیں، تب انہوں نے جواب دیا: اے ہمارے رب! ہم چاہتے ہیں کہ ہماری ارواح کو ہمارے اجسام میں لوٹا دے یہاں تک کہ ہم تیری راہ میں دوبارہ قتل کی جائیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ ان کی کوئی اور خواہش نہیں تو انہیں چھوڑ دیا۔“
شہید قیامت کے روز ستر افراد کی سفارش کر سکے گا
حدیث 29
عن المقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: للشہید عند الله ست خصال: یغفر له فی اول دفعة من دمه، ویرى مقعده من الجنة، ویجار من عذاب القبر، ویأمن من الفزع الاکبر، ویحلى حلة الایمان، ویزوج من الحور العین، ویشفع فی سبعین انسانا من اقاربه
صحيح سنن ابن ماجه للالبانی، رقم: 2257
اور سیدنا مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے نزدیک شہید کو چھ فضیلتیں حاصل ہیں: (1) اس کا خون گرتے ہی اللہ اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے، (2) جنت میں اسے اس کا مقام دکھا دیا جاتا ہے، (3) عذاب قبر سے بچایا جاتا ہے، (4) قیامت کے روز بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رہتا ہے، (5) ایمان کا لباس پہنایا جاتا ہے اور موٹی آنکھوں والی حوروں سے اس کا نکاح کیا جاتا ہے، (6) اسے اپنے قریبی رشتہ داروں میں سے ستر آدمیوں کی سفارش کا حق دیا جاتا ہے۔“
شہید کا شہادت کے بعد اپنے انعام سے آگاہ ہونے کی خواہش
حدیث 30
عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما يقول: لما قتل عبد الله بن عمرو بن حرام يوم احد، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا جابر الا اخبرك ما قال الله عز وجل لابيك قلت: بلى قال: ما كلم الله احدا الا من وراء حجاب وكلم اباك كفاحا فقال: يا عبدي تمن على اعطك قال: يا رب تحييني فاقتل فيك ثانية قال: انه سبق مني انهم اليها لا يرجعون قال: يا رب فابلغ من ورائي فانزل الله عز وجل هذه الاية ولا تحسبن الذين قتلوا فى سبيل الله امواتا الاية كلها
صحيح سنن ابن ماجه للالبانی، رقم: 2258
اور سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: احد کے دن جب عبداللہ بن عمرو بن حرام شہید ہوئے تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اے جابر! کیا میں تجھے وہ بات نہ بتاؤں جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ سے کی؟“ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے کسی شخص سے بغیر حجاب کے بات نہیں فرمائی، لیکن تیرے باپ سے بغیر حجاب کے (یعنی براہ راست) گفتگو فرمائی اور کہا: اے میرے بندے! جو چاہے مانگ میں تمہیں دوں گا۔ تمہارے باپ نے عرض کیا: اے میرے رب! مجھے دوبارہ زندہ کر دے تاکہ میں دوبارہ تیری راہ میں مارا جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ بات تو ہماری طرف سے پہلے ہی طے ہو چکی ہے کہ مرنے کے بعد دنیا میں واپسی نہیں ہوگی۔ تمہارے باپ نے عرض کیا: اے میرے رب! اچھا تو میری طرف سے (اہل دنیا کو) میرا یہ پیغام پہنچا دے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہو جائیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں رزق دیئے جاتے ہیں۔
جنت میں سب سے زیادہ خوبصورت گھر شہداء کے ہیں
حدیث 31
عن سمرة رضى الله عنه قال النبى صلى الله عليه وسلم: رايت الليلة رجلين اتياني فصعدا بي الشجرة فادخلاني دارا هي احسن وافضل لم ار قط احسن منها قالا: اما هذه الدار فدار الشهداء
صحيح البخاری، کتاب الجهاد، رقم: 2791
اور سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”میں نے آج رات (خواب میں) دیکھا کہ دو شخص آئے اور مجھے ایک درخت پر چڑھا کر لے گئے، پھر ایک خوبصورت اور بہترین گھر میں لے گئے جس سے زیادہ خوبصورت گھر میں نے نہیں دیکھا، ان دونوں آدمیوں نے مجھے بتایا کہ یہ گھر شہیدوں کا ہے۔“
شہید پر فرشتے اپنے پروں کا سایہ کرتے ہیں
حدیث 32
عن محمد بن المنكدر رضى الله عنه قال: سمعت جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال: لما قتل ابي جعلت اكشف الثوب عن وجهه ابكي وينهوني عنه والنبي صلى الله عليه وسلم لا ينهاني فجعلت عمتي فاطمة تبكي فقال النبى صلى الله عليه وسلم تبكين او لا تبكين ما زالت الملائكة تظله باجنحتها
صحيح البخاری، کتاب الجهاد، رقم: 2816
اور سیدنا محمد بن منکدر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ (احد کے روز) میرے والد کی میت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے سامنے لائی گئی۔ کافروں نے ان کے جسم کا مثلہ کر دیا تھا (یعنی ناک کان کاٹ ڈالے تھے)، جب جنازہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے سامنے رکھا گیا تو میں اپنے والد کے چہرے سے بار بار پردہ ہٹاتا، تو لوگوں نے مجھے منع کیا۔ اتنے میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے میری عمہ فاطمہ کے رونے کی آواز سنی اور فرمایا: ”تو روتی ہو یا نہ رو، عبداللہ پر تو فرشتے اپنے پروں سے سایہ کیے ہوئے ہیں۔“
شہید کو شہادت کے وقت چیونٹی کے کاٹنے کے برابر تکلیف ہوتی ہے
حدیث 33
عن ابي هريرة رضى الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: الشهيد لا يجد مس القتل الا كما يجد احدكم القرصة يقرصها
صحیح سنن نسائی، للالبانی، رقم: 2963
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”شہید کو شہادت کے وقت اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی تم میں سے کسی کو چیونٹی کے کاٹنے کے وقت ہوتی ہے۔“
دو قطرے اللہ کو بہت محبوب ہیں
حدیث 34
عن ابي امامة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ليس شيء احب الى الله من قطرتين واثرين: قطرة من دموع فى خشية الله وقطرة دم تهراق فى سبيل الله واما الاثران فاثر فى سبيل الله واثر فى فريضة من فرائض الله
صحیح سنن ترمذی، للالبانی، رقم: 1363
اور سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کو دو قطروں سے زیادہ محبوب کوئی قطرہ نہیں اور دو نشانوں سے زیادہ محبوب کوئی نشان نہیں۔ دو قطروں میں سے (1) پہلا قطرہ وہ ہے جو اللہ کے ڈر سے آنکھ سے نکلے اور (2) دوسرا قطرہ خون کا وہ قطرہ ہے جو اللہ کی راہ میں بہایا جائے۔ دو نشانوں میں سے (1) پہلا نشان وہ جو اللہ کی راہ میں پڑے (مثلاً دشمن کی مار سے یا گرنے سے چوٹ آجائے یا تیر، تلوار یا گولی وغیرہ سے زخم آئے) (2) دوسرا وہ نشان جو فرائض ادا کرنے میں پڑے (مثلاً سردی میں وضو کرنے سے پاؤں پھٹ جائیں یا سجدہ کرنے سے ماتھے پر نشان پڑ جائے وغیرہ)۔“
شہید بار بار دنیا میں آکر شہید ہونے کی تمنا کرے گا
حدیث 35
عن انس بن مالك رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ما احد يدخل الجنة يحب ان يرجع الى الدنيا وله ما على الارض من شيء الا الشهيد يتمنى ان يرجع الى الدنيا فيقتل عشر مرات لما يرى من الكرامة
صحيح البخاری، کتاب الجهاد، رقم: 2817
اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جو شخص جنت میں جاتا ہے وہ دنیا میں واپس آنا کبھی پسند نہیں کرتا، خواہ اسے روئے زمین کی ساری دولت دے دی جائے، البتہ شہید دنیا میں واپس آنا چاہتا ہے اور شہادت کے عوض اسے جو عزت حاصل ہوتی ہے اس کی بنا پر چاہتا ہے کہ دس بار اللہ کی راہ میں شہید ہو۔“
شہادت کی موت طلب کرنے کی فضیلت
حدیث 36
عن سهل بن حنيف رضى الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من سأل الله عز وجل الشهادة بصدق بلغه الله منازل الشهداء وان مات على فراشه
صحیح سنن نسائی، للالبانی، رقم: 2967
اور سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ عز و جل سے سچے دل سے شہادت طلب کرے اللہ تعالیٰ اسے شہادت کے درجات عطا فرمائے گا، خواہ وہ اپنے بستر پر (طبعی موت) مرے۔“
رسول کریم صلى الله عليه وسلم شہید ہونے کی تمنا فرماتے
حدیث 37
عن ابي هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: انتدب الله عز وجل لمن خرج فى سبيله لا يخرجه الا ايمان بي وتصديق برسلي ان ارجعه بما نال من اجر او غنيمة او ادخله الجنة ولولا ان اشق على امتي ما فعدت خلف سرية ولوددت اني اقتل فى سبيل الله ثم احيا ثم اقتل ثم احيا ثم اقتل
صحيح البخاری، کتاب الجهاد، رقم: 2797
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کو فرماتے سنا: ”اللہ عز و جل نے اس شخص کے لیے جو اس کی راہ میں نکلا اور اسے صرف مجھ پر ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق نے نکالا، یہ ضمانت دی کہ میں اسے یا تو اس کے اجر یا غنیمت کے ساتھ واپس کروں گا یا اسے جنت میں داخل کروں گا۔ اگر میری امت پر مشکل نہ ہوتی تو میں کسی بھی فوجی مہم سے پیچھے نہ رہتا، اور میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں۔“
اللہ کی راہ میں پہرہ دینے کی فضیلت
حدیث 38
عن سهل بن سعد رضى الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: رباط يوم فى سبيل الله خير من الدنيا وما فيها وموضع سوط احدكم فى الجنة خير من الدنيا وما فيها ولروحة يروحها العبد فى سبيل الله او لعدوة خير من الدنيا وما فيها
صحيح سنن ترمذی، للالبانی، رقم: 1360
اور سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک دن کا پہرہ دینا دنیا اور اس میں جو کچھ ہے اس سب سے بہتر ہے، تم میں سے کسی کی جنت میں لاٹھی رکھنے والی جگہ دنیا اور اس میں جو کچھ ہے اس سب سے بہتر ہے، اور اللہ کی راہ میں کسی بندے کا صبح و شام کے وقت چلنا دنیا اور اس میں جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے۔“
جہاد کی اہمیت
حدیث 39
عن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من مات ولم يغز ولم يحدث به نفسه مات على شعبة من نفاق
صحیح مسلم، کتاب الامارة، رقم: 4931
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اس حالت میں مرا کہ اس نے کسی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ ہی کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی، وہ نفاق کے ایک حصے پر مرا۔“
حدیث 40
عن ثوبان رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يوشك الامم ان تداعى عليكم كما تداعى الاكلة الى قصعتها فقال قائل: ومن قلة نحن يومئذ؟ قال: بل انتم يومئذ كثير ولكنكم غثاء كغثاء السيل ولينزعن الله من صدور عدوكم المهابة منكم وليقذفن الله فى قلوبكم الوهن فقال قائل: يا رسول الله وما الوهن؟ قال: حب الدنيا وكراهية الموت
صحيح سنن ابی داؤد، للالبانی، رقم: 3610
اور سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”عنقریب غیر مسلم قومیں ایک دوسرے کو تمہارے خلاف (چڑھائی کے لیے) اس طرح بلائیں گی جس طرح کھانا کھانے والے دستر خوان کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ ایک کہنے والے نے عرض کیا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ اس وقت تم تعداد میں بہت زیادہ ہو گے لیکن تمہاری حیثیت ندی میں بہنے والے جھاگ کی سی ہوگی اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے دلوں سے تمہارا رعب ختم کر دے گا اور تمہارے دلوں میں وہن ڈال دے گا۔ کہنے والے نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ وہن کیا چیز ہے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت کی ناپسندیدگی۔“
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين