روزے کی نیت اور غیر ثابت شدہ الفاظ
بہت سے لوگ روزہ رکھنے کے وقت مخصوص الفاظ پڑھنے کے عادی ہو گئے ہیں، جیسے:
"نَوَيْتُ أَنْ أَصُومَ غَدًا”
"میں نے ارادہ کیا کہ میں کل روزہ رکھوں گا۔”
"وَبِصَوْمِ غَدٍ نَوَيْتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ”
"اور میں نے کل کے روزے کی نیت کی، ماہِ رمضان سے۔”
لیکن جان لینا چاہیے کہ نہ تو نبی اکرم ﷺ، نہ صحابہ کرام، نہ تابعین، نہ تبع تابعین، نہ ائمہ اربعہ، نہ محدثین اور نہ ہی فقہاء میں سے کسی نے ان الفاظ کو روایت کیا ہے۔ چودہ صدیوں تک کسی مستند اسلامی کتاب میں بھی یہ الفاظ نہیں ملتے۔
یہ الفاظ دین کا حصہ نہیں
یہ مخصوص الفاظ بعد کے ادوار میں لوگوں نے خود ایجاد کر لیے اور بدقسمتی سے کچھ لوگ انہیں دین کا لازمی جزو سمجھنے لگے ہیں۔ حالانکہ دین میں ایسی نئی چیزیں شامل کرنا بدعت کہلاتا ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے اس بارے میں سختی سے تنبیہ فرمائی:
📖 حدیثِ نبوی ﷺ
"مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ”
(صحیح بخاری: 2697، صحیح مسلم: 1718)
ترجمہ:
"جو شخص ہمارے دین میں کوئی نیا کام ایجاد کرے جو اس میں سے نہیں، تو وہ مردود ہے۔”
روزہ رکھنے کی صحیح نیت
اسلام میں نیت کا تعلق دل سے ہوتا ہے، کسی مخصوص الفاظ کو زبان سے دہرانا ضروری نہیں۔
نبی کریم ﷺ نے روزے کے لیے کوئی مخصوص الفاظ یا دعا نہیں بتائی۔
بس دل میں ارادہ کرلینا کافی ہے کہ "میں اللہ کی رضا کے لیے روزہ رکھ رہا ہوں۔”
غیر ثابت شدہ الفاظ اپنانا غلطی ہے
جو لوگ دین میں ایسی غیر مستند چیزیں شامل کرتے ہیں، وہ سخت غلطی پر ہیں۔ ہمیں دین میں نبی کریم ﷺ کی سنت اور اصل شریعت کی پیروی کرنی چاہیے اور بدعات سے بچنا چاہیے۔
امتِ مسلمہ کو آگاہ کریں
دین کو اصل شکل میں محفوظ رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں اور دوسروں کو بھی اس بارے میں آگاہ کریں۔
جزاکم اللہ خیراً!