تخلیق کائنات کا مقصد اور اگر آپ نہ ہوتے والی روایات کا تجزیہ
تحریر:ابن الحسن محمدی، ماہنامہ السنہ جہلم

کائنات کی تخلیق کس لیے ہوئی ؟

اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ عبادت الٰہی کے لیے، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے :
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاريات:56) ’’ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ “ معلوم ہوا کہ نظام کائنات کو خالق کائنات نے اپنے ہی لیے پیدا کیا ہے۔

اس قرآنی بیان کے خلاف گمراہ صوفیوں نے ایک جھوٹی اور من گھڑت روایت مشہور کر رکھی ہے کہ کائنات کی تخلیق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے، آپ کے طفیل اور آپ کے صدقے ہوئی۔ اگر آپ نہ ہوتے تو کائنات تخلیق نہ ہوتی۔ یہ نظریہ قرآن کریم کے بھی خلاف ہے اور اس سلسلے میں بیان کردہ روایات بھی جھوٹی، جعلی اور ضعیف ہیں۔

اس خود ساختہ عقیدے کے بارے میں بیان کی جانے والی روایات کی ذخیرۂ حدیث میں موجود تمام سندوں کا تفصیلی جائزہ اور ان پر منصفانہ تبصرہ پیش خدمت ہے۔ قارئین کرام غور سے اس مضمون کا مطالعہ فرمائیں اور فیصلہ خود کریں کہ کیا ایسی روایات کو دین اسلام کا نام دیا جا سکتا ہے اور کیا ایسی روایات کو اپنی تائید میں پیش کرنے والے لوگ اسلام اور مسلمانوں کے خیرخواہ ہو سکتے ہیں ؟

اگر تو نہ ہوتا ، روایت نمبر ۱ ، تجزیہ

سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے …. اللہ نے فرمایا :
ولو لاك يا محمد ! ما خلقت الدنيا. ’’ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! اگر آپ نہ ہوتے تو میں دنیا کو تخلیق نہ کرتا۔ “ (تاريخ ابن عساكر:518/3، الموضوعات لابن الجوزي:289،288/1)

تبصرہ :

یہ باطل اور جھوٹی روایت ہے۔
حافظ ابن الجوزی نے اسے ’’ موضوع “ ( من گھڑت ) قرار دیا ہے۔ حافظ سیوطی نے بھی ان کے حکم کو برقرار رکھا ہے۔( اللآ لي المصنوعة في الأحاديث الموضوعة للسيوطي:272/1)

اس روایت کے باطل ہونے کی کئی وجوہات ہیں :
(۱) محمد بن عیسیٰ بن حیان مدائنی روای جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ ضعیف “ ( ناقابل اعتبار ) ہے۔

امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ’’ متروک الحدیث “ قرار دیا ہے۔ (سؤالات الحاكم:171)

امام موصوف نے اسے ’’ ضعیف “ بھی کہا ہے۔ (العلل:347/5، سنن الدارقطني:78/1)

حافظ ابواحمد الحاکم فرماتے ہیں :
حدث عن مشايخه ما لم يتابع عليه. ’’ اس نے اپنے اساتذہ سے ایسی روایات بیان کی ہیں جن پر ثقہ راویوں نے اس کی موافقت نہیں کی۔ “ (تاريخ بغداد للخطيب البغدادي:399/2، وسنده صحيح)

حافظ لالکائی رحمہ اللہ بھی اسے ’’ ضعیف “ کہتے ہیں۔ (تاريخ بغداد للخطيب:398/2)

امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے ’’ متروک “ قرار دیا ہے۔ (ميزان الاعتدال للذھبي:678/3)

حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ’’ ضعیف “ راوی ہے۔ (الموضوعات:289/1)

صرف امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے ثقات (143/9) میں ذکر کیا ہے اور برقانی نے اسے ثقہ کہا ہے۔ (تاريخ بغداد للخطيب:398/2)

معلوم ہوا کہ اس کا ضعف ہی راجح ہے۔

(۲) محمد بن صباح راوی اگر کوفی ہے تو امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بقوي. ’’ یہ ذرا بھی مضبوط راوی نہیں۔ “ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:290/7)

(۳) ابراہیم بن ابی حیہ بھی سخت ’’ ضعیف “ راوی ہے۔

اس کو امیرالمومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’ منکر الحدیث “ قرار دیا ہے۔ (التاريخ الكبير للبخاري:283/1)

امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے کتاب الضعفاء والمتروکین (17) میں ذکر کیا ہے۔

نیز انہوں نے اسے ’’ متروک “ بھی قرار دیا ہے۔ (ميزان الاعتدال للذھبي:79/1)

امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے ’’ ضعیف “ کہا ہے۔ (الكامل في ضعفاء الرجال لا بن عدي:238/1، وسنده صحيح)

امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ’’ منکر الحدیث “ راوی ہے۔ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:149/2، ت:491)

امام علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بشيء. ’’ یہ فضول آدمی تھا۔ “ (لسان الميزان لابن حجر: 52/1)

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يروي عن جعفر بن محمد وھشام مناكير وأوابد، يسبق إلي القلب أنه المتعمدبھا. ’’ یہ جعفر بن محمد اور ہشام سے منکر اور من گھڑت روایات بیان کرتا ہے۔ دل کو لگتا یہی ہے کہ اس نے خود ایسی روایات گھڑی ہیں۔ “ ( كتاب المجروحين لابن حبان: 104،103/1)

حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ ضعیف “ قرار دیا ہے۔ (الموضوعات:289/1)

البتہ امام یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ نے اسے ’’ شیخ ثقۃ کبیر “ کہہ دیا ہے۔ (الجرح و التعديل:149/2)
لیکن ان کا یہ قول جمہور محدثین کی جرح کے مقابلے میں ناقابل التفات ہے۔

(۲) خلیل بن مرۃ نامی راوی بھی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ ضعیف “ ہے۔

اس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ’’ منکر الحدیث “ راوی ہے۔ (سنن الترمذي:3474،2666)

نیز فرماتے ہیں : فيه نظر. ’’ یہ منکر الحدیث ہے۔ “ (التاريخ الكبير:199/3)

امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ نے اسے حدیث میں غیر قوی قرار دیا ہے۔ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:379/3)

امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ ضعیف “ قرار دیا ہے۔ (الضعفاء والمتروكين:178)

امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے بھی ’’ ضعیف “ کہا ہے۔ (المجروحين لابن حبان:286/1، وسنده صحيح)

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
منكر الحديث عن المشاھير، كثير الرواية عن المجاھيل. ’’ یہ مشہور راویوں سے منکر احادیث بیان کرتا ہے، اس کی زیادہ تر روایات مجہول راویوں سے ہیں۔ “ (المجروحين لابن حبان:286/1)

حافظ ابن حجر اور حافظ ذہبی رحمہا اللہ نے بھی اسے ’’ ضعیف “ ہی قرار دیا ہے۔ چنانچہ جمہور کی تضعیف کے مقابلے میں امام ابن شاہین وغیرہ کی توثیق مفید نہیں۔

(۵) اس روایت کی سند میں یحییٰ نامی راوی سے مراد اگر یحییٰ ابن ابی صالح سمان ہے تو وہ مجہول ہے۔ (تقريب التھذيب:7569)

امام ابن حبان رحمہ اللہ کے علاوہ کسی نے اسے ثقہ قرار نہیں دیا۔

امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
شيخ مجھول، لا أعرفه. ’’ یہ کوئی نامعلوم شیخ ہے، میں اسے نہیں پہچانتا۔ “ (الجرح و التعديل:158/9)
اور اگر یہ یحییٰ بن ابی حیہ ابوجناب کلبی ہے تو پھر ’’ ضعیف “ ہے اور ’’ تدلیس تسویہ “ کا مرتکب ہے۔

علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں :
وأكثر الناس علي تضعيف الكلبي. ’’ اکثر محدثین کرام نے کلبی کو ضعیف قرار دیا ہے۔ “ (نصب الراية للزيلعي:23/2)

حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعفه الجمھور. ’’ اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ (تخريج أحاديث الإحياء:3708)

لہٰذا یہ سند پانچ وجہ سے باطل ہے۔ اس سے اہل باطل ہی دلیل لے سکتے ہیں۔

اگر تو نہ ہوتا ، روایت نمبر ۲ ، تجزیہ

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے :
أتاني جبريل فقال: يا محمد! لو لاك لما خلقت الجنة، ولو لاك ما خلقت النار.
”میرے پاس جبریل آئے اور کہنے لگے : اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! اگر آپ نہ ہوتے تو جنت اور دوزخ کو پیدا نہ کیا جاتا۔“ (سلسلة الأحاديث الضعيفة للألباني:450/1)

تبصرہ:

یہ جھوٹی روایت ہے، کیونکہ :
(۱) عبیداللہ بن موسیٰ قرشی راوی کے حالات نہیں مل سکے۔
(۲) فضیل بن جعفر بن سلیمان راوی کی توثیق اور حالات معلوم نہیں ہوئے۔
(۳) عبدالصمد بن علی بن عبداللہ راوی کی بھی توثیق نہیں ملی۔
اس کے بارے میں امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حديثه غير محفوظ، ولا يعرف إلابه. ’’ اس کی حدیث غیر محفوظ ہے اور وہ اسی روایت کے ساتھ معروف ہے۔“(الضعفاء الكبير للعقيلي:84/3)
معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت ان تینوں میں سے کسی ایک کی کارستانی ہے۔

اگر تو نہ ہوتا ، روایت نمبر ۳ ، تجزیہ

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :
أوحي الله إلي عيسي عليه السلام: يا عيسي ! آمن بمحمد وأمر من أدركه من أمتك أن يومنوا به، فلو لا محمد ما خلقت آدم، ولو لا محد ما خلقت الجنة ولا النار، ولقد خلقت العرش علي الماء فاضطرب، فكتبت عليه : لا إله إلا الله محمد رسول الله فسكن.
اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ اے عیسیٰ ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ایمان لائیے اور حکم دیجئیے کہ آپ کی امت میں سے جو لوگ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا زمانہ پائیں، وہ ان پر ایمان لائیں۔ اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں آدم کو پیدا نہ کرتا، اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں جنت اور جہنم کو پیدا نہ کرتا۔ میں نے عرش کو پانی کے اوپر پیدا کیا تو وہ ہلنے لگا۔ اس پر لا إله إلا الله محمد رسول الله لکھ دیا تو وہ ٹھہر گیا۔ “ (المستدرك علي الصحيحين للحاكم:515،514/2، ح:4227 )

تبصرہ:

یہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب ایک جھوٹی کہانی ہے کیونکہ :
(۱) اس کا راوی عمرو بن اوس انصاری ایک نامعلوم و مجہول راوی ہے۔

اس راوی اور اس روایت کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يجھل حله، أتي بخبر منكر، أخرجه الحاكم في مستدركه، وأظنه موضوعا.
’’ یہ راوی مجہول الحال ہے۔ اس نے ایک منکر روایت بیان کی ہے جسے امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک میں ذکر کیا ہے۔ میرے خیال کے مطابق وہ روایت من گھڑت ہے۔ “ (ميزان الاعتدال:6330،5246/3)

حافظ سیوطی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
قال الذھبي: في سنده عمرو بن أوس، لا يدري من ھو. ’’ حافظ ذہبی کہتے ہیں کہ اس کی سند میں عمرو بن اوس نامی راوی ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ کون ہے۔ “ (الخصائص الكبري:14/1)

(۲) سعید بن ابی عروبہ ’’ مدلس “ اور ’’ مختلط “ راوی ہے۔

(۳) قتادہ بن دعامہ راوی بھی ’’ مدلس “ ہیں، انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔

لہٰذا اس قول کی سند کو امام حاکم رحمہ اللہ کا ’’ صحیح “ کہنا ناقابل اعتبار ہے۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے امام حاکم رحمہ اللہ کی اس بات کا ردّ کرتے ہوئے لکھا ہے :
أظنه موضوعا علي سعيد. ’’ میرے خیال میں یہ سعید پر جھوٹ باندھا گیا ہے۔ “ (تلخيص المستدرك للذھبي:415/2)

لسان المیزان میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی حکم کو برقرار رکھا ہے۔

غیرثابت ہونے کے ساتھ ساتھ یہ قول شرعی نصوص کے بھی خلاف ہے۔

تنبیہ:

طبقات االمحدثین باصبہان لابی الشیخ میں عمرو بن اوس انصاری مجہول کی متابعت سعید بن اوس انصاری نے کی ہے

لیکن اس کی سند میں محمد بن عمر محاربی راوی لاپتہ افراد میں سے ہے۔ لہٰذا اس متابعت کا کوئی فائدہ نہیں۔

اگر تو نہ ہوتا ، روایت نمبر ۴ ، تجزیہ

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لما خلق الله آدم ونفخ فيه من روحه عطس آدم، فقال: الحمد لله، فقال الله: حمدني عبدي، وعزتي وجلالي! لولا عبدان أريد أن اخلقهما في دار الدنيا ما خلقتك، قال: يا إلھي ! فيكونان مني ؟ قال: نعم يا آدم! ارفع رأسك وانظر، فرفع رأسه، فإذا ھو مكتوب على العرش: لا اله الا الله، محمد رسول الله نبي الرحمة.
”جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان میں اپنی روح پھونکی تو ان کو چھینک آئی۔ انہوں نےالحمدللہ کہا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میرے بندے نے میری تعریف کی ہے۔ میری عزت اور میرے جلال کی قسم ! اگر دو بندوں کو دنیا میں پیدا کرنے کا ارادہ نہ ہوتا تو میں تجھے پیدا نہ کرتا۔ آدم علیہ السلام نے عرض کیا : اے میرے الٰہ ! کیا وہ دونوں میری ہی نسل سے ہوں گے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہاں اے آدم ! سر اٹھا اور دیکھ، آدم علیہ السلام نے سر اٹھایا تو عرش پر لا اله الا الله، محمد رسول الله نبي الرحمة. لکھا ہوا تھا۔۔“(المناقب للموفق الخوارزمي، ص:318، الجواھر السنية في الأحاديث القدسية للحر العاملي:293،292)

تبصرہ:

یہ جھوٹی روایت ہے کیونکہ :
(۱) موفق رافضی شیعہ ہے۔ اس کی کوئی توثیق ثابت نہیں۔
(۲) ابومحمد ہارون بن موسیٰ تلعکبری کی اگرچہ شیعہ کتب میں توثیق موجود ہے لیکن اہل سنت کی کتابوں میں اس کی توثیق موجود نہیں، اس کے برعکس حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
راوية للمناكير، رافضي. ’’ یہ کثرت سے منکر روایات بیان کرنے والا اور رافضی شخص ہے۔“ (ميزان الاعتدال:287/4، ت:9174)
(۳) فحیان عطار ابونصر کا کوئی اتا پتا نہیں۔
(۴) ربیع بن جراح راوی بھی نامعلوم ہے۔
(۵) سلیمان بن مہران اعمش کی ’’ تدلیس“ بھی موجود ہے۔
(۶) راوی عبدالعزیز بن عبداللہ کا تعین اور ان کی توثیق درکار ہے۔
(۷) راوی جعفر بن محمد کا تعین اور ان کی توثیق درکار ہے۔
(۸) راوی عبدالکریم کا تعین اور ان کی توثیق درکار ہے۔
(۹) ابن شاذان کی شیعہ کتب میں تعریف موجود ہے مگر اہل سنت کی کتابوں میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اس کے برعکس حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی ایک روایت کو جھوٹ قرار دیا ہے۔ (ميزان الاعتدال:466/3)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے :
ولقد ساق أخطب خوارزم من طريق ھذا الدجال ابن شاذان، أحاديث كثيرة باطلة سمجة ركيكة في مناقب السيد علي رضي الله. ’’ اخطب خوارزم نے اس دجال ابن شاذان کی سند سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مناقب میں بہت سی باطل، بےتکی اور بےہودہ روایات بیان کی ہیں۔“ (ميزان الاعتدال:467/3)

اس روایت میں اور بھی خرابیاں موجود ہیں۔

اگر تو نہ ہوتا ، روایت نمبر ۵ ، تجزیہ

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لما خلق الله آدم ونفخ فيه الروح عطس آدم، فألھم أن قال: الحمد للہ رب العلمین، فأوحی اللہ إلیہ: یا آدم ! حمدتنی، فوعزتی وجلالی، لولو عبدان أرید أن أخلقھما فی آخر الدنيا ما خلقتك.
’’ جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان میں روح پھونکی تو انہیں چھینک آئی۔ ان کو الہام ہوا کہ وہ الحمد للہ رب العلمین کہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ اے آدم ! تو نے میری تعریف کی ہے۔ میری عزت اور میرے جلال کی قسم ! اگر میں نے دنیا کے آخر میں دو بندوں کو پیدا کرنے کا ارادہ نہ کیا ہوتا تو میں تجھے پیدا نہ کرتا۔ “ (بشارة المصطفي لمحمد الطبري الرافضي، ص:117،116، الجواھر السنية في الأحاديث القدسية للحر العاملي، ص:273)

تبصرہ:

یہ سراسر جھوٹی روایت ہے کیونکہ :
(۱) حسین بن حسن اشقر راوی جمہور کے نزدیک ’’ ضعیف “ ہے۔

اس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے فیہ نظر فرمایا ہے۔ (التاريخ الكبير للبخاري:385/2)

نیز فرماتے ہیں : عنده مناكير. ’’ یہ منکر روایات بیان کرتا ہے۔ “ (التاريخ الصغير:291/2)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
منكر الحديث، وكان صدوقا. ’’ یہ تھا تو سچا لیکن روایات منکر بیان کرتا تھا۔ “ (سوالات ابن ھاني:2358)

امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ھو شيخ منكر الحديث. ’’ یہ شیخ منکر الحدیث تھا۔ “ (الجرح والتعديل لابن أبن حاتم:50/3)

امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بقوي في الحديث. ’’ حدیث میں چنداں مضبوط نہیں۔ “ (الجرح والتعديل:49/3)

امام جوزجانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
غال من الشتامين للخيرة. ’’ غالی رافضی تھا اور صحابہ کرام پر سب وشتم کرنے والوں میں سے تھا۔ “ (أحوال الرجال:90)

امام دارقطنی رحمہ اللہ (الضعفاء والمتروكين:195) اور امام نسائی رحمہ اللہ (الضعفاء والمتروكين:146) نے اسے لیس بالقوی. کہا ہے۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وھو شيعي جلد، وضعفه غير واحد. ’’ یہ کٹر شیعہ تھا۔ اسے کئی ایک محدثین کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ (البداية والنھاية:86/6)

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وضعفه الجمھور. ’’ اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ (مجمع الزوائد:82/6، 102/9)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ ضعیف “ کہا ہے۔ (فتح الباري:467/6)

حافظ سیوطی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
حسين الأشقر متھم. ’’ حسین اشقر متہم بالکذب راوی ہے۔ “ (ذيل الأحاديث الموضوعة،ص:58)

(۲) اس کی سند میں سلیمان بن مہران راوی ’’ مدلس “ ہے۔

(۳) محمد بن علی بن خلف عطار سے نیچے کے سب راویوں کی توثیق ثابت نہیں ہو سکی، مثلاً عبید بن موسیٰ رویانی، ابوالحسن احمد بن محمد بن اسحاق، ابویعقوب اسحاق بن محمد بن عمران خباز، محمد بن احمد بن یوسف، ابومحمد عبدالملک بن محمد بن احمد بن یوسف، ابوسعید محمد بن احمد بن حسین نیشاپوری خزاعی، ابونجم محمد بن عبدالوہاب بن عیسیٰ سمان رازی۔

کیا اس قدر خرابیاں سامنے آ جانے کے بعد بھی اس روایت کے جھوٹ ہونے میں کسی عقلمند کو کوئی شبہ رہ سکتا ہے ؟

تنبیہ:

روایت لولاك ما خلقت الأفلاك. کو علامہ صنعانی نے ’’ موضوع “ کہا ہے۔ (الموضوعات:51)

دنیا کی کسی کتاب میں اس کی کوئی سند نہیں مل سکی، نہ اہل سنت کی کسی کتاب میں، نہ شیعہ کی کسی کتاب میں۔ اس کے باوجود بعض لوگ اس پر اپنے عقیدے کی بنیاد رکھے ہوئے ہیں۔

اسے محمد باقر مجلسی رافضی شیعہ نے اپنی کتاب بحار الأنوار (18/15، 199/54) میں ابوالحسن البکری کی کتاب الأنوار کے حوالے سے بےسند ذکر کیا ہے۔ اگر کسی کے پاس اس کی کوئی سند ہے تو ہمیں پیش کرے۔

ہم نے اہل سنت اور روافض کی کتابوں میں موجود چھ مرفوع اور موقوف روایات پر تبصرہ کر کے ان کا باطل ہونا آشکارا کر دیا ہے۔ اگر دنیا میں کسی کے پاس ان چھ روایات کے علاوہ کوئی اور باسند روایت ہے تو وہ پیش کرے تاکہ اس کا تحقیقی جائزہ لیا جا سکے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

ایک تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے