سوال : بچہ کے صیام کی صحت کے کیا شرائط ہیں ؟ کیا یہ بات صحیح ہے کہ بچہ کے صیام کا ثواب اس کے والدین کو ملتا ہے ؟
جواب : اگر بچے صیام کی طاقت رکھیں تو والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو صیام کا عاد ی بنانے کے لئے ان سے صوم رکھوائیں اگرچہ وہ دس برس سے کم کے ہوں۔ اور جب وہ بالغ ہو جائیں تو ان سے جبراً صوم رکھوائیں۔ اگر بچے بلوغت سے پہلے صوم رکھیں تو بڑوں کی طرح مفسد صوم تمام چیزوں جیسے کھانا پینا وغیرہ سے بچنا ضروری ہے۔ اس کا ثواب بچہ کو بھی ملے گا اور اس کے والدین کو بھی۔
’’ شیخ ابن جبرین۔ رحمہ اللہ۔ “
سوال : کبھی رمضان کا مہینہ گرمی کے زمانہ میں آتا ہے۔ اور اس میں اونٹوں اور بکریوں کے مالک اجرت پر چرانے والے نہیں پاتے اور پیاس کی وجہ سے وہ تکلیف سے دوچار ہوتے ہیں تو کیا ان کے لئے افطار کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب : جب صائم دن کے اندر افطار کا ضرورت مند ہو اور افطار نہ کرنے کی صورت میں اسے اپنی جان کی ہلاکت کا اندیشہ ہو، تو وہ بقدرِ ضرورت افطار کر سکتا ہے۔ لیکن جان بچانے کی حد تک کھانا کھانے کے بعد وہ رات کی آمد تک تمام مفطرات سے بچا رہے۔ اور ماہِ رمضان کے ختم ہونے کے بعد اس چھوٹے ہوئے صوم کی قضا کر لے۔
اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا [2-البقرة:286]
’’ اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا “۔
اور ارشاد باری ہے :
مَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ [5-المائدة:6]
’’ اللہ تعالیٰ تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا “۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ “
اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا [2-البقرة:286]
’’ اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا “۔
اور ارشاد باری ہے :
مَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ [5-المائدة:6]
’’ اللہ تعالیٰ تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا “۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ “
ریڈیو کے اعلان پر افطار کرنے کا حکم
——————
سوال : رمضان کے ایک دن میں ریڈیو کے اناؤنسر نے یہ اعلان کیا کہ دو منٹ کے بعد مغرب کی اذان ہو گی۔ اسی وقت محلہ کے موذن نے اذان دے دی، ان دونوں میں سے کون اتباع کا مستحق ہے ؟
جواب : اگر موذن سورج دیکھ کر اذان دے اور وہ ثقہ ہو تو ہمیں موذن کا اتباع کرنا چاہیے، اس لئے کہ وہ غروبِ آفتاب کو دیکھ کر اذان کہتا ہے۔ لیکن اگر وہ گھڑی کے اعتبار سے اذان کہے اور سورج کو نہ دیکھے تو غالب گمان یہ ہے کہ ریڈیو کے اناؤنسر کا اعلان درستگی سے قریب تر ہو گا۔ کیونکہ گھڑیاں مختلف ہوتی ہیں۔ لہٰذا اناؤنسر کا اتباع زیادہ بہتر اور محفوظ طریقہ ہے۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “
جواب : اگر موذن سورج دیکھ کر اذان دے اور وہ ثقہ ہو تو ہمیں موذن کا اتباع کرنا چاہیے، اس لئے کہ وہ غروبِ آفتاب کو دیکھ کر اذان کہتا ہے۔ لیکن اگر وہ گھڑی کے اعتبار سے اذان کہے اور سورج کو نہ دیکھے تو غالب گمان یہ ہے کہ ریڈیو کے اناؤنسر کا اعلان درستگی سے قریب تر ہو گا۔ کیونکہ گھڑیاں مختلف ہوتی ہیں۔ لہٰذا اناؤنسر کا اتباع زیادہ بہتر اور محفوظ طریقہ ہے۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “
صوم وصال کا حکم :
——————
——————
سوال : صوم وصال کیا ہے ؟ کیا وہ سنت ہے ؟
جواب : صومِ وصال یہ ہے کہ انسان دو روز تک افطار نہ کرے۔ بلکہ دو روز تک مسلسل صوم رکھے۔ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
آپ کا یہ ارشاد ہے :
من أراد أن يواصل فليواصل إلى السحر [صحيح: صحيح بخاري، الصوم 30 باب الوصال 48 رقم 1963 بروايت أبوسعيد خدري رضي الله عنه، وبا ب الوصال إلى السحر 50 رقم 1967. ]
’’ جو شخص صوم وصال رکھنا چاہے وہ صبح تک رکھ سکتا ہے “۔
صبح تک صوم وصال رکھنا صرف جائز ہے، مشروع اور مستحب نہیں ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افطار جلدی کرنے کی ترغیب دی ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
لايزال الناس بخير ماعجلوا الفطر صحيح: [صحيح بخاري، الصوم 30 باب تعجيل الإفطار 45 رقم 1957 بروايت سهل بن سعد رضي الله عنه، صحيح مسلم، الصيا م 13 باب فضل السحور وتاكيد استحبا به …… 9 رقم 48، 1098 ]
’’ لوگ ہمیشہ بھلائی میں رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کریں گے “۔
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے صرف صبح تک وصال کرنے کو مباح اور جائز قرار دیا ہے۔ اور جب انہوں نے آپ کے صومِ وصال رکھنے پر آپ سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إني لست كهيئتكم میں تمہا ری طرح نہیں ہوں۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمہ اللہ۔ “
جواب : صومِ وصال یہ ہے کہ انسان دو روز تک افطار نہ کرے۔ بلکہ دو روز تک مسلسل صوم رکھے۔ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
آپ کا یہ ارشاد ہے :
من أراد أن يواصل فليواصل إلى السحر [صحيح: صحيح بخاري، الصوم 30 باب الوصال 48 رقم 1963 بروايت أبوسعيد خدري رضي الله عنه، وبا ب الوصال إلى السحر 50 رقم 1967. ]
’’ جو شخص صوم وصال رکھنا چاہے وہ صبح تک رکھ سکتا ہے “۔
صبح تک صوم وصال رکھنا صرف جائز ہے، مشروع اور مستحب نہیں ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افطار جلدی کرنے کی ترغیب دی ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
لايزال الناس بخير ماعجلوا الفطر صحيح: [صحيح بخاري، الصوم 30 باب تعجيل الإفطار 45 رقم 1957 بروايت سهل بن سعد رضي الله عنه، صحيح مسلم، الصيا م 13 باب فضل السحور وتاكيد استحبا به …… 9 رقم 48، 1098 ]
’’ لوگ ہمیشہ بھلائی میں رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کریں گے “۔
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے صرف صبح تک وصال کرنے کو مباح اور جائز قرار دیا ہے۔ اور جب انہوں نے آپ کے صومِ وصال رکھنے پر آپ سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إني لست كهيئتكم میں تمہا ری طرح نہیں ہوں۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمہ اللہ۔ “
۔ والدین کی طرف سے ڈنر پارٹی کا حکم :
——————
——————
سوال : بعض لوگ ماہِ رمضان میں جانور ذبح کر کے دعوت کرتے ہیں۔ اور اس کا نام والدین کی طرف سے ڈنر (شام کا کھانا) رکھتے ہیں۔ اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : فوت شدہ والدین کے لئے صدقہ کرنا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن والدین کی طرف سے صدقہ کرنے کے مقابل میں ان کے لئے دعا کرنا افضل ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے درج ذیل فرمان میں اسی کی طرف رہنمائی کی ہے اور اسی کا حکم دیا ہے :
إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلامن ثلاثة : صدقة جا رية، أو علم ينتفع به، أو ولد صالح يدعو له [صحيح: صحيح مسلم، الوصية، 25 باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته 3 رقم 14 1631 بروايت أبو هريره رضي الله عنه]
’’ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کی وجہ سے۔ (1) صدقہ جاریہ (2) ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ (3) صالح اولاد جو والدین کے لئے دعاکرے “۔
مذکو رہ بالاحدیث میں آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ صالح اولاد جو والدین کی طرف سے صدقہ کرے یا ان کے لئے صلاۃ ادا کرے۔ پھر بھی اگر کوئی شخص اپنے کسی فوت شدہ آدمی کی طرف سے صدقہ کرے تو جائز ہے۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جائز قرار دیا۔
لیکن بعض لوگ جو رمضان کی راتوں میں جانور ذبح کرتے ہیں اور بہت سے کھانے پکواتے ہیں اور ان میں صرف مالدار لوگوں کی شرکت ہوتی ہے۔ یہ نہ مشروع ہے اور نہ سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہے۔ لہٰذا انسان کے لئے مناسب ہے کہ ایسا کام نہ کرے۔ کیونکہ درحقیقت یہ صرف ایک دعوت ہے جس میں لوگ حاضر ہوتے اور کھانا کھاتے ہیں۔ ان میں سے بعض لوگ تو ایسے ہیں جو اس قسم کے کھانوں کے لئے جانور ذبح کر کے اس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ گوشت خریدنے کے مقابلے میں جانور ذبح کرنا افضل ہے۔ جب کہ یہ خلاف شرع بات ہے۔ اس لئے کہ جن ذبیحوں سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے وہ قربانی، ہدایا اور عقیقے ہیں۔ لہٰذا رمضان میں جانور ذبح کر کے اللہ کا تقرب حاصل کرنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمہ اللہ تعالیٰ۔ “
جواب : فوت شدہ والدین کے لئے صدقہ کرنا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن والدین کی طرف سے صدقہ کرنے کے مقابل میں ان کے لئے دعا کرنا افضل ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے درج ذیل فرمان میں اسی کی طرف رہنمائی کی ہے اور اسی کا حکم دیا ہے :
إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلامن ثلاثة : صدقة جا رية، أو علم ينتفع به، أو ولد صالح يدعو له [صحيح: صحيح مسلم، الوصية، 25 باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته 3 رقم 14 1631 بروايت أبو هريره رضي الله عنه]
’’ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کی وجہ سے۔ (1) صدقہ جاریہ (2) ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ (3) صالح اولاد جو والدین کے لئے دعاکرے “۔
مذکو رہ بالاحدیث میں آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ صالح اولاد جو والدین کی طرف سے صدقہ کرے یا ان کے لئے صلاۃ ادا کرے۔ پھر بھی اگر کوئی شخص اپنے کسی فوت شدہ آدمی کی طرف سے صدقہ کرے تو جائز ہے۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جائز قرار دیا۔
لیکن بعض لوگ جو رمضان کی راتوں میں جانور ذبح کرتے ہیں اور بہت سے کھانے پکواتے ہیں اور ان میں صرف مالدار لوگوں کی شرکت ہوتی ہے۔ یہ نہ مشروع ہے اور نہ سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہے۔ لہٰذا انسان کے لئے مناسب ہے کہ ایسا کام نہ کرے۔ کیونکہ درحقیقت یہ صرف ایک دعوت ہے جس میں لوگ حاضر ہوتے اور کھانا کھاتے ہیں۔ ان میں سے بعض لوگ تو ایسے ہیں جو اس قسم کے کھانوں کے لئے جانور ذبح کر کے اس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ گوشت خریدنے کے مقابلے میں جانور ذبح کرنا افضل ہے۔ جب کہ یہ خلاف شرع بات ہے۔ اس لئے کہ جن ذبیحوں سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے وہ قربانی، ہدایا اور عقیقے ہیں۔ لہٰذا رمضان میں جانور ذبح کر کے اللہ کا تقرب حاصل کرنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمہ اللہ تعالیٰ۔ “