وَرَوَى التَّرْمَذِي فِي صَحِيحِهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ مَا قَالَ: مُرُوا الصَّبِيُّ لِلصَّلَاةِ لِسَبْعٍ، وَاضْرِبُوهُ عَلَى تَرْكِهَا لِعَشْرٍ
ترمذی نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”بچے کو نماز کا حکم دو سات سال کی عمر میں ، اور اسے مارو نماز کے ترک کرنے پر دس سال کی عمر میں“۔
تحقیق و تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے ۔ مسند امام احمد بن حنبل: 3/ 404 ابوداؤد 494 ، ترمذی : ترمذی : 407 نے، کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ مستدرک حاکم : 201/1، حاکم نے اسے مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ، علامہ ذہبی نے اس کی موافقت کی ۔
فوائد :
➊ بچے اگرچہ مکلف نہیں ہوتے لیکن ان کو تربیت دینے کے لیے اسلام کے احکام سختی سے سکھانا درست ہے ۔
➋ سات سال کے بچوں سے نماز کی ادائیگی کا اہتمام کرا دیا جائے اور دس سال کی عمر میں سختی سے نوٹس لیا جائے اور حسب حال سزا دی جائے بچوں کو سزا دینے کا یہ مطلب نہیں کہ جی بھر کر مارا جائے بلکہ بچوں کی نفسیات کو سامنے رکھ کر ان کی تربیت کی جائے حسب موقع مار کی ضرورت پڑے تو مار بھی سکتے ہیں لیکن ہمہ وقت جھڑکتے رہنا داد نہ دینا طرح طرح کی سزاؤں سے دو چار کرنا حوصلہ افزائی نہ کرنا جسموں کو ننگا کر کے دھوپ میں بے یارو مدد گار قیدیوں کی طرح معصوم کلیوں کو مسلنا اسلام کا طریقہ نہیں ہے ۔ اور نہ ہی اتنا پیار کیا جائے کہ بچے استاد کے ہاتھوں سے پانی کا گلاس چھین لیں یا پگڑی رومال اتار کر ہنسنے لگ جائیں ۔
➌ نماز کا اتنا مقام ہے اور اتنی اہم ہے کہ بچہ بھی دس سال کی عمر میں ستی کرے نہ پڑھے تو وہ شرعاًً سزا دیا جا سکتا ہے ۔