مضمون کے اہم نکات:
ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے کا مسئلہ
جھنگوی صاحب نے ابتدا ہی جھوٹ سے کی:
جھنگوی نے اول تا آخر گفتگو ایک فرضی مکالمہ پر کی ہے جو حقیقت بہر حال نہیں۔ شاید وہ اسے تفہیم کا ایک انداز قرار دے کر اس کے جھوٹ ہونے کی نفی کر دیں لیکن پھر بھی یہ حقیقت اپنی جگہ پر اٹل ہے کہ جھنگوی صاحب نے اہل حدیث کی طرف سے اعتراضات بھی درست نقل نہیں کیے۔ حالانکہ ان کا یہ حق تھا کہ فریق مخالف کی ترجمانی کرتے وقت ان کے مؤقف کو درست نقل کرتے اور ان کے دلائل کا علمی و تحقیقی جواب دیتے مگر انہوں نے اعتراض اور جواب دونوں ہی غلط درج کئے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ ’’جب آپ نماز پڑھتے ہیں سر سے ٹوپی اتار کر نیچے پھینک دیتے ہیں‘ دائیں ہاتھ کو بائیں کہنی پر مار کر ہاتھ باندھ لیتے ہیں اور گردن کو اکٹر اکر پیر خوب چوڑے کر کے کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ چیزیں میری سمجھ میں نہیں آتیں۔‘‘( تحفہ اہل حدیث ص (1)
حالانکہ نماز کی ابتدا کوئی اہل حدیث اس طرح نہیں کرتا۔ ننگے سر نماز عاجزی و انکساری کی وجہ سے پڑھی جاتی ہے۔ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھانا مسنون ہے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث میں آتا ہے۔ (بخاری ص 102 ج 1 مسلم ص 168 ج 1 )
یہی اہل حدیث کا عمل ہے۔ نماز میں اپنی نظر کو سجدہ کی جگہ پر رکھنا مسنون ہے‘ جیسا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے۔ (مستدرک حاکم ص 479 ج 1 و بیھقی ص 158 ج 5 وارواء الغلیل ص 73 ج 2)
اس پر اللہ کے فضل و کرم سے اہل حدیث کا عمل ہے ۔ مگر جھنگوی نے ابتداہی کذب و افترا سے کی ہے ایسے ہی پاؤں کو کشادہ کرنے میں جھنگوی نے مبالغہ اور غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ تفصیل آگے آرہی ہے۔
جھنگوی کا اعتراف حقیقت کے ساتھ باطل کا بھی اعلان:
فرماتے ہیں کہ آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے ، قرآن وحدیث کے مقابلے میں اگر کسی کی بات ہو تو وہ واقعی نا قابل عمل ہے‘ جب کہ حدیث صحیح کے خلاف ہو اور کتاب اللہ سے بھی ٹکراتی ہو ۔ ( تحفہ اہل حدیث 2)
الجواب: اولاً: بلاشبہ قرآن وحدیث کے خلاف آئمہ کے اقوال کو آپ کا نا قابل عمل قرار دینا درست و حق بات ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ اضافہ کہ وہ کتاب اللہ کے ساتھ بھی ٹکراتا ہو معتزلہ کا مذہب ہے جو مردود ہے‘ اس مردود قول کا مقصود یہ ہے کہ اگر اقوال آئمہ فقط حدیث نبوی کے مخالف ہوں تو جب وہ حدیث پر فائق ہی رہیں گے، ہاں البتہ اگر حدیث کے ساتھ ساتھ قرآن کے مخالف بھی ہوں تو تب وہ نا قابل عمل ہیں۔
ثانیا: یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ فقط حدیث کے مخالف نہ ہو‘ بلکہ قرآن سے بھی ٹکراتی ہو‘ لیکن اس کی کیا دلیل ہے کہ اگر قول امام قرآن و حدیث دونوں کے ہی خلاف ہو تو تب آپ چھوڑ دیں گے کیونکہ فقہ حنفی میں لکھا ہے کہ:
(( فلعنة ربنا اعداد رمل على من رد قول أبي حنيفة ))
یعنی اس شخص پر ریت کے ذروں برابر لعنتیں ہوں جو ابو حنیفہ کے قول کو رد کرتا ہے۔ (در المختار مع شامی ص 63 ج 1)
جو شخص امام صاحب کے بارے ایسی بات کہتا ہے کہ وہ خطاء کر سکتے ہیں چوپا یہ بلکہ اس سے بھی زیادہ گمراہ ہے۔ (مقدمہ انوار الباری ص 163 ج 1)
صاحب اصول کرخی فرماتے ہیں کہ قرآن کی وہ تمام آیات اور احادیث جو ہمارے ائمہ کے اقوال کے مخالف ہیں وہ یا منسوخ ہیں یا مؤول۔ (اصول کرخی ص 11)
ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے کی مرفوع احادیث:
پہلی حدیث: حضرت عبید اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
((ترون يدى هذه صافحت بها رسول الله وذكر الحديث ))
یعنی تم لوگ میرے اس ہاتھ کو دیکھتے ہو میں نے اسی ایک ہاتھ سے رسول اللہ ﷺ سے مصافحہ کیا ہے‘ اور حدیث کو ذکر کیا (التمہید لما في الموطا من المعاني والا سانيد ص 247 ج 12)
یہ حدیث صحیح ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے کی کھلی دلیل ہے۔
دوسری حدیث: حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالٰی نے میرے دل میں اسلام ڈالا تو میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ
((ابسط يمينك فلا بايعك فيبسط يمينه قال فقبضت يدى قال مالك يا عمرو قال قلت اردت ان اشترط قال تشرط بما ذا قلت ان يغفرلى قال اما علمت يا عمرو ان الاسلام يهدم ما كان قبله))
یعنی رسول اللہ ﷺ اپنے داہنے ہاتھ کو بڑھائیں کہ میں آپ سے بیعت کروں۔ پس رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ بڑھایا۔ تو میں نے اپنے ہاتھ کو سمیٹ لیا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ عمرو تجھے کس چیز نے روک لیا ہے۔ میں نے عرض کی کہ کچھ شرط کرنا چاہتا ہوں‘ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ کس بات کی شرط کرنا چاہتے ہو، میں نے کہا کہ مجھے بخش دیا جائے’ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تجھے معلوم نہیں کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے جتنے گناہ ہوتے ہیں ان کو اسلام مٹادیتا ہے۔ ( صحیح مسلم ص 76 ج 1)
گو یہ روایت بیعت مصافحہ کے بارے میں ہے، لیکن بیعت میں بھی مصافحہ ہی ہوتا ہے۔ حضرت امیمہ بنت رقیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم بہت سی عورتیں دین اسلام پر بیعت کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور ہم نے بیعت کے وقت مصافحہ کی درخواست کی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ((انی لا اصافع النساء )) میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا ۔ (موطا امام مالک باب ماجاء فی العربية )
حافظ ابن عبد البر ان الفاظ کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ((دليل على انه كان يصافح الرجال عند البيعة وغيرها )) يعنى ان الفاظ نبوی میں دلیل ہے کہ رسول اللہﷺ بیعت وغیرہ کے وقت مردوں سے مصافحہ کرتے تھے۔(التحمید ص 243 ج 12)
حافظ ابن عبد البر ان پر متعدد احادیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ
((في هذا ايضا دليل على ان المبايعة من شانها المصافحة ولم يختلف الآثار في ذلك))
ان مسائل کے علاوہ ان احادیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ بیعت کیفیت و طریقہ میں مصافحہ ہے اور اس سلسلہ میں آثار نبوی میں کوئی اختلاف نہیں۔ (التحمید ص 352 ج 16)
ان دلائل سے ثابت ہوا کہ بیعت اور ملاقات کے وقت مصافحہ کی کیفیت و طریقہ ایک ہی ہے داہنے ہاتھ سے مصافحہ کرنا حسب ذیل احادیث میں موجود ہے۔
(۱) حضرت ابو غادیہ رضی اللہ عنہ سے۔ (مسند احمد ص 68 ج5)
(۲) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے۔ (بخاری ص 523 ج1)
(۳) واثلہ بن الاسقح رضی اللہ عنہ سے۔ (مسند احمد ص 491 ج 3)
(۴) جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے۔ ( بخاری ص 14 ج 1) (۵)
(٥) عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے۔ (ابن ماجہ 27)
جھنگوی صاحب کا پہلا اعتراض
ید صرف اور صرف ایک ہاتھ کو کہتے ہیں‘ یہ غلط ہے بلکہ یہ اسم جنس ہے اور جنس قلیل اور کثیر دونوں پر صادق آتی ہے۔ اگرید کے لفظ سے آپ نے صرف ایک ہاتھ مراد لیا ہے تو دا یاں ہاتھ حدیث کے کس لفظ کا ترجمہ ہے۔( تحفہ اہلحدیث ص2)
الجواب: اولا : اس قسم کی احادیث میں لفظ ید سے جنس مراد لینا غلط ہے کیو نکہ لفظ ید معرف باللام ہے یا مضاف پس الف ولام عہد خارجی کے لئے ہے اور اسی طرح اضافت بھی۔
ثانیا: آپ نے لفظ ید کو جنس ٹھہرایا ہے‘ جو بقول آپ کے قلیل و کثیر دونوں پر صادق آتا ہے۔ تو پھر کس دلیل سے آپ نے قلیل کی بجائے کثیر کو مراد لیا ہے کیونکہ مشترک معانی والے الفاظ کے معنی تعین کرنے میں قرینہ کی ضرورت ہوتی ہے جو یہاں موجود نہیں۔ علاوہ ازیں اس ڈھکوسلہ سے یہ دعویٰ بھی باطل ثابت ہو گیا کہ ایک ہاتھ سے مصافحہ غیر مسنون ہے کیونکہ آپ نے جنسی قرار دے کر قلیل پر اس کا استعمال تسلیم کر لیا ہے۔
دوسرا اعتراض: آپ قرآن پاک کی کسی آیت یا حدیث سے دائیں ہاتھ سے مصافحہ کرنا اور بائیں ہاتھ سے مصافحہ کی ممانعت ثابت کریں۔ (ص 3)
الجواب: اولا: ایک ہاتھ سے مصافحہ کے مسنون ہونے کا تو آپ کو اعتراف ہے۔
ثانیا :۔ رہا یہ کہ ایک ہاتھ سے دایاں مراد لینا تو سنئے کہ اس پر شرعی قرائن موجود ہیں
((يحب التيمن ما استطاع في شانه كله))
يعنی ہر کام میں رسول ﷺ حتی الوسع دائیں ہاتھ کو محبوب رکھتے۔
( بخاری و مسلم بحوالہ مشکوۃ ص 46)
جھنگوی صاحب ‘فی شانہ کلہ‘ سے کسی معتبر دلیل سے دائیں ہاتھ کی بجائے بایاں ہاتھ ثابت کریں ؟ اگر یہ ثابت نہ کر سکیں یقیناً ثابت نہیں کر سکیں گے توکلہ میں مصافحہ بھی شامل ہے۔
ثالثاً:۔ بخاری ص 523 میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اور مسند احمد ص 68 ج 5 میں ابو غادیہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں دائیں ہاتھ کی صراحت ہے۔
صحیح بخاری پر اعتراضات
جھنگوی نے مذکورہ اعتراضات کے بعد درمیان میں خلط مبحث کرتے ہوئے صحیح بخاری کو موضوع بحث بنالیا ہے۔ پہلے غلط بیانی کرتے ہوئے یہ اعتراض نقل کرتے ہیں کہ دو ہاتھ سے مصافحہ کرنے کی حدیث بخاری سے ثابت کرو‘ پھر اس اعتراض کی آڑ میں اپنے دل کی بھڑاس اس طرح نکالتے ہیں کہ بخاری میں یہ یہ مسئلہ موجود نہیں، حالانکہ صحیح بخاری کے بارے میں یہ کسی کا بھی موقف نہیں ہے کہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں تمام صحیح احادیث کو جمع کر دیا ہے۔ جو حدیث بخاری میں نہیں وہ حدیث ہی نہیں جیسا کہ موصوف کے الفاظ سے معلوم ہو جاتا ہے۔ یہ شوشہ سب سے پہلے مرزا غلام احمد قادیانی نے چھوڑا تھا۔ دیکھئے (ازالہ اوہام ص 44 اور وحانی خزائن ص 173 ج 3) جھنگوی ٹولہ نے مرزا کی اندھی تقلید کرتے ہوئے اسے پلے باندھ لیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اہل علم کا بخاری کے بارے میں کیا موقف ہے :
مولانا سر فراز خان صفدر فرماتے ہیں کہ : اصول حدیث کی رو سے بخاری شریف اور مسلم شریف کو صحیحین سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی جتنی حدیثیں ان میں ہیں وہ صحیح ہیں یہ مطلب نہیں کہ ان کے علاوہ اور کوئی حدیث یا حدیث کی کتاب صحیح نہیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان میں موجود احادیث بالکلیہ صحیح ہیں۔ (احسان الباری ص 34)
حافظ ابن الصلاح فرماتے ہیں کہ :
((لم يستوعب الصحيح في صحيحهما ولا التز ما ذلك فقد روينا عن البخارى انه قال ما أدخلت فى كتاب الجامع الا ماسع وتركت من الصحاح الملال الطول ))
یعنی امام بخاری اور مسلم نے اپنی کتب میں تمام احادیث صحیحہ کو منحصر کرنے کا التزام نہیں کیا۔ امام بخاری نے خود کہا ہے کہ میں نے اپنی کتاب میں صرف احادیث صحیحہ کو درج کیا ہے اور طوالت کی وجہ سے میں نے اکثر صحیح احادیث کو ترک کر دیا ہے۔
(متقدمه ابن الصلاح مع شرح التعميد والا ليضاح ص 30)
اس حقیقت کے برعکس جھنگوی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ بخاری میں فلاں حدیث نہیں اور بخاری میں فلاں مسئلہ بیان نہیں ہوا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جھنگوی یا تو بغض اور . تعصب کی وجہ سے یہ دعویٰ کر رہا ہے یا پھر جاہل مطلق ہے۔ اول الذکر بات زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ موجودہ حنفیہ کو بخاری سے جس قدر الرجی ہے وہ محتاج بیان نہیں۔
بہر حال آئیں ان مسائل کی حقیقت ملاحظہ کریں جن کی جھنگوی صاحب نے نشان دہی کی ہے کہ یہ بخاری میں نہیں ہیں۔
سینہ پر ہاتھ باندھنا
فرماتے ہیں کہ سینہ پر ہاتھ باندھنا۔ ( تحفہ اہل حدیث ص 4)
الجواب : اولاً:- کیا قرآن میں سینہ تو کجا کسی بھی جگہ ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے اگر ہے تو اس آیت کا حوالہ دیں اگر نہیں اور یقینن نہیں‘ تو جو جواب آپ قرآن کے بارہ میں دیں گے وہی جواب بخاری میں عدم ذکر کا تصور کر لینا۔
ثانیا: صحیح حدیث میں نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
((صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم فوضع يده اليمنى على يده اليسري على صدره))
یعنی میں نے رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں نماز اداکی تو آپ علیہ السلام نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر باندھے تھے۔ (صحیح ابن خزیمہ ص 243 ج 1ر قم الحديث 479)
حضرت ھلب طائی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ يضع هذه على صدره‘ یعنی رسول اللہ ﷺ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھتے تھے۔ (مسند احمد 226/5)
پاؤں کو کشادہ کرنا
اولا: اس کی تفصیل اپنے مقام پر آگے آرہی ہے کہ بخاری کی احادیث سے پاؤں کو کشادہ کرنا ثابت ہے۔
ثانیاً: حنفیہ کے نزدیک نمازی قیام کے دوران اپنے پاؤں کے درمیان چارا نگشت کا فاصلہ رکھے ۔ نماز مسنون ص۳۱۰‘ اور فقہ کی کتاب فتاوی بزازیہ‘ میں اس کو مستحب لکھا ہے۔ (بحوالہ السعایہ ص 111 ج 2)
کیا آپ اس کی کوئی دلیل قرآن و سنت سے دے سکتے ہیں ؟ قطعا نہیں۔ یہ سب سینہ گزٹ اور عجم کی ایجاد ہیں۔ دین عربی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
نماز میں قیام کی کیفیت
جھنگوی صاحب نے ایک شگوفہ یہ بھی چھوڑا ہے کہ اہل حدیث نماز میں اکڑ کر کھڑے ہوتے ہیں اور اس کا ذکر بخاری میں نہیں۔ اس کا تفصیل سے جواب آگے اہل حدیث سے مبتدعین دیوبند کا اختلاف کے زیر عنوان آرہا ہے یہاں جھنگوی ٹولہ کے جواب میں ہم صرف لعنتہ اللہ علی الکاذبین ہی کافی سمجھتے ہیں۔
اذان کے کلمات
جھنگوی نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ بخاری میں اہل حدیث کی اذان نہیں ہے۔ (تحفہ اہل حدیث ص ۴)
الجواب: اولا: اذان سے آپ کی کیا مراد ہے‘ اگر ترجیع کے بغیر اذان کا دعویٰ ہے تو یہ بخاری کتاب الاذان کے ابتدا میں ہی ہے، اگر ترجمیع کے بغیر اذان کی نفی ہے تو تر جیع والی اذان خود رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت ابو محذور ہ رضی اللہ عنہ کو سکھائی ہے۔ (مسلم ص 165 ج 1)
ثانیا: کیا قرآن میں کلمات اذان کی وضاحت ہے ؟ اگر ہے تو جھنگوی ان آیات کی نشان دہی کرے‘ اگر نہیں اور یقینن نہیں تو فماکان جو ا بکم فھو جو ا بنا
ثالثاً: بخاری تو کجا پوری صحاح ستہ سے آپ حنفی اذان ثابت کر سکتے ہیں ؟ جس میں دو ہری تکبیر اور اکہری اذان اور اس میں ’’الصلوۃ خیر من النوم ‘‘ کے الفاظ بھی ہوں۔ چلو ہم آپ کو مزید رعایت دیتے ہیں اور پورے ذخیرہ احادیث سے صرف ایک حدیث دکھا دیں جو اصول حدیث کی رو سے کم از کم حسن درجہ کی ہو اور جسے مسلمہ محد ثین نے حسن قرار دیا ہو۔
قارئین کرام !سورج مغرب سے طلوع ہو کر مشرق میں غروب تو ہو سکتا ہے مگر جھنگوی ٹولہ اپنے عمل پر ایسی کوئی حدیث ثابت نہیں کر سکتا۔
رکعات نماز
جھنگوی نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ بخاری میں ہر نماز کی رکعات فرض و سنن کا بیان نہیں ہے۔ (ص4)
الجواب: – اولا :- جھنگوی ٹولہ قرآن سے ثابت کر سکتا ہے کہ پانچ نمازیں ہیں اور فلاں اذان کا فلاں وقت ہے اور اس نماز کی اس قدر رکعات ہیں اور ان رکعات میں اس قدر فرض اور باقی سنن ہیں ؟ اگر نہیں اور یقینن نہیں تو فماکان جوا بکم فھو جو ابنا۔
ثانیاً: (بخاری ص 77 ج 1 باب تاثیر اللهمر الى العصر و مسلم ص 246 ج 1) میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث میں ظہر‘ عصر مغرب‘ عشاء کی نماز کے فرائض کی تعداد‘ رکعت کا ذکر ہے اور صبح کی نماز کا بیان بخاری کتاب الاذان باب القراة في الفجر (الحديث 771) میں دو عدد رکعات فرض کا بیان ہے۔
اگر آپ کا تقلیدی دماغ ان احادیث کو سمجھنے سے قاصر ہو تو بخاری مترجم لے کر مطالعہ کرنا‘ اگر پھر بھی آپ کے دماغ کو یہ سادہ سی حدیث سمجھ نہ آئے تو کثرت سے لاحول کا وظیفہ کرنا‘ تصنیف کی بجائے پرائمری اسکول میں داخلہ لے کر اردو کی تعلیم حاصل کرنا اور اپنے مولی حقیقی سے خشوع و خضوع اور رقت بھری آہوں سے زیادتی علم اور صراط مستقیم پر چلنے کی دعا کرنا۔ انشاء اللہ اس مجرب نسخہ سے شفا ہو گی۔
ثالثاً: سنت فجر دور کعت ( بخاری ص 154 ج 1 ء مسلم ص 251 ج 1 )
سنت ظہر چھ رکعت۔ (مسلم ص 252 ج 1)
سنت مغرب دور کعت۔ (مسلم ص 252 ج1)
سنت عشاء دور کعت ( بخاری ص 157 ج 1 و مسلم ص 252 ج 1)
نماز کے فرائض و واجبات اور مکروہات
جھنگوی نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ مذکورہ چیزوں کا بیان بخاری میں نہیں۔
الجواب : اولا:- کیا جھنگوی ٹولہ یہ ثابت کر سکتا ہے کہ قرآن میں نماز کا طریقہ مفصل اور بالترتیب بیان ہوا ہے اور قرآن نے کہا ہے کہ نماز میں یہ یہ رکن فرض اور یہ یہ واجب اور یہ یہ سنت اور یہ یہ مستحب اور ان افعال کا نماز میں کرنا مکروہ ہے۔ اگر ہے تو اس آیت کی نشان دہی کی جائے۔
ثانیا: جس طرح رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے نماز پڑھی ہے اسی طرح نماز کو ادا کرنالازمی و ضروری ہے اور سنت سے جس طرح نماز کا پڑھنا ثابت ہے اس کے خلاف کرنے سے نماز ہوتی ہی نہیں۔ جسکی دلیل یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
(صلو كما رائيتموني اصلی”)۔ ( بخاری رقم الحدیث 631)
یعنی نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔
ثالثاً: فقہائے احناف کا نماز کے ارکان میں سے بعض کو فرض ، بعض کو واجب، بعض کو سنت‘ بعض کو مستحب قرار دینا بد ترین بدعت ہے۔
اگر جھنگوی میں ہمت ہے تو قرآن و سنت اور اقوال صحابہ سے یہ ثابت کرے کہ نماز میں بعض ارکان، فرض ، بعض واجب، بعض سنت اور بعض مستحب ہیں۔ ورنہ تسلیم کرے کہ ہمارامذ ہب کتاب و سنت سے زائد ہے۔
قارئین کرام جھنگوی ٹولہ کیا پوری دنیا کے منکرین سنت مل کر سر توڑ کوشش کرنے کے باوجود ان کا ثبوت نہیں دے سکتے۔ اللہ اکبر‘ بدعات یہ ایجاد کریں اور ان کا ثبوت ہم سے طلب کریں۔
اور اگر ثبوت موجود نہ ہوں تو الٹا ہمیں ہی مطعون کریں۔ اسے کہتے ہیں الٹا چور کو توال کو ڈانٹے۔
نماز جنازہ
جھنگوی نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ آپ حضرات جو جنازہ پڑھتے ہیں اس کی تفصیل بخاری میں نہیں۔ (ص4)
اولاً:- کیا جھنگوی ٹولہ قرآن سے نماز جنازہ کا طریقہ ثابت کر سکتا ہے؟
ثانیا: تفصیل سے آپ کی کیا مراد ہے ؟ اگر یہ ہے کہ بخاری میں جنازہ کے مسائل نہیں تو یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے جو صرف جھنگوی ہی بول سکتا ہے۔ کیونکہ امام بخاری نے کتاب الجنائز کے تحت (98) ابواب کو مختلف عنوان باندھ کر تقریبا ڈیڑھ صد کے قریب مرفوع احادیث درج کی ہیں‘ اگر تفصیل سے آپ کی یہ مراد ہے کہ جنازہ کے بعض مسائل بخاری میں نہیں تو ہم نے کب دعویٰ کیا ہے کہ امام بخاری نے تمام احادیث صحیحہ کو جمع کر دیا ہے۔ علاوہ ازیں کیا آپ اپنی فقہ حنفی سے امام ابو حنیفہ سے جنازہ کے تمام مسائل ثابت کر سکتے ہیں ؟ مزید رعایت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ صرف ایک ہی مسئلہ ثابت کر دو کہ نماز جنازہ پڑھتے وقت نگاہ کو کہاں رکھا جائے ؟
قارئین کرام ! امام ابو حنیفہ سے تو کجا پورے فقہاء احناف کے اقوال سے اس مسئلہ کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
نماز عید کا طریقہ
عید پڑھنے کا طریقہ بخاری میں نہیں ہے۔ (ص4)
الجواب : اولا: کیا آپ قرآن سے عید پڑھنے کا طریقہ ثابت کر سکتے ہیں ؟
ثانیا: صحیح بخاری میں کتاب العیدین کے تحت حضرت امام بخاری نے تقریبا نصف صد احادیث کو 26 مختلف عنوان کے تحت درج کر کے نماز عید کا طریقہ بیان کیا ہے۔
ثالثاً: اگر آپ کا یہ مقصود ہے کہ نماز عید کے بعض مسائل بخاری میں نہیں تو کیا آپ امام ابو حنیفہ سے نماز عید کے تمام مسائل ثابت کر سکتے ہیں ؟ اگر ثابت کر سکتے ہیں تو امام کا قول پیش کیجیے کہ ایک شخص حرم میں سے نماز عید پڑھ کر کسی ایسے ملک میں چلا جاتا ہے جہاں لوگوں نے روزہ رکھا ہوا ہے تو وہ شخص اگلے روز لوگوں کے ساتھ نماز عید پڑھے یانہ پڑھے؟
جواب کسی معتبر حوالہ سے مدلل ہونا چاہئے۔
بیٹھ کر پیشاب کرنا
بخاری میں نہیں۔ (ص 4)
الجواب : اولا: کیا آپ قرآن سے پیشاب بیٹھ کرکر نے کا حکم ثابت کر سکتے ہیں؟
ثانیاً: مسند ابی حنیفہ میں کھڑے ہوکر پیشاب کر نیکی روایت ہے۔ ( مسند امام اعظم ص 46 مترجم طبع حامد اینڈ کمپنی لاہور ) مگر بیٹھ کر کرنے کی نہیں۔ فماکان جو ابکم ھو جو ابنا۔
ثالثاً :- آپ نے بخاری پڑھی بھی ہے یا صرف او پر اوپر سے دیکھی ہی ہے ۔ بخاری کتاب الوضوء باب من تیرز على السجنین‘ اور باب التمر ز فی البیوت‘ میں بیٹھ کر قضاء حاجت کرنے کا واضح اور کھلا ثبوت موجود ہے۔ مگر اس کو سمجھنے کے لئے مقلد اعمی نہ ہونا شرط ہے۔ جھنگوی نے سات آٹھ سال تو فقہاء احناف کے اقوال کو پڑھا ہے جس سے انہیں ابواب الحیلہ تو از بر ہو گئے مگر حدیث کو صرف ایک ہی سال پڑھا تھا تو آپ کو سمجھ خاک آئی تھی۔ ایک شاگرد جلدی جلدی حدیث پڑھتا ہو گا اور استاذ اور باقی طلبہ خاموش سنتے رہے۔ جہاں احادیث صحیحہ کا رد اور اہل الرائے کا دفاع کرنا مقصود ہو تا ہو گا وہاں آپ کے شیخ الحدیث کہتے ہو نگے کہ ٹھہرو۔ یہ کہہ کر وہ پوری زندگی کی محنت شاقہ سے تیار کردہ رد احادیث کا رجسٹر نکالتے ہوئے کہتے ہو نگے ۔ لکھوا یہ شافعیہ کی دلیل ہے‘ یہ مالکیہ کی دلیل ہے‘ یہ حنابلہ کی ہے‘ جب کہ ہمارے مذھب کے خلاف ہونے کی وجہ سے منسوخ یا مؤول ہے ! اس پر دلیل یہ ہے کہ اصول کرفی ص 11 میں لکھا ہے کہ جو آیات قرآن اور فرمان نبوی علیہ التحیة والسلام ہمارے مذهب کے خلاف ہیں وہ یا منسوخ ہیں یا مؤول۔
یوں آپ نے دورہ حدیث کا پورا سال حدیث فہمی کی بجائے سنت سے مذاق کرنا اور احادیث صحیحہ کو حنبلی شافعی اور مالکی گروہوں میں تقسیم کرنے کا گر سیکھا ہے اور اسی تربیت سیہ کا اثر ہے ورنہ بخاری میں بیٹھ کر قضاء حاجت کرنے کا بیان ہے۔
جہادی تنظیم کے جھنڈے پر علامات
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنے جھنڈے پر تلوار بنائی ہے اور اس پر کلمہ لکھا ہے‘ یہ دونوں چیزیں بخاری تو کجا دنیا کی کسی کتاب سے ثابت نہیں ہیں کہ حضور علیہ السلام کے جھنڈے پر تلوار بھی ہو اور کلمہ بھی۔ بلکہ یہ بدعت ہے۔ اگر دوسرے لوگ نماز کے بعد کلمہ بلند آواز سے پڑھیں تو بدعتی ہیں اور آپ ایک نیا جھنڈا ایجاد کر لیں تو بدعتی نہ ہوں‘ یہ کہاں کا انصاف ہے۔ ( تحفہ اہل حدیث ص 4)
الجواب : اولاً: حرکت الانصار نے جو جھنڈا بنارکھا ہے وہ کس حدیث کی کتاب میں درج ہے‘ پھر اس جہادی تنظیم کے قاعدین ٹوپی کے اوپر پگڑی باندھتے ہیں یہ حدیث کی کس کتاب میں ہے ؟ آپ قمیض کے اوپر جو واسکٹ پہنتے ہیں یہ حدیث کی کسی کتاب میں مروی ہے؟
ثانیا: بھائی بدعت کی تعریف اور اس کے حکم میں دونوں فریق متفق ہیں۔ وہ یہ کہ کوئی ایسا کام دین میں ایجاد کیا جائے جس کا ثبوت شریعت میں نہ ہو تفصیل کے لئے’’ دین الحق‘‘۔ حصہ دوم دیکھئے۔
جبکہ جھنڈا شناختی امور سے تعلق رکھتا ہے۔ کہ یہ فلاں جماعت کی علامت اور شناخت ہے جس کا تعلق عبادت کے امور سے نہیں جیسے تنظیم میں امیر‘ نائب امیر‘ ناظم‘ نائب ناظم‘ ضلعی امیر وغیرہ عہدے ہیں یہ دین کے احکام و عبادات سے تعلق نہیں رکھتے‘ صرف تنظیمی امور ہیں‘ جب کہ نماز کے بعد کلمہ کا ورد عبادت میں اضافہ ولا حقہ ہے اور عبادات ممنوع الا صل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے دور مبارک میں جھنڈا ایک قسم کا نہیں تھا بلکہ مختلف قسم کے تھے۔
دو ہاتھوں سے مصافحہ کرنے کی دلیل
جهنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ بخاری شریف ص 926 ج 2 پر امام بخاری باب باندھتے ہیں۔ باب المصافحہ اس کے نیچے ہاتھ سے مصافحہ والی حدیث لاتے ہیں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ حضور علیہ السلام کے دونوں ہاتھوں کے درمیان میرا ہاتھ تھا۔ کفی این کفیه –
محمدی: بھائی آپ کی پیش کردہ حدیث میں ملاقات کے مصافحہ کا ذکر نہیں بلکہ اس میں ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت ابن مسعودؓ کے ہاتھ کو تشھد سکھاتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان لیا تھا۔
مولانا عبد الحئی لکھنوی حنفی مرحوم فرماتے ہیں کہ : اور صحیح بخاری میں جو یہ حدیث عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ’’ علمنی رسول الله وكفى بين كفيه التشهد .. مجھے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے تشھد سکھایا حالانکہ میرا ہاتھ ان کے دونوں ہاتھوں کے بیچ میں تھا۔
اس سے وہ مصافحہ جو ملاقات کے وقت کیا جاتا ہے مراد نہیں ہے بلکہ یہ ہاتھ میں ہاتھ لے لینا ویسا ہے جیسا کہ بزرگ چھوٹوں کو کوئی چیز تعلیم دینے کے وقت ہاتھ میں ہاتھ لے لیتے ہیں۔
( مجموعة الفتاوی ص 119 ج 1)
اور اگر آپ اس کو ملاقات کے مصافحہ پر ہی محمول کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک ہی ہاتھ سے مصافحہ کیا تھا۔ جیسا کہ کفی سے ثابت ہوتا ہے۔
حنفی: امام بخاری اس حدیث کو باب المصافحہ میں لائے ہیں اور کفی جنس ہے جو قلیل و کثیر پر بولا جاتا ہے اور مراد اس سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے دونوں ہاتھ ہیں۔
محمد ی: امام بخاری کے باب المصافحہ سے لغوی مصافحہ مراد ہے کیونکہ آئمہ لغت نے صراحت کی ہے کہ مصافحہ کے معنی بطن کف کو بطن کف سے ملانا ۔ (دیکھیے ‘تاج العروس ص 181 ج 2 و لسان العرب ص 514 ج2)
خود حضرت امام بخاری نے مذکورہ باب کے بعد باب الاخذ بالیدین کے عنوان سے اسے بیان کیا ہے اور آپ کے علامہ سہارنپوری اس کے حاشیہ میں فرماتے ہیں:
(( ولما كان الاخذ باليد يجوز ان يقع من غير مصافحة افرده بهذا الباب كذا في الفتح والقسطلانی)) ( مامش بخاری ص 926 ج2)
یعنی فتح اور قسطلانی میں ہے کہ جب ہاتھ پکڑنا ( مقصود) تھا تو ممکن ہے کہ یہ مصافحہ (ملاقات کے وقت جو کیا جاتا ہے ) وہ نہ ہو اور اسی وجہ سے امام بخاری نے یہ باب باندھا ہے۔
باقی رہا آپ کا اسے جنس ٹھہرا کر اپنا مقصد حاصل کرنا تو اس کے بارے میں پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ یہ غیر مسلم ہے‘ مزید عرض ہے کہ لفظ کف مفرد کا صیغہ ہے اس سے تثنیہ مراد نہیں لیا جا سکتا۔ علاوہ ازیں اگر بالفرض اس بات کو تسلیم بھی کر لایا جائے کہ کفی سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے دونوں ہاتھ مراد ہیں تو کفی بین کفیہ کا معنی یہ بنے گا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے دونوں ہاتھ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھے۔ تو اس طرح تو مصافحہ کی صورت بنتی نہیں کیونکہ ابن مسعود کی ہتھیلی تو رسول اللہ کی ہتھیلی کے ساتھ مس بی نہیں کیا۔ اس طرح مصافحہ کرنے کے تو آپ حضرات بھی قائل نہیں ہیں۔
حنفی: پیارے! آپ ذرا میری طرف ہاتھ بڑھائیں۔ دونوں ہاتھ آگے کریں دیکھو مصافحہ ہو رہا ہے‘ آپ کے دونوں ہاتھ ہیں لیکن میرے دو ہاتھوں کے درمیان جو ہاتھ آ رہا ہے وہ صرف ایک ہی ہاتھ ہے دوسرا تو باہر ہے اسی طرح میرا بھی ایک ہی ہاتھ آپ کے دو ہاتھوں کے درمیان ہے‘ اس سے یہ کیسے لازم آیا ہے کہ صحابی نے ایک ہاتھ دیا تھا۔
صحابہ کرام تو آپ صلى الله عليه وسلم کے اشارہ ابرو پر مر مٹنے پر تیار ہو جاتے تھے ان سے یہ توقع کرنا کہ حضور علیہ السلام دو ہاتھ دیں اور صحابی ایک ہاتھ بڑھائے نا ممکنات میں سے ہے بفرض محال ایک منٹ کے لیے تسلیم کر لیتے ہیں کہ صحابی نے ایک ہاتھ دیا تھا تو پھر بھی ہمارے لیے اسوہ رسولﷺ مقدم ہے بہت سارے مقامات پر جب اہل سنت اقوال صحابہ پیش کرتے ہیں تو تم فورا یہ کہہ کر ٹھکرا دیتے ہو کہ صحابی کی بات حجت نہیں ہم نہیں مانتے۔ تراویح طلاق وغیرہ مسائل میں۔
محمدی: اس استدلال میں آپ نے کفی کو جنس قرار دے کر مذ کورہ کیفیت مصافحہ کی بیان کی ہے مگر آپ نے اس میں ایک غلطی تو یہ کی ہے کہ مفرد کو تثنیہ بنایا ہے اور دوسری بیں کفیہ کی صفت کو ترک کر دیا کیونکہ آپ اس سے مفرد مراد لیں یا تثنیہ دونوں صورتوں میں الفاظ حدیث کے موافق بین کفیہ (دونوں ہتھیلیوں کے درمیان ) ہونا ضروری ہے مگر آپ الٹی گنگا بہاتے ہیں اور مفرد سے تشبیہ تو بنایا ہی تھا بین کفیہ کو نظر انداز کر دیا۔ پھر اس استدلال میں آپ نے قرآن کی کوئی آیت یا حدیث سے کوئی تائید‘ آئمہ لغت کا کوئی قول پیش نہیں کیا محض آپ نے جذباتی انداز میں یہ کہہ کر جان چھڑائی ہے کہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آنحضرت ﷺ تو دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کریں اور صحابی ایک ہاتھ سے مصافحہ کرے۔
عزیز بھائی یہ مسلم ہے کہ صحابہ کرام رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا از حدادب و احترام کرتے تھے‘ مگر کسی ادب و احترام کا ان سے ثابت ہونا بھی تو بیان کیا جائے اور یہ بھی شریعت کے واضح دلائل سے ثابت کیا جائے کہ ایک ہاتھ سے مصافحہ ادب و احترام کے منافی ہے۔ یہ آپ کا سارا ہوائی قلعہ ہے‘ جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور دلائل کے بالمقابل اس کی حیثیت پر کاہ کی بھی نہیں۔ یہ بھی خوب فرمایا کہ اگر تسلیم کر لیا جائے کہ صحابی نے ایک ہاتھ سے مصافحہ کیا تھا تو تب بھی اسوۂ رسول اللہ ﷺ ہمارے لئے مقدم ہے یہ محض آپ کا ڈھکوسلہ ہے۔ کیونکہ اصول کی کتابوں میں واضح لکھا ہے کہ جس فعل پر رسول اللہﷺ خاموشی اختیار کریں وہ حکماً مرفوع ہوتا ہے۔ مگر یہاں صحافی کا فعل خاص رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہے اسے محض ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا فعل قرار دے کر رد کرنا آپ جیسے مقلدین کا ہی کام ہے، پھر آپ نے اس میں کفلی کو مفرد تسلیم کر لیا ہے جس سے آپ کے تمام دعوے باطل ہو کر زمین بوس ہو گئے ہیں‘ باقی رہا یہ امر کہ رسول اللہ ﷺ نے تو دونوں ہاتھوں سے ہی مصافحہ کیا تھا، تو اس کے متعلق عرض کیا جاچکا ہے کہ یہ مصافحہ ملاقات کے وقت پر نہ تھا۔
حنفی: بھائی جان افاتحہ خلف الامام کے مسئلہ میں امام بخاری نے جو باب (بخاری ص 104 ج 1) پر باندھا ہے جب مسئلہ فاتحہ کا آتا ہے تو اس وقت باب مانے جاتے ہیں یہاں باب کا انکار کیوں ہو گیا ہے ؟ یہ تو منون ببعض الكتاب وتكفرون ببعض ‘‘ كارويه آخر کس کا تھا؟ دوسر امسئلہ رفع یدین کے ترک میں جب اہل سنت والجماعت‘ مست گھوڑوں والی روایت پیش کرتے ہیں اس وقت ہر غیر مقلد وہابی چیختا ہے کہ (مسلم ص 181 ج 1 ) پر باب دیکھو وہاں باب نہ بخاری کا ہے نہ مسلم کا بلکہ امام نووی نے باندھا ہے وہ بھی باب الامر بالسكون فی الصلوۃ نماز میں سکون اختیار کرنے کا باب۔ بھائی صاحب اس وقت آپ کو بڑے باب یاد آتے ہیں اور جب اپنے خلاف پڑا امام بخاری کا باب تو فور آکہہ دیا ہم باب نہیں مانتے۔ ( تحفہ اہل حدیث ص 6)
محمدی: مسئلہ کی بات تو ہوتی ہی رہے گی، خیر خواہی کی نیت سے آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ نے قرآن کی آیت کو غلط لکھا ہے درست الفاظ افتؤمنون کے ہیں ہمارے خلاف باتیں بنانے میں ہی مصروف نہ رہا کریں قرآن کی بھی تلاوت کیا کریں اللہ توفیق دے۔
جھنگوی صاحب یہ بتائیں کہ مذکورہ آیت میں الکتاب سے مراد کتاب اللہ ہے یا بخاری؟ اگر بخاری ہے تو فاتحہ خلف الامام کے باب کو تو آپ تسلیم نہیں کرتے (حالانکہ وہاں امام بخاری نے واضح مرفوع احادیث پیش کی ہیں اور یہاں باب کو ماننا تو کجا منوا بھی رہے ہو ۔ آخر آپ میں یہ دور نگی کیوں ہے ؟ باقی رہا ہمارا معاملہ تو یہاں ہم مصافحہ کے باب کو مانتے ہیں مگر اسے لغوی معنی پر محمول کرتے ہیں جیسا کہ علامہ سہارنپوری کی عبارت پہلے نقل کی جا چکی ہے ویسے آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ مذکورہ ارشاد ربانی کسی امام کے اقوال کو ماننے کے بارے میں نہیں بلکہ کتاب اللہ کے لیے ہیں۔ لہذا آپ کی یہ تفسیر بالرائے ہے‘ دوسرے لفظوں میں قرآن کریم پر آپ نے افتراء باندھا ہے آخر آپ کو اس قدر جھوٹ بولنے کی عادت کیوں ہے؟
اس بات کی خبر ہمیں پہلے سے ہے کہ مسلم پر ابواب علامہ نووی نے باندھے ہیں‘ مگر آپ کے رئیس المناظرین تو کہتے ہیں مسلم پر ابواب امام مسلم نے منعقد کیے تھے ۔ مدار الحق ص 38 ‘اسے آپ جہالت سے تعبیر کریں یا علم سے‘ یہ ہم آپ کی مرضی پر چھوڑتے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ ہم آپ کے استدلال کی خامی بیان کرتے ہوئے صحیح مسلم کی تبو یب سے تائید ی طور پر استدلال کرتے ہیں‘ مگر یہ بات مسلم نہیں کہ ہمار لاستند لال فقط علامہ نووی کے تراجم ابواب سے ہوتا ہے کیونکہ ہم اس پر مفصل حدیث نقل کر کے آپ کے ڈھکوسلے کو رد کرتے ہیں۔ چنانچہ (صحیح مسلم ص 181 ج 1 ) میں ہی مفصل حدیث ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تو اختتام نماز پر السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے ہوئے ہاتھ سے بھی اشارہ کرتے تھے۔ یہ دیکھ کر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تمہیں کیا ہو گیا ہے تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہوتی ہیں۔ تم میں سے جب کوئی نماز ختم کرے تو اپنے بھائی کی طرف منہ کر کے صرف زبان سے السلام علیکم ورحمتہ للہ کہے اور ہاتھ سے اشارہ نہ کرے۔ انتھی
اس مفصل حدیث نے آپ کی پیش کردہ مختصر حدیث کی تفسیر کر دی ہے کہ اس میں سلام کے وقت ہاتھوں کو اٹھانے سے منع کیا گیا ہے تاکہ رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرنے کی ممانعت کے بارے میں یہ حدیث ہے۔ اس صحیح صریح حدیث کی وجہ سے ہی دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا محمود حسن خاں دیو بندی فرماتے ہیں کہ باقی اذ ناب خیل کی روایت سے جواب دینا بروئے انصاف درست نہیں‘ کیونکہ وہ سلام کے بارہ میں ہے کہ صحابہ فرماتے ہیں کہ ہم بوقت سلام نماز اشارہ بالید بھی کرتے تھے ، آپ ﷺ نے اس کو منع فرما دیا۔ (الورد الشذی ص63)
مولانا محمد تقی عثما نی حنفی دیوبندی شیخ الحدیث مدرسہ دارالعلوم کراچی فرماتے ہیں کہ: لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس حدیث سے حنفیہ کا استدلال مشتبہ اور کمزور ہے‘ حقیقت یہی ہے کہ حدیث ایک ہی ہے‘ اور رفع عند السلام سے متعلق ہے، کیونکہ ابن القبطيه (راوی حدیث ) کی روایت میں سلام کے وقت کی جو تصریح موجود ہے اس کی موجودگی میں ظاہر اور متبادر یہی ہے کہ حضرت جابر کی یہ حدیث رفع عند السلام ہی سے. متعلق ہے اور دونوں حدیثوں کو الگ الگ قرار دینا جب کہ دونوں کا راوی بھی ایک ہے اور متن بھی قریب قریب ہے بعد سے خالی نہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ حدیث ایک ہی ہے اور رفع عند السلام سے متعلق ہے۔ ابن القبطیہ کا طریق مفصل ہے اور دوسرا طریق مختصر اور مجمل۔ لہذا دوسرے طریق کو پہلے طریق پر ہی محمول کرنا چاہیے شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ نے اس حدیث کو حنفیہ کے دلائل میں ذکر نہیں کیا۔ (درس ترمذ ی ص 36 37 جلد دوم طبع کراچی 1992ء)
ان دونوں عبارات سے جس طرح ہمارے موقف کی تائید ہوتی ہے وہ کسی تشریح کی محتاج نہیں‘ صاف واضح ہے کہ حنفیہ کی پیش کردہ روایت مختصر ہے‘ مفصل حدیث میں نماز کے اختتام پر سلام پھیرتے ہوئے رفع الیدین کرنے کی ممانعت سے اس کا تعلق ہے اور رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین کرنے کی ممانعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور اس سے حنفیہ کا استدلال انصاف کے منافی ہے۔ مگر افسوس کہ حضرت جھنگوی صاحب جھوٹ بولتے ہوئے ذرا بھر حیا نہیں کرتے کہ حنفیہ کے استدلال کو اہل حدیث علامہ نووی کے تراجم ابواب سے ہی چیخ چیخ کر رد کرتے ہیں پھر مزید تکلیف دہ بات یہ ہے کہ غلط بیانی کرتے ہوئے مفصل حدیث کو چھپارہے ہیں اور اپنے اکابر کی تصریحات سے چشم پوشی کرتے ہوئے اہل حدیث پر طعن کر رہے ہیں‘ اس پر انہیں شرم ہے نہ حیا۔
حنفی: بھا ئی ایک ہاتھ ’ید‘ کا معنی کرنا آپ کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے المسلم من سلم المسلمون من لسانه ویدہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔ تو آپ کے نزدیک معنی یہ ہو گا کہ دائیں ہاتھ سے کسی مسلمان کو تنگ نہ کرے ‘بائیں سے اس کی جیب کاٹ لے‘ چھری مار کے کسی کو ہلاک کر دے یہ جائز ہوگا۔
محمدی: سبحان اللہ میرے بھائی ہم نے کب دعویٰ کیا ہے کہ ید کا لفظ ہر مقام پر ہی ایک ہاتھ کے لئے مستعمل ہے۔ یہ فریقین کو مسلم ہے کہ قرینہ سے معنی بدل جاتا ہے اس لفظ ید کوہی لے لیجئے‘ یہ سورہ بقرہ آیت 237 میں قوت قبضہ اور ملکیت کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اور سورہ المجادلہ آیت 12 میں بھنی پہلے اور سورہ یسین آیت 9 میں بمعنی سامنے اور سورہ بقرہ آیت 66 میں بمعنی موجود کے استعمال ہوا ہے‘ تو کیا آپ ان تمام مقامات پر ید کا معنی دو ہاتھ کریں گے۔
سورہ مائدہ آیت 38 میں چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے تو کیا آپ یہاں ید کا یہ معنی کریں گے کہ چور کے دونوں ہاتھ کاٹ دو‘ کچھ اللہ کا خوف کیجئے۔ آخر مر کر مٹی میں دفن ہونا ہے‘ وہاں ان دھڑے بندیوں نے کام نہیں آنا۔
جب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ کسی مشترک لفظ کے معنی میں قرینہ کی ضرورت ہوتی ہے تو آپ ید مفرد کو تثنیہ کے معنی لینے کے لیے قرینہ کا ثبوت دیں ورنہ یہ اصلی اور وضعی معنی کے لئے قائم رہے گا۔ اور بلا قرینہ آپ کو مفرد سے تثنیہ کوئی بنانے نہیں دے گا۔ باقی آپ نے جو حدیث پیش کر کے اس کے معنی کے ساتھ مذاق کیا ہے وہ مردود ہے۔ کیونکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں جو ابن حبان رقم الحدیث (510) اور متدرک حاکم 11/1 و مسند احمد 154/3 میں صحیح سند سے مروی یہ الفاظ بھی ہیں:
((المومن من أمنه الناس ))
یعنی مومن وہ ہے جس سے لوگ محفوظ ہوں۔
حاکم وذ ہبی اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری 46/1 میں اس کو صحیح کہا ہے‘ اور مزاری نے ‘ جيد ‘الترغیب 354/3 علاوہ ازیں یہ حدیث متعد د اور صحابہ کرام سے مروی ہے۔
ظاہر ہے کہ اگر کسی کی بائیں ہاتھ سے جیب کاٹ لی جائے یا چھری ماری جائے تو وہ امن میں نہ ہو گا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ آپ کی پیش کردہ حدیث میں لفظ ید بطور محاورہ بمعنی قوت استعمال ہوا ہے وہ خواہ سیاسی ہو یا‘ اخلاقی یا‘ کوئی اور بہر صورت تم سے دوسرا مسلمان محفوظ ہونا چاہیے یہ نہیں کہ تم زبان اور ہاتھ سے تو کچھ نہ کہو مگر اخبار میں خبر شائع کروا دو کہ یہ بد کار ہے وغیرہ۔ یا پولیس سے رابطہ کر کے کسی پر جھوٹا چوری کا پرچہ درج کروا کر اس کی چمڑی اتر واد بین و غیرہ۔ یہ تمام چیزیں اس حدیث کے زمرہ میں آتی ہیں۔ لیکن ان کی سمجھ کے لئے اندھا مقلد نہ ہونا شرط ہے۔
حنفی: بھائی انگریز کہتا ہے گڈمار ننگ اور پھر ایک ہاتھ ملاتا ہے۔
محمدی: بھائی انگریز سے آپ کی کیا مراد ہے ؟ کیونکہ انگریزوں میں تو مسلمان بھی ہیں اور اگر عیسائی مراد ہیں تب بھی آپ کی یہ بات غلط ہے‘ کیونکہ آپ کی بات کا مقصد تو یہ ہوا کہ عیسائی جو بھی عمل کریں ہم اس کی نفی کریں۔ اگر وہ اللہ کو تسلیم کرے یا نبوت کا قائل ہو یا یہ کہے کہ جھوٹ نہ بولو‘ کسی کا حق نہ کھا جاؤ‘ تو ہم ان تمام چیزوں کی نفی کریں ویسے آپ عالم ہیں کبھی کلام الہی کو پڑھا بھی ہے کہ نہیں اس میں تو واضح ارشاد ہے کہ
(وقل يا هل الكتب تعالوا الى كلمة سواء بيننا وبينكم ) (سوره ال عمران آیت 64)
یعنی اے نبی کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے اس کی طرف آؤ!
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ اہل کتاب سے بعض چیزیں مسلمانوں کی مشترک ہیں۔ لہذا آپ پر لازم ہے کہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے کو آپ خالص عیسائیوں کا طریقہ ثابت کریں اور قرآن یا حدیث سے ایک ہاتھ کی نفی ثابت کریں۔