سوال کیا عورت اکیلی ڈرائیور کے ساتھ مارکیٹ یا سکول وکالج وغیرہ جاسکتی ہے؟ براہ مہربانی دلائل سے بتا ئیں۔
(ایک بہن، اسلام آباد)
جواب:
ہمارے معاشرے میں بہت سی برائیاں اس لیے پروان چڑھ رہی ہیں کہ ہم ان برائیوں کے اسباب پر نظر رکھنے کی بجائے نظر چراتے ہیں، پھر اس وجہ سے برآمد ہونے والے نتائج سے بھی کلی غافل ہیں۔ اجنبی ڈرائیور کے ساتھ اپنی بہن، بیوی یا بیٹی وغیرہ کو سفر پر روانہ کر دینا اپنی ذمہ داری یا ذاتی معاملے میں دوسرے کو شریک کرنے کے مترادف ہے اور یہ بنیادی غلطی دینی و دنیاوی اعتبار سے انتہائی خطرناک ہے۔
عورت کا تنہا اجنبی ڈرائیور کے ساتھ کہیں جانا دو وجہ سے حرام ہے:
➊ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
(( لَا تُسَافِرِ امْرَأَةٌ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ))
’’کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔“
(صحیح مسلم: 3272/1341)
اس پر اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ بعض احادیث میں دو دن یا دورات کی مسافت کا سفر طے کرنے کا ذکر ہے، لہذا تھوڑا اسفر عورت بغیر محرم ( ڈرائیور کے ساتھ ) کر سکتی ہے تو ایسے احباب دوسری وجہ کو بھی ملحوظ رکھیں جو درج ذیل ہے:
➋ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا وَ مَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ))
’’کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ ہر گز تنہائی اختیار نہ کرے، الا یہ کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو۔‘‘
(صحیح مسلم: 3274/1341)
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
(( أَلَا لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ))
’’آگاہ رہو! جو آدمی کسی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرتا ہے تو ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے۔‘‘
(صحيح، سنن الترمذي: 1171)
اگر کوئی عورت محرم کے بغیر تنہا ڈرائیور کے ساتھ سفر کرے گی تو ان دونوں کو خلوت میسر آئے گی اور ان دونوں کے درمیان شیطان ہو گا جو انھیں گناہ پر اکسائے گا۔ خلاصہ کلام یہ کہ عورت تنہا اجنبی ڈرائیور کے ساتھ سفر نہیں کر سکتی کیونکہ شریعت اسلامیہ میں اس کی ممانعت ہے، علاوہ ازیں یہ خلوت کا باعث ہے جو حرام ہے، لہذا خواتین کو تنہا ڈرائیور کے ساتھ سفر کرنے سے کلی اجتناب کرنا چاہیے۔
پریشانی اور غم کی دعا
سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ( اکثر ) یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
(( اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحُزْنِ وَالْعَجْزِ وَ الْكَسَلِ وَ الْجُبْنِ وَ الْبُخْلِ وَ ضَلَعِ الدَّيْنِ وَ غَلَبَةِ الرِّجَالِ . ))
اے الله ! میں غم والم ، عاجزی وسستی، کنجوسی و بزدلی، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غالب آنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔“
(صحيح البخاري: 6369)