إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
فریقین کے درمیان فیصلہ کرنے سے پہلے ان کا مدعا سننا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ ﴿٧٨﴾ فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۚ وَكُنَّا فَاعِلِينَ ﴿٧٩﴾
(21-الأنبياء:78، 79)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور (یاد کریں ) داود اور سلیمان کو جب وہ دونوں اس کھیتی کی بابت فیصلہ کر رہے تھے جس رات کو (ایک) قوم کی بکریاں چر گئی تھیں، اور ہم ان کے فیصلے کے شاہد تھے۔ چنانچہ ہم نے وہ (فیصلہ ) سلیمان کو سمجھا دیا، اور ہر ایک کو ہم نے حکم (نبوت ) اور علم دیا، اور ہم نے داود کے ساتھ پہاڑ اور پرندے مسخر کیے تھے، وہ تسبیح کرتے تھے، اور ( یہ ) ہم ہی کرنے والے تھے ۔“
حدیث 1
«عن على رضى الله عنه قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن قاضيا، فقلت: يارسول الله ترسلني وأنا حديث السن ولا علم لي بالقضاء؟ فقال: إن الله سيهدي قلبك ويثبت لسانك ، فإذا جلس بين يديك الخصمان فلا تقضين حتى تسمع من الآخر كما سمعت من الأول ، فإنه أحرى أن يتبين لك القضاء قال فما زلت قاضبا ، أو ما شككت فى قضاء بعد»
سنن ابو داؤد، رقم : 3582، سنن ترمذی، رقم : 1331، مسند احمد : 1344۔ محدث البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے۔
”حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا : مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاضی بنا کر یمن کی طرف روانہ کیا تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! آپ مجھے روانہ کر رہے ہیں اور میں نو عمر ہوں، مجھے فیصلوں کا علم نہیں ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تحقیق اللہ تعالیٰ تیرے دل کو ہدایت دے گا۔ اور تیری زبان کو ثابت رکھے گا۔ پس جب تیرے سامنے دو فریق بیٹھ جائیں تو ان کے درمیان فیصلہ نہ کر یہاں تک کہ تو دوسرے کا بیان سن لے جیسا تو نے پہلے سے سنا۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ فیصلہ تیرے لیے واضح ہو جائے۔“
جہالت اور لاعلمی کے باوجود فیصلہ کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾
(5-المائدة:47)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے کے مطابق فیصلے نہ کریں تو وہی نا فرمان ہیں۔“
حدیث 2
«وعن ابن بريدة عن أبيه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: القضاة ثلاثة واحد فى الجنة ، واثنان فى النار ، فأما الذى فى الجنة فرجل عرف الحق فقضي به ، ورجل عرف الحق فجار فى الحكم فهوفي النار، ورجل قضى للناس على جهل فهو فى النار»
سنن ابوداؤد، رقم : 3573 ، سنن ترمذی، رقم : 1322 سنن ابن ماجه ، رقم : 2315 ۔ محدث البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے۔
” اور حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد بریدہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں: ایک جنت میں جائے گا اور دو آگ میں داخل ہوں گے۔ پس وہ جو جنت میں داخل ہوگا تو وہ قاضی ہے جس نے حق کو پہچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا۔ دوسرا وہ جس نے حق کو پہچانا اور فیصلہ کرنے میں ظلم کیا تو یہ آگ میں داخل ہوگا ۔ اور تیسرا وہ جو جہالت اور لا علمی کے باوجود لوگوں کے درمیان فیصلے دینے لگا تو وہ آگ میں داخل ہوگا۔“
امیر اور حاکم حکومت کو ذلیل کرنے والوں کی سزا
حدیث 3
«وعن ربعي بن حراش قال: انطلقت إلى حذيفة بالمدائن ليالي سار الناس إلى عثمان فقال: يا ربعي ! ما فعل قومك؟ قال: قلت: عن أى بالهم تسأل؟ قال: من خرج منهم إلى هذا الرجل ، فسميت رجالا فيمن خرج إليه ، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من فارق الجماعة ، واستذل الإمارة، لقي الله عز وجل ولا وجه له عنده »
مسند احمد : 387/5، رقم : 23283، مستدرك حاكم : 119/1۔ شیخ شعیب نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور ربعی بن حراش کہتے ہیں: جن ایام میں لوگ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی مخالفت میں بغاوت کر کے ان کی طرف روانہ ہوئے تو میں انہی راتوں میں سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں مدائن گیا ، انہوں نے مجھ سے کہا: ربعی ! تمہاری قوم نے کیا کیا ہے؟ میں نے کہا: آپ ان کے کس فعل کے بارے میں پوچھ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: کون لوگ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف گئے ہیں؟ سو میں نے جانے والوں میں سے کچھ افراد کے نام ذکر کر دیئے ، انہوں نے کہا: میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس نے مسلمانوں کی جماعت سے علیحدگی اختیار کی اور امارت و حکومت کو ذلیل کرنے کی کوشش کی ، وہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں جا کر ملے گا کہ اللہ کے ہاں اس کی کوئی تو قیر نہیں ہوگی۔ “
حکمرانوں کی خیر خواہی کرنا
حدیث 4
«وعن أنس بن مالك ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: نضر الله عبدا سمع مقالتي هذه فحملها ، فرب حامل الفقه فيه غير فقيه، ورب حامل الفقه إلى من هو أفقه منه ، ثلاث لا يغل عليهن صدر مسلم، إخلاص العمل لله عز وجل، ومناصحة أولى الأمر، ولزوم جماعة المسلمين، فإن دعوتهم تحيط من ورائهم»
مسند احمد : 225/3 ، رقم : 13349، سنن ابن ماجه ، رقم : 236۔ شیخ شعیب نے اسے صحیح لغیرہ قرار دیا ہے۔
” اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اس بندے کو تروتازہ اور خوش و خرم رکھے، جس نے میری حدیث سن کر اسے دوسرے تک پہنچایا، فقہی اور علمی بات کو لے جانے والے بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو خود فقیہ نہیں ہوتے اور کئی لوگ اپنے سے زیادہ فقیہ تک احادیث کو پہنچاتے ہیں، تین باتیں ایسی ہیں، جن پر مسلمان کا دل خیانت نہیں کرتا، خالص اللہ تعالیٰ کے لیے عمل کرنا، حکمرانوں کی خیر خواہی کرنا اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنا، مسلمانوں کی دعا دوسرے مسلمانوں کو گھیر کر رکھتی ہے۔“
حکمرانوں کی اطاعت کرنا
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾
(4-النساء:59)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم اطاعت کرو اللہ کی، اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں۔ پھر اگر تم باہم کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو، اگر تم واقعی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے۔“
حدیث 5
«وعن عبادة بن الصامت، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : عليك السمع والطاعة فى عسرك ويسرك ، ومنشطك ومكرهك، وأثرة عليك ولا تنازع الأمر أهله، وإن رأيت أن لك . زاد فى رواية : مالم يأمروك بإثم بواح»
صحیح بخاری، رقم : 7055، 7056 ، صحیح مسلم، رقم : 1470، مسند احمد : 321/5، رقم : 22735 .
”اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مشکل ہو یا آسانی خوشی ہو یا غمی اور خواہ تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے ، تم پر لازم ہے کہ تم حکمران کی بات سنو اور اس کو تسلیم کرو اور حکومت کے بارے میں حکومت والوں سے جھگڑا نہ کرو اور تم ان کی اطاعت کرو، جب تک وہ تمہیں صریح گناہ کا حکم نہ دیں۔ “
حدیث 6
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه يقول: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من أطاعني فقد أطاع الله ، ومن عصاني فقد عصى الله، ومن أطاع أميرى فقد أطاعني ومن عصى أميرى فقد عصاني»
صحیح بخاری، رقم : 7137.
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے گویا اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے گویا اللہ کی نافرمانی کی۔ جس نے میرے امیر کی بات مانی اس نے میری بات مانی اور جس نے میرے امیر کی خلاف ورزی کی اس نے گویا میری خلاف ورزی کی ۔ “
عورت کی حکمرانی جائز نہیں
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ ﴿٢٢﴾ إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ ﴿٢٣﴾ وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ ﴿٢٤﴾
(27-النمل:22 تا24 )
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”ابھی کوئی زیادہ دیر نہیں ٹھہرا تھا کہ ( ہد ہد آ گیا اور ) اس نے کہا: میں نے (وہ کچھ ) جان لیا ہے جس کے بارے میں آپ نہیں جانتے، اور میں آپ کے پاس سبا سے ایک سچی خبر لایا ہوں۔ بلاشبہ میں نے دیکھا کہ ایک عورت ان پر حکومت کرتی ہے، اور اسے (ضرورت کی) ہر چیز عطا کی گئی ہے، اور اس کا تخت عظیم الشان ہے۔ میں نے اسے اور اس کی قوم کو دیکھا کہ وہ اللہ کے سوا سورج کو سجدہ کرتے ہیں، اور شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے پرکشش بنا دیے ہیں، پھر انھیں راہ ( حق ) سے روک دیا ہے، چنانچہ وہ ہدایت نہیں پاتے ۔“
حدیث 7
«وعن أبى بكرة قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : من يلي أمر فارس قالو: امرأة، قال: ما أفلح قوم يلى أمرهم امرأة»
مسند احمد : 50/5، رقم : 20805 ، مسند الطیالسی، رقم : 878۔ شیخ شعیب نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایران کا حکمران کون ہے؟ صحابہ نے بتلایا کہ ایک عورت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ قوم فلاح نہیں پاسکتی ، جس پر عورت حکمران ہو۔ “
بے وقوف اور نا اہل حکمرانوں کا بیان
قَالَ الله تَعَالَى: ﴿فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا﴾
(19-مريم:59)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” پھر ان کے بعد ناخلف ( نالائق ان کے ) جانشین ہوئے، جنھوں نے نماز ضائع کی اور خواہشات کی پیروی کی چنانچہ جلد ہی (آگے ) وہ ہلاکت اور گمراہی (کے انجام) سے دوچار ہوں گے ۔ “
حدیث 8
«وعن جابر بن عبد الله أن النبى صلى الله عليه وسلم قال لكعب بن عجرة: أعادك الله من إمارة السفهاء – قال: وما إمارة السفهاء؟ قال: أمراء يكونون بعدى لا يقتدون بهديي ، ولا يستنون بسبتي فمن صدقهم بكذبهم ، وأعانهم على ظلمهم، فأولئك ليسوا مني ، ولست منهم ، ولا يردوا على حوضي ، ومن لم يصدقهم بكذبهم، ولم يعنهم على ظلمهم، فأولئك منى وأنا منهم ، وسيردوا على حوضى»
مسند احمد : 321/13، رقم : 14441 ، صحیح ابن حبان، رقم: 4514، مستدرك الحاكم : 422/4، سنن الدارمی، رقم : 2776۔ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت جابر بن عبد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: اللہ تمہیں بے وقوفوں اور نااہل لوگوں کی حکمرانی سے بچائے۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: بے وقوفوں کی حکومت سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو امراء میرے بعد آئیں گے، وہ میرے طریقے کی اقتداء نہیں کریں گے اور میری سنتوں پر عمل نہیں کریں گے، جس نے ان کے جھوٹے ہونے کے باوجود ان کی تصدیق کی اور ان کے ظلم وجور کے باوجود ان کی مدد کی ، ان کا مجھ سے اور میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوگا اور نہ وہ مجھ پر میرے حوض پر آئیں گے اور جس نے ان کے جھوٹ کی تصدیق نہیں کی اور نہ ان کے ظلم پر ان کی اعانت نہ کی ، وہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں اور یہی لوگ میرے پاس میرے حوض پر آئیں گے۔ “
حکمران اپنی رعایا کو دھوکہ نہ دے
حدیث 9
«وعن الحسن أن معقل بن يسار اشتكى ، فدخل عليه عبد الله بن زياد يعني يعوده ، فقال: أما إني أحدثك حديثا لم أكن حدثتك به ، إنى سمعت رسول الله ، أو إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يسترعى الله تبارك وتعالى عبدا رعية ، فيموت يوم يموت وهو لها غاش إلا حرم الله عليه الجنة – وفي رواية فهو فى النار»
صحیح بخاری، رقم : 7150 ، صحیح مسلم، رقم : 142، مسند احمد : 25/5، رقم :20291.
”اور جناب حسن سے روایت ہے کہ سید نا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ بیمار پڑ گئے اور عبید اللہ بن زیاد ان کی تیماداری کے لیے آئے ، سید نا معقل رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تم کو ایک حدیث سناتا ہوں، جو میں نے پہلے نہیں سنائی تھی ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو رعایا پر حکمرانی عطا فرمائے ، لیکن اگر وہ حکمران اس حال میں مرے کہ وہ اپنی رعایا کو دھوکا دیتا تھا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کر دیتا ہے۔ ایک روایت میں ہے: وہ جہنمی ہے۔“
امارت طلب کرنے اور اس کا حرص رکھنے کی ممانعت
حدیث 10
«وعن عبد الرحمن بن سمرة قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم : يا عبد الرحمن لا تسأل الإمارة ، فإنك إن أعطيتها عن مسألة ، أكلت إليها ، وإن أعطيتها عن غير مسألة ، أعنت عليها»
صحیح مسلم، رقم الحديث : 4715.
”اور حضرت عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سے ارشاد فرمایا: عبدالرحمن ! امانت طلب نہ کرنا کیونکہ اگر تم کو طلب کرنے سے (امارت) ملی تو تم اس کے حوالے کر دیے جاؤ گے (اس کی تمام تر ذمہ داریاں خود اٹھاؤ گے، اللہ کی مدد شامل نہ ہو گی ) اور اگر تمہیں مانگے بغیر ملی تو (اللہ کی طرف سے ) تمہاری اعانت ہوگی۔ “
حاکم لڑنے والے دو فریقوں کے درمیان صلح کرائے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾
(49-الحجرات:10)
”اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: مومن تو بھائی ہی ہیں، پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“
حدیث 11
«وعن همام بن منبه قال: هذا ما حدثنا أبو هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فذكر أحاديث منها: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : اشترى رجل من رجل عقارا له ، فوجد الرجل الذى اشترى العقار فى عقاره جرة فيها ذهب ، فقال له الذى اشترى العقار: خذ ذهبك مني ، إنما اشتريت منك الأرض ، ولم أبتع منك الذهب ، فقال الذى شرى الأرض: إنما بعتك الأرض وما فيها ، قال: فتحاكما إلى رجل ، فقال الذى تحاكما إليه : ألكما ولد؟ فقال أحدهما: لى غلام ، وقال الآخر: لي جارية ، قال: أنكحوا الغلام الجارية . وأنفقوا على أنفسكما منه ، وتصدقا »
صحیح مسلم، رقم : 4497.
”اور ہمام بن منبہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: یہ احادیث ہیں جو ہمیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیں، انہوں نے چند احادیث بیان کیں، ان میں یہ بھی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک آدمی نے دوسرے آدمی سے اس کی زمین خریدی تو اس آدمی کو جس نے زمین خریدی تھی، اپنی زمین میں ایک گھڑا ملا جس میں سونا تھا جس نے زمین خریدی تھی، اس نے اس ( بیچنے والے) سے کہا: اپنا سونا مجھ سے لے لو، میں نے تم سے زمین خریدی تھی، سونا نہیں خریدا تھا۔ اس پر زمین بیچنے والے نے کہا: میں نے تو زمین اور اس میں جو کچھ تھا تمہیں بیچ دیا تھا۔ کہا: وہ دونوں جھگڑا لے کر ایک شخص کے پاس گئے ، تو جس کے پاس وہ جھگڑا لے کر گئے تھے اس نے کہا: کیا تمہاری اولاد ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا: میرا ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا: میری ایک لڑکی ہے۔ تو اس نے کہا: (اس سونے کے ذریعے سے) لڑکے کا لڑکی سے نکاح کر دو اور اس میں سے اپنے اوپر بھی خرچ کرو اور صدقہ بھی کرو۔ “
حاکم معاملہ سمجھنے کے لیے کاوش کرے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ ﴿٧٨﴾ فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۚ وَكُنَّا فَاعِلِينَ ﴿٧٩﴾
(21-الأنبياء:78، 79)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور (یاد کریں ) داود اور سلیمان کو جب وہ دونوں اس کھیتی کی بابت فیصلہ کر رہے تھے جس رات کو (ایک) قوم کی بکریاں چر گئی تھیں، اور ہم ان کے فیصلے کے شاہد تھے۔ چنانچہ ہم نے وہ (فیصلہ ) سلیمان کو سمجھا دیا، اور ہر ایک کو ہم نے حکم (نبوت ) اور علم دیا، اور ہم نے داود کے ساتھ پہاڑ اور پرندے مسخر کیے تھے، وہ تسبیح کرتے تھے، اور ( یہ ) ہم ہی کرنے والے تھے ۔“
حدیث 12
«وعن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: بينما امرأتان معهما أبناهما ، جاء الذنب فذهب بابن إحداهما ، فقالت هذه لصاحبتها: إنما ذهب بابنك أنت ، وقالت الأخرى: إنما ذهب بابنك ، فتحاكمتا إلى داود فقضى به للكبرى، فخرجنا على سليمان بن داوود – عليهما السلام – فأخبرناه ، فقال: اثتوني بالسكين أشقه بينكما ، فقالت الصغرى: لا ، يرحمك الله هو ابنها ، فقضى به للصغرى»
صحیح مسلم، رقم : 4495.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو عورتیں تھیں، دونوں کے بیٹے ان کے ساتھ تھے (اتنے میں) بھیڑیا آیا اور ان میں سے ایک کا بیٹا لے گیا تو اس نے (جو بڑی تھی ) اپنی ساتھی عورت سے کہا: وہ تمہارا بیٹا لے گیا ہے اور دوسری نے کہا: وہ تمہارا بیٹا لے گیا ہے۔ چنانچہ وہ دونوں فیصلے کے لیے حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس آئیں تو انہوں نے بڑی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس کے بعد وہ دونوں نکل کر حضرت سلیمان بن داود علیہ السلام کے سامنے آئیں اور انہیں (اپنے معاملے سے) آگاہ کیا تو انہوں نے کہا: میرے پاس چھری لاؤ، میں اسے تم دونوں کے مابین آدھا آدھا کر دیتا ہوں۔ اس پر چھوٹی عورت نے کہا: نہیں، اللہ آپ پر رحم کرے! وہ اسی کا بیٹا ہے۔ تو انہوں نے چھوٹی عورت کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ “
حاکم اجتہاد کرے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ﴾
(29-العنكبوت:69)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کریں ہم انھیں اپنی را ہیں ضرور دکھاتے ہیں، اور یقینا اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“
حدیث 13
«وعن أبى قيس مولى عمرو بن العاص ، عن عمرو بن العاص ، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا حكم الحاكم فاجتهد ثم أصاب ، فله أجران، وإذا حكم فاجتهد ثم أخطأ ، فله أجر»
صحیح مسلم، رقم : 4487.
”اور حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے مولیٰ ابو قیس نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی حاکم فیصلہ کرے اور اجتہاد (حقیقت کو سمجھنے کی بھر پور کوشش ) کرے، پھر وہ حق بجانب ہو تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور جب وہ فیصلہ کرے اور اجتہاد کرے ، پھر وہ (فیصلے میں ) غلطی کر جائے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔ “
حاکم حالت غصہ میں فیصلہ نہ کرے
حدیث 14
«وعن عبد الرحمن بن أبى بكرة قال: كتب أبى – وكتبت له – إلى عبيد الله بن أبى بكرة وهو قاض بسجستان: أن لا تحكم بين اثنين وأنت غضبان ، فإنى سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: (لا) يحكم أحد بين اثنين وهو غضبان»
صحیح مسلم، رقم : 4490.
”اور حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا: میرے والد نے سجستان کے قاضی عبید اللہ بن ابی بکرہ کو خط لکھوایا۔ اور میں نے لکھا کہ جب تم غصے کی حالت میں ہو، تو دو آدمیوں کے مابین فیصلہ نہ کرنا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: کوئی شخص جب وہ غصہ کی حالت میں ہو دو (انسانوں/ فریقوں) کے مابین فیصلہ نہ کرے۔ “
حاکم اپنی رعایا کے لیے آسانیاں پیدا کرے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ﴾
(2-البقرة:185)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اللہ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے اور وہ تمھارے لیے تنگی نہیں چاہتا ۔“
حدیث 15
«وعن سعيد بن أبى بردة قال: سمعت أبى قال: بعث النبى صلى الله عليه وسلم أبى ومعاذ بن جبل إلى اليمن فقال: يسرا ولا تعسرا ، وبشرا ولا تنفرا، وتطاوعا»
حيح البخاري، رقم : 7172.
”اور حضرت سعید بن ابو بردہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے اپنے باپ سے سنا، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے والد گرامی (ابو موسی رضی اللہ عنہ ) اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا اور ان سے فرمایا: آسانی پیدا کرنا تنگی نہ کرنا، خوش خبری دینا، نفرت نہ دلانا اور آپس میں اتفاق پیدا کرنا ۔ “
حکمران فریقین کو نصیحت کرے کہ بات درست کریں
حدیث 16
«وعن أم سلمة رضي الله عنها : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إنما أنا بشر وإنكم تختصمون إلى ، ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته بعض فأقضي على نحو ما أسمع ، فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذه، فإنما أقطع له قطعة من النار»
صحیح بخاری، رقم : 7169.
” اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بس میں تو صرف ایک انسان ہوں، تم میرے پاس اپنے مقدمات لاتے ہو، ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی اپنا مقدمہ پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو اور میں اس کی باتیں سن کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں تو میں نے جس کے لیے اس کے بھائی کے حق میں فیصلہ کر دیا تو وہ اس کو نہ لے کیونکہ وہ تو میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں ۔ “
حکام اور صدقات پر تعینات عاملوں کا تنخواہ لینا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا ۚ فَلَمَّا جَاءَهُ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ ۖ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٢٥﴾ قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ ۖ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ ﴿٢٦﴾ قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَىٰ أَن تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ ۖ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِندِكَ ۖ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ ۚ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ ﴿٢٧﴾ قَالَ ذَٰلِكَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ ۖ أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ۖ وَاللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ ﴿٢٨﴾
(28-القصص:25تا28)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”پھر ان دونوں میں سے ایک (لڑکی) شرم وحیا سے چلتی اس کے پاس آئی، اس نے کہا: بے شک میرے والد تجھے بلاتے ہیں تا کہ وہ تجھے اس کی مزدوری دیں جو تو نے ہماری خاطر پانی پلایا ہے، پھر جب موسیٰ اس کے پاس آیا اور اسے سارا قصہ سنایا تو اس نے کہا: تو مت ڈر، تو نے ظالم قوم سے نجات پالی ہے۔ ان دونوں میں سے ایک (لڑکی) نے کہا: اے ابا جان ! اسے نوکر رکھ لیجیے، بلاشبہ بہترین شخص، جسے آپ ملازم رکھیں، وہی ہوسکتا ہے جو طاقتور ہو، امانت دار ہو۔ اس نے (موسیٰ سے) کہا: میں چاہتا ہوں کہ اپنی دونوں بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تجھ سے اس شرط پر کر دوں کہ تو آٹھ سال میری نوکری کرے، پھر اگر تو دس سال پورے کرے تو تیری طرف سے ہو گا، اور میں نہیں چاہتا کہ تجھ پر مشقت ڈالوں، ان شاء اللہ یقیناً تو نیک لوگوں میں سے پائے گا۔ موسیٰ نے کہا: یہ میرے اور آپ کے درمیان (معاہدہ) ہے، میں دو مدتوں میں سے جو بھی پوری کرلوں تو (اس کے بعد ) مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو، اور جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں اس پر اللہ گواہ نگہبان ہے۔“
حدیث 17
«وعن عبدالله بن السعدي أخبره: أنه قدم على عمر فى خلافته فقال له عمر: ألم أحدت أنك تلي من أعمال الناس أعمالا فإذا أعطيت العمالة كرهتها؟ فقلت: بلى ، فقال عمر: فما تريد إلى ذلك؟ قلت: إن لى أفراسا وأعبدا وأنا بخير، وأريد أن تكون عمالتي صدقة على المسلمين . قال عمر: لا تفعل فإني كنت أردت الذى أردت فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعطينى العطاء فأقول: أعطه أفقر إليه مني ، حتى أعطاني مرة مالا فقلت: أعطه أفقر إليه مني ، فقال النبى صلى الله عليه وسلم : خذه فتموله وتصدق به ، فما جاء ك من هذا المال – وأنت غير مشرف ولا سائل – فخذه وإلا فلا تتبعه نفسك»
صحیح بخاری، رقم : 7163.
”اور حضرت عبداللہ بن سعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ان کے پاس گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: کیا مجھ سے جو کہا گیا ہے وہ صحیح ہے کہ لوگوں کے کام تمہیں سپرد کیے جاتے ہیں اور جب تمہیں اس کی تنخواہ دی جاتی ہے تو تم اسے لینا نا پسند کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: یہ بات صحیح ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہارا اس سے کیا مقصد ہے؟ میں نے کہا: میرے پاس بہت سے گھوڑے اور غلام ہیں، نیز میں خوش حال ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ میری تنخواہ مسلمانوں پر صدقہ ہو جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم ایسا نہ کرو کیونکہ میں نے بھی ایک دفعہ اس بات کا ارادہ کیا تھا جس کا تم نے ارادہ کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے عطا فرماتے تو میں کہہ دیتا: آپ یہ مجھے سے زیادہ ضرورت مند کو عطا کر دیں۔ آپ نے مجھے ایک بار مال عطا کیا اور میں نے وہی بات دہرائی کہ آپ یہ ایسے شخص کو دے دیں جو اس کا مجھ سے زیادہ حاجت مند ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے لے لو اور اس کا مالک بننے کے بعد اسے صدقہ کر دو۔ یہ مال تمہیں جب اس طرح ملے کہ تم اس کے نہ خواہش مند ہو اور نہ تم نے یہ مانگا ہو تو اسے لے لیا کرو اور اگر اس طرح نہ ملے تو اس کے پیچھے نہ لگا کرو۔“
امین شخص امارت طلب کر سکتا ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قَالَ اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ۖ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ﴾
(12-يوسف:55)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” (یوسف نے ) کہا : مجھے زمین کے خزانوں (پیداوار ) پر (نگران) مقرر کر دیجیے، بے شک میں خوب نگہبانی کرنے والا ، خوب جاننے والا ہوں ۔ “
حدیث 18
«وعن أبى ذر قال: قلت: يا رسول الله! ألا تستعملني؟ قال: فضرب بيده على منكبي ، ثم قال يا أبا ذرا إنك ضعيف. وإنها أمانه وإنها ، يوم القيامة، خزي وندامة ، إلا من اخذها بحقها وادى الذى عليه فيها»
صحیح مسلم، رقم : 4719.
” اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کی، اللہ کے رسول ! کیا آپ مجھے عامل نہیں بنا ئیں گے؟ آپ نے میرے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا: ابوذر! تم کمزور ہو اور یہ (امارت) امانت ہے اور قیامت کے دن یہ شرمندگی اور رسوائی کا باعث ہوگی، مگر وہ شخص جس نے اسے حق کے ساتھ قبول کیا اور اس میں جو ذمہ داری اس پر عائد ہوتی تھی اسے (اچھی طرح ) ادا کیا۔( وہ شرمندگی اور رسوائی سے مستثنیٰ ہوگا۔)“
مسلمانوں کی جماعت سے علیحدگی درست نہیں
حدیث 19
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال: من خرج من الطاعة، وفارق الجماعة ، فمات، مات ميتة جاهلية ، ومن قاتل تحت راية عمية ، يغضب لعصبة ، أو يدعو إلى عصبة ، أو ينصر عصبة ، فقتل فقتلة جاهلية ، ومن خرج على أمتي . يضرب برها وفاجرها ، ولا يتحاشى من مؤمنها، ولا يفي لذي عهد عهده ، فليس منى ولست منه»
صحیح مسلم، رقم : 4786.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص (امام وقت کی ) اطاعت سے نکل گیا اور جماعت چھوڑ دی اور مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور جو شخص اندھے تعصب کے جھنڈے کے نیچے لڑا، اپنی عصبیت (قوم و قبیلے) کی خاطر غصے میں آیا یا اس نے کسی عصبیت کی طرف دعوت دی یا کسی عصبیت کی خاطر مارا گیا تو ( یہ ) جاہلیت کی موت ہوگی اور جس نے میری امت کے اچھوں اور بروں (دونوں) کو مارتے ہوئے ان کے خلاف خروج ( بغاوت کا رستہ اختیار کیا) ، کسی مومن کا لحاظ کیا نہ کسی معاہد کے عہد کا پاس کیا تو نہ اس کا میرے ساتھ کوئی رشتہ ہے، نہ میرا اس سے کوئی رشتہ ہے۔“
حدیث 20
«وعن علقمة بن وآئل الحضرمي، عن أبيه قال: سأل سلمة بن يزيد الجعفي رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال: يا نبي الله! أرأيت إن قامت علينا أمراء يسألونا حقهم ويمنعونا حقنا، فما تأمرنا؟ فأعرض عنه ، ثم سأله فأعرض عنه، ثم سأله فى الثانية أو فى الثالثة فجذبه الأشعث بن قيس ، وقال: اسمعوا وأطيعوا فإنما عليهم ما حملوا وعليكم ما حملتم»
صحیح مسلم، رقم : 4782.
”اور حضرت علقمہ بن وائل حضری نے اپنے والد سے روایت کی کہ اور سلمہ بن یزید جعفی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اور کہا: اللہ کے نبی! آپ کیسے دیکھتے ہیں کہ اگر ہم پر ایسے لوگ حکمران بنیں جو ہم سے اپنے حقوق کا مطالبہ کریں اور ہمارے حق ہمیں نہ دیں تو اس صورت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے اس سے اعراض فرمایا، اس نے دوبارہ احوال کیا، آپ نے پھر اعراض فرمایا، پھر جب اس نے دوسری یا تیسری بار سوال کیا تو اس کو اشعت بن قیس رضی اللہ عنہ نے کھینچ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سنو اور اطاعت کرو کیونکہ جو ذمہ داری ان کو دی گئی اس کا بار ان پر ہے اور جو ذمہ داری تمہیں دی گئی ہے، اس کا بوجھ تم پر ہے۔ “
حکام کے ظلم پر صبر کرو
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾
(3-آل عمران:200)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر سے کام لو، اور ثابت قدم رہو اور مورچوں پر ڈٹے رہو، اور اللہ سے ڈرو تا کہ تم فلاح پاؤ۔“
حدیث 21
«وعن أسيد بن حضير؛ أن رجلا من الأنصار خلا برسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال: ألا تستعملني كما استعملت فلانا؟ فقال: إنكم سلقون بعدى أثرة، فاصبروا حتى تلقوني على الحوض»
صحیح مسلم، رقم الحديث : 4779.
”اور حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے تنہائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی اور عرض کی ، کیا جس طرح آپ نے فلاں شخص کو عامل بنایا ہے مجھے عامل نہیں بنائیں گے؟ آپ نے فرمایا: میرے بعد تم خود کو ( دوسروں پر ) ترجیح (دینے کا معاملہ ) دیکھو گے تم اس پر صبر کرتے رہنا، یہاں تک کہ حوض (کوثر) پر مجھ سے آن ملو۔ ( وہاں تمہیں میری شفاعت پر اس صبر و تحمل کا بے پناہ اجر ملے گا۔ “
خلیفہ وقت سے وفاداری واجب ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَىٰ ۖ كُلَّ مَا جَاءَ أُمَّةً رَّسُولُهَا كَذَّبُوهُ ۚ فَأَتْبَعْنَا بَعْضَهُم بَعْضًا وَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ ۚ فَبُعْدًا لِّقَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ﴾
(23-المؤمنون:44)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” پھر ہم لگا تار اپنے رسول بھیجتے رہے، جب بھی کسی امت کے پاس ان کا رسول آیا تو انھوں نے اس کی تکذیب کی ، پھر ہم ایک کے پیچھے دوسری قوم کو (ہلاک) کرتے رہے، اور ہم نے انھیں افسانے بنا دیا، چنانچہ ان لوگوں کے لیے دوری ہے جو ایمان نہیں لاتے ۔“
حدیث 22
«وعن أبى حازم قال قاعدت أبا هريرة خمس سنين ، فسمعته يحدث عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: كانت بنو إسرائيل تسوسهم الانبياء، كلما هلك نبي خلفه نبي ، وإنه لا نبي بعدى، وستكون خلفاء تكثر قالوا: فما تأمرنا؟ قال: فوا ببيعة الاول فالاول، وأعطوهم حقهم، فإن الله سائلهم عما استرعاهم»
صحیح مسلم رقم : 4773۔
” اور حضرت ابو حازم سے روایت ہے کہ میں پانچ سال حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا ہم مجلس رہا، میں نے ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا: بنو اسرائیل کے انبیاء ان کا اجتماعی نظام چلاتے تھے، جب ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا اور (اب) بلاشبہ میرے بعد کوئی نبی نہیں، اب خلفاء ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے۔ صحابہ نے عرض کی : آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: پہلے اور اس کے بعد پھر پہلے کی بیعت کے ساتھ وفا کرو، انہیں ان کا حق دو اور (تمہارے حقوق کی ) جو ذمہ داری انہیں دی ہے اس کے متعلق اللہ خود ان سے سوال کرے گا۔ “
مسلمانوں کا حکمران ڈھال ہے
حدیث 23
«وعن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إنما الإمام جنة ، يقاتل من ورائه ، ويتقى به ، فإن أمر بتقوى الله عزوجل وعدل، كان له بذلك أجر ، وإن يأمر بغيره، كان عليه منه»
صحیح مسلم، رقم : 4772.
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: امام (مسلمانوں کا حکمران ) ڈھال ہے، اس کے پیچھے (اس کی اطاعت کرتے ہوئے ) جنگ کی جاتی ہے، اس کے ذریعے سے تحفظ حاصل کیا جاتا ہے، اگر امام اللہ عزوجل سے ڈرنے کا حکم دے اور عدل و انصاف سے کام لے تو اسے اس کا اجر ملے گا اور اگر اس نے اس کے خلاف کچھ کیا تو اس کا وبال اس پر ہوگا۔ “
مال غنیمت میں خیانت کرنے کی ممانعت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَغُلَّ ۚ وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ﴾
(3-آل عمران:161)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” یہ ناممکن ہے کہ کوئی نبی خیانت کرے اور جو کوئی خیانت کرے گا تو جو اس نے خیانت کی ہوگی اس کے ساتھ قیامت کے دن حاضر ہوگا، پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
حدیث 24
«وعن أبى هريرة قال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم ، فذكر الغلول فعظمه وعظم أمره، ثم قال: لا ألفين أحدكم يجيء يوم القيامة ، على رقبته بعير له رعاء ، يقول: يارسول الله اغثني ، فأقول: لا أملك لك شيئا، قد أبلغتك ، لا الفين أحدكم يجيء يوم القيامة ، على رقبته فرس له حمحمة ، فيقول: يارسول الله اغثني ، فأقول: لا أملك لك شيئا، قد ابلغتك ، لا ألفين احدكم يجيء يوم القيامة ، على رقبته شاة لها تغاء، يقول: يارسول الله اغثني ، فأقول: لا أملك لك شيئا، قد أبلغتك ، لا الفين أحدكم يجيء يوم القيامة ، على رقبته نفس لها صياح، فيقول: يارسول الله! اغثني، فأقول: لا أملك لك شيئا، قد أبلغتك ، لا الفين أحدكم يجيء يوم القيامة، على رقبته رقاح تخفق، فيقول: يارسول الله ! اغثني ، فأقول : لا أملك لك شيئا، قد أبلغتك ، لا ألفين احدكم يجيء يوم القيامة ، على رقبته صامت ، فيقول: يا رسول الله اغثني، فأقول: لا أملك لك شيئا، قد ابلغتك»
صحیح مسلم رقم : 4734 ۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں (خطبہ دینے کے لیے) کھڑے ہوئے اور آپ نے مال غنیمت میں خیانت کا ذکر فرمایا، آپ نے ایسی خیانت اور اس کے معاملے کو انتہائی سنگین قرار دیا، پھر فرمایا: میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن اس طرح آتا ہوا نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر اونٹ سوار ہوکر بلبلا رہا ہو اور وہ کہے: اللہ کے رسول! میری مدد فرمائیے اور میں جواب میں کہوں: میں تمہارے لیے کچھ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، میں نے تمہیں (دنیا ہی میں) حق پہنچا دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی شخص کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر گھوڑا سوار ہو کر ہنہنا رہا ہو، وہ کہے: اللہ کے رسول! میری مدد کیجیے اور میں کہوں کہ میں تمہارے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتا، میں نے تمہیں حق پہنچا دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی شخص کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر بکری سوار ہو کر ممیا رہی ہو، وہ کہے: اللہ کے رسول ! میری مدد کیجیے اور میں کہوں : میں تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا، میں نے تمہیں حق سے آگاہ کر دیا تھا، میں تم میں سے کسی شخص کو روز قیامت اس حالت میں نہ دیکھوں کہ اس کی گردن پر کسی شخص کی جان سوار ہو اور وہ (ظلم کی دہائی دیتے ہوئے) چینحیں مار رہی ہو اور وہ شخص کہے: اللہ کے رسول ! میری مدد کیجیے، اور میں کہوں: میں تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکتا، میں نے تمہیں سب کچھ بتا دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی شخص کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر کپڑا لدا ہوا پھڑ پھڑا رہا ہو اور وہ کہے: اللہ کے رسول ! میری مدد کیجیے، میں کہوں تمہارے لیے میرے بس میں کچھ نہیں، میں نے تم کو سب کچھ سے آگاہ کر دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی شخص کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر نہ بولنے والا مال (سونا چاندی ) لدا ہوا ہو، وہ کہے: اللہ کے رسول ! میری مدد کیجیے، میں کہوں : تمہارے لیے میرے پاس کسی چیز کا اختیار نہیں، میں نے تم کو (انجام کی ) خبر پہنچا دی تھی ۔ “
حکمران رعایا کے ساتھ نرمی اختیار کرے
حدیث 25
«وعن عبد الرحمن بن شماسة قال: أتيت عائشة أسألها عن شيء، فقالت: ممن أنت؟ فقلت: رجل من أهل مصر ، فقالت: كيف كان صاحبكم لكم فى غزاتكم هذه؟ فقال: ما نقمنا منه شيئا ، إن كان ليموت للرجل منا البعير ، فيعطيه البعير ، والعبد ، فيعطيه العبد، ويحتاج إلى النفقة ، فيعطيه النفقة، فقالت: أما إنه لا يمنعني الذى فعل فى محمد بن أبى بكر، أخي ، أن أخبرك ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم : يقول فى بيتي هذا اللهم ! من ولي من أمر أمتي شيئا فشق عليهم ، فاشقق عليه، ومن ولي من أمر أمتي شيئا فرفق بهم فارفق به»
صحیح مسلم رقم : 4722۔
” اور حضرت عبد الرحمن بن شمامہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا: میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس کسی مسئلے کے بارے میں پوچھنے کے لیے گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: تم کن لوگوں میں سے ہو؟ میں نے عرض کی، میں اہل مصر میں سے ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: تمہارا حاکم حالیہ جنگ کے دوران میں تمہارے پاس کیسا رہا؟ میں نے کہا: ہمیں اس کی کوئی بات بری نہیں لگی ، اگر ہم میں سے کسی شخص کا اونٹ مرجاتا تو وہ اس کو اونٹ دے دیتا اور اگر غلام مر جاتا تو وہ اس کو غلام دے دیتا اور اگر کسی کو خرچ کی ضرورت ہوتی تو وہ اس کو خرچ دیتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میرے بھائی محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے معاملے میں اس نے جو کچھ کیا وہ مجھے اس سے نہیں روک سکتا کہ میں تمہیں وہ بات سناؤں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اس گھر میں کہتے ہوئے سنی، فرمایا : اے اللہ ! جو شخص بھی میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور ان پر سختی کرے، تو اس پر سختی فرما اور جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنا اور ان کے ساتھ نرمی کی ، تو اس کے ساتھ نرمی فرما۔ “
عادل حاکم کی فضیلت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ﴾
(16-النحل:90)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بے شک اللہ عدل اور احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور وہ بے حیائی، برے کام اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمھیں وعظ کرتا ہے، تا کہ تم نصیحت پکڑو۔“
حدیث 26
«وعن عبد الله بن عمرو قال ابن نمير وأبو بكر: يبلغ به النبى صلى الله عليه وسلم ، وفي حديث زهير قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن المقسطين، عند الله ، على منابر من نور ، عن يمين الرحمن عزوجل، وكلتا يديه يمين ، الذين يعدلون فى حكمهم واهليهم وما ولوا»
صحيح مسلم، رقم : 4721 ۔
” اور حضرت عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ، ابن نمیر اور ابوبکر نے کہا: انہوں نے اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، زہیر کی حدیث میں ہے (عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہا نے ) کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عدل کرنے والے اللہ کے ہاں رحمن عزوجل کی دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے اور اس کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں، یہ وہی لوگ ہوں گے جو اپنے فیصلوں، اپنے اہل وعیال اور جن کے یہ ذمہ دار ہیں ان کے معاملے میں عدل کرتے ہیں۔“
اسلام میں قاضی کا بیان
حدیث 27
«وعن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من ولي القضاء أو جعل قاضيا بين الناس فقد ذبح بغير سكين»
سنن ترمذی، رقم : 1325 ، سنن ابو داؤد، رقم : 3572 ، سنن ابن ماجه رقم: 2308، مسند احمد، رقم :8559۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کو لوگوں کے درمیان قاضی بنایا گیا تو اس کو چھری کے بغیر ذبح کیا گیا۔“
حاکم رعایا پہ ظلم نہ کرے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿بَلَىٰ مَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ وَاتَّقَىٰ فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ﴾
(3-آل عمران:76)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”کیوں نہیں ! ( بلکہ مواخذہ ہو گا، البتہ ) جو شخص اپنا عہد پورا کرے اور اللہ سے ڈرے تو بے شک اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے۔ “
حدیث 28
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ما من أمير عشرة إلا يؤتى به يوم القيامة معلولا لا يفكه إلا العدل أو يوبقه الجور »
مسند احمد، رقم : 9573 ، مسند ابو یعلی، رقم : 6570، مصنف ابن ابي شيبة 219/12۔ شیخ شعیب نے اس کی سند کو قوی قرار دیا ہے۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو آدمی دس افراد کی چھوٹی سی جماعت پر امیر اور حاکم مقرر ہوتا ہے، اسے قیامت کے روز باندھ کر پیش کیا جائے گا، اسے اس کا عدل وانصاف رہائی دلائے گا اور اس کا ظلم وجور اس کو ہلاک کر دے گا۔ “
خلافت على منهاج النبوة
حدیث 29
«وعن النعمان بن بشير ، قال: كنا قعودا فى المسجد وكان بشير رجلا يكف حديثه – فجاء أبو ثعلبة الحشني ، فقال: يابشير بن سعد أتحفظ حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم فى الأمر ، فقال حذيفة : أنا أحفظ خطبته فجلس أبو ثعلبة ، قال حذيفة: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : تكون النبوة فيكم ما شاء الله أن تكون، ثم يرفعها الله إذا شاء أن يرفعها ، ثم تكون خلافة على منهاج النبوة فيكم ماشاء الله أن تكون ثم يرفعها إذا شاء أن يرفعها ، ثم تكون ملكا عاضا فتكون ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها إذا شاء الله أن يرفعها ثم تكون ملكا جبريا، فتكون ما شاء الله أن تكون ، ثم يرفعها إذا شاء الله أن يرفعها ، ثم تكون خلافة على منهاج النبوة ، ثم سكت»
مسند احمد : 273/4، رقم : 18406، مسند الیالسی، رقم : 438۔ شیخ شعیب نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ بشیر اپنی بات کو روک دیتے تھے۔ اتنے میں ابو ثعلبہ حشنی رضی اللہ عنہ آئے اور کہا: بشیر بن سعد ! کیا تجھے امراء کے بارے میں کوئی حدیث نبوی یاد ہے؟ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: (اس معاملے میں) مجھے آپ کا خطبہ یاد ہے۔ ابو ثعلبہ بیٹھ گئے اور حذیفہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق کچھ عرصہ تک نبوت قائم رہے گی، پھر اللہ تعالیٰ جب چاہیں گے اسے اٹھا لیں گے۔ نبوت کے بعد اس کے منہج پر اللہ کی مرضی کے مطابق کچھ عرصہ تک خلافت ہو گی، پھر اللہ تعالیٰ اسے ختم کر دیں گے، پھر اللہ کے فیصلے کے مطابق کچھ عرصہ تک بادشاہت ہوگی، جس میں ظلم و زیادتی ہوگا، بالآخر وہ بھی ختم ہو جائے گی، پھر جبری بادشاہت ہوگی، وہ کچھ عرصہ کے بعد زوال پذیر ہو جائے گی ، اس کے بعد منہج نبوت پر پھر خلافت ہوگی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے ۔ “
حاکم وقت کے سامنے خوشامد اور پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو
حدیث 30
«وعن محمد بن زيد بن عبد الله بن عمر عن أبيه: قال أناس لابن عمر: إنا ندخل على سلطاننا فنقول لهم خلاف ما نتكلم إذا خرجنا من عندهم، قال: كنا نعدها نفاقا»
صحیح بخاری، رقم : 7178.
”اور حضرت محمد بن زید سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہا سے کہا: جب ہم اپنے بادشاہ کے پاس جاتے ہیں تو ان کے سامنے ایسی باتیں کہتے ہیں کہ باہر آکر اس کو خلاف کہتے ہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ہم اسے نفاق شمار کرتے تھے۔ “
حکمران کے لیے تحائف بھیجنا
حدیث 31
«وعن أبو حميد الساعدي قال: استعمل النبى صلى الله عليه وسلم رجلا من بني أسد يقال له: ابن الأتبية ، على صدقة، فلما قدم قال: هذا لكم ، وهذا أهدي لى . فقام النبى صلى الله عليه وسلم على المنبر قال . سفيان أيضا: فصعد المنبر – فحمد الله وأثنى عليه ، ثم قال: ما بال العامل نبعثه فيأتي فيقول: هذا لك ، وهذا لي؟ فهلا جلس فى بيت أبيه وأمه فينظر أيهدى له أم لا؟ والذي نفسي بيده! لا يأتى بشيء إلا جاء به يوم القيامة يحمله على رقبته، إن كان بعيرا له رغاء ، أو بقرة لها خوار ، أو شاة تبعر – ثم رفع يديه حتى رأينا عفرتى إبطيه – ألا هل بلغت ثلاثا»
صحیح بخاری، رقم : 7174.
” اور حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو اسد کے ایک شخص کو صدقات کی وصولی کے لیے تحصیل دار مقرر کیا۔ اسے ابن اتبيه کہا جاتا تھا۔ جب وہ صدقات لے کر آیا تو اس نے کہا: یہ آپ لوگوں کا مال ہے اور یہ مجھے نذرانہ دیا گیا ہے۔ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے۔(راوی حدیث) سفیان نے کہا: منبر پر چڑھے اللہ کی حمد وثنا کرنے کے بعد فرمایا: اس عامل کا کیا حال ہے جسے ہم ( صدقات وصول کرنے کے لیے) بھیجتے ہیں تو وہ واپس آکر کہتا ہے: یہ مال تمہارا ہے اور یہ میرا ہے؟ کیوں نہ وہ اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر بیٹھا رہا، پھر دیکھا جاتا کہ اس کے پاس نذرانے آتے ہیں یا نہیں؟ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ عامل جو چیز بھی اپنے پاس رکھ لے گا قیامت کے دن اسے اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا۔ اگر وہ اونٹ ہوگا تو وہ اپنی آواز نکالتا آئے گا۔ اگر گائے ہوگی تو وہ اپنی آواز نکالتی ہوئی آئے گی ۔ اگر وہ بکری ہوگی تو وہ ممیاتی ہوئی آئے گی۔ پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھائے حتی کہ ہم نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی ۔ آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ کہے: خبردار! میں نے اللہ کا حکم پہنچا دیا ہے۔ “
حاکم رعایا کو مشقت میں نہ ڈالے
حدیث 32
«وعن طريف أبى تميمة قال: شهدت صفوان وجندبا وأصحابه وهو يوصيهم فقالوا: هل سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا؟ قال: سمعته يقول: من سمع سمع الله به يوم القيامة، قال: ومن يشاقق يشقق الله عليه يوم القيامة . فقالوا: أوصنا ، فقال: إن أول ما ينتن من الإنسان بطنه، فمن استطاع أن لا يأكل إلا طيبا فليفعل، ومن استطاع أن لا يحال بينه وبين الجنة بملء كفه من دم أهراقه فليفعل قلت لأبي عبد الله: من يقول: سمعت رسول الله جندب؟ قال: نعم، جندب»
صحیح بخاری، رقم : 7152.
”اور حضرت طریف ابو تمیمہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں صفوان، ان کے ساتھیوں اور حضرت جندب رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا جبکہ وہ ان کو وصیت کر رہے تھے، پھر ان ساتھیوں نے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے سنا ہے، آپ نے فرمایا: جو شخص لوگوں کو سنانے کے لیے عمل کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا بھید کھول دے گا اور جولوگوں کو مشقت میں ڈالے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے مصیبت میں مبتلا کر دے گا، پھر ان لوگوں نے کہا: آپ ہمیں وصیت کریں تو انہوں نے فرمایا: سب سے پہلے (قبر میں ) انسان کا پیٹ خراب ہوگا، لہذا جو شخص حلال و پاکیزہ چیز کھانے کی طاقت رکھتا ہو تو وہ ضرور حلال اور پاک چیز کھائے۔ اور جو شخص چاہتا ہے کہ اس کے بعد جنت کے درمیان چلو بھرخون حائل نہ ہو جو اس نے ناحق بہایا ہو تو وہ ایسا ضرور کرے۔ (فربری نے کہا: ) میں نے ابو عبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ ) سے پوچھا: کون صاحب اس حدیث میں کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، کیا جندب کہتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: ہاں جندب ہی کہتے ہیں۔ “
حکومتی عہدے کا لالچ بری چیز ہے
حدیث 33
«وعن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إنكم ستحرصون على الإمارة وستكون ندامة يوم القيامة، فنعم المرضعة وبئست الفاطمة»
صحیح بخاری، رقم : 7148.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یقیناً تم عنقریب حکومتی عہدے کا لالچ کرو گے اور ایسا کرنا تمہارے لیے قیامت کے دن باعث ندامت ہوگا۔ دودھ پلانے والی اچھی لگتی ہے اور دودھ چھڑانے والی بری محسوس ہوتی ہے۔ “
امیر کی اطاعت صرف کتاب وسنت کے احکامات کی روشنی میں
حدیث 34
«وعن على رضی اللہ عنہ قال: بعث النبى صلى الله عليه وسلم سرية وأمر عليهم رجلا من الأنصار وأمرهم أن يطيعوا ، فغضب عليهم وقال: أليس قد أمر النبى صلى الله عليه وسلم أن تطيعوني؟ قالوا: بلى . قال : قد عزمت عليكم لما جمعتم حطبا وأوقدتم نارا ثم دخلتم فيها ، فجمعوا حطبا فأوقدوا نارا ، فلما هموا بالدخول فقام ينظر بعضهم إلى بعض ، قال بعضهم: إنما تبعنا النبى صلى الله عليه وسلم فرارا من النار ، أفندخلها؟ فبينما هم كذلك إذ خمدت النار وسكن غضبه فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: لو دخلوها ما خرجوا منها أبدا ، إنما الطاعة فى المعروف»
صحیح بخاری، رقم : 7145.
” اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دستہ بھیجا اور اس پر انصار کے ایک آدمی کو امیر بنایا۔ آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس کی اطاعت کریں۔ پھر وہ امیران لشکریوں پر ناراض ہو گیا اور کہنے لگا: کیا تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری اطاعت کا حکم نہیں دیا تھا؟ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں ! اس امیر نے کہا: میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم لکڑیاں جمع کر کے آگ جلاؤ پھر اس میں کود جاؤ۔ لوگوں نے لکڑیاں جمع کیں اور آگ جلائی۔ پھر جب انہوں نے اس میں کودنے کا ارادہ کیا تو ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ کچھ لوگوں نے کہا: ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری تو آگ سے بچنے کے لیے کی تھی تو کیا پھر ہم خود ہی آگ میں کود جائیں؟ وہ اسی سوچ بچار میں تھے کہ اس دوران میں آگ ٹھنڈی ہوگئی اور امیر کا غصہ بھی جاتا رہا، پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اگر وہ آگ میں کود جاتے تو پھر اس سے کبھی نہ نکل سکتے۔ اطاعت صرف اچھے کاموں اور اچھی باتوں میں ہے۔“
امیر کی پسندیدہ اور ناپسندیدہ باتوں کی اطاعت کرو
حدیث 35
«وعن عبد الله رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: السمع والطاعة على المرء المسلم فيما أحب وكره ما لم يؤمر بمعصية ، فإذا أمر بمعصية فلا سمع ولا طاعة»
صحیح بخاری، رقم : 7144.
”اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان کے لیے ایک امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔ یہ اطاعت پسندیدہ اور ناپسندیدہ دونوں باتوں میں ہے بشرطیکہ اسے کسی گناہ کا حکم نہ دیا جائے۔ اگر اسے گناہ کا حکم دیا جائے تو نہ بات سنی جائے اور نہ ہی اطاعت کی جائے ۔ “
اللہ عزوجل کے حکم کے مطابق فیصلے کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ﴾
(5-المائدة:49)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور (اے نبی !) آپ ان لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے ( آپ پر) نازل کیا ہے۔ “
حدیث 36
«وعن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا حسد إلا فى اثنتين: رجل آتاه الله مالا فسلطه على هلكته فى الحق ، وآخر آتاه الله حكمة فهو يقضي بها ويعلمها»
صحیح بخاری، رقم : 7141.
” اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قابل رشک دو آدمی ہیں: ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اسے حق کے راستے میں بے دریغ خرچ کرے اور دوسرا وہ جسے اللہ تعالٰی نے علم و حکمت سے سرفراز کیا وہ اس کے مطابق فیصلے کرے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دے۔“
حاکم وقت لوگوں کا نگہبان ہوتا ہے
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِينَ ﴾
(7-الأعراف:6)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” چنانچہ ہم ان لوگوں سے ضرور سوال کریں گے جن کی طرف رسول بھیجے گئے تھے اور ہم رسولوں سے بھی ضرور سوال کریں گے۔“
حدیث 37
«وعن عبد الله بن عمر رضى الله عنه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ألا ا كلكم راع، وكلكم مسئول عن رعيته، فالإمام الذى على الناس راع وهو مسئول عن رعيته، والرجل راع على أهل بيته وهو مسئول عن رعيته، والمرأة راعية على أهل بيت زوجها وولده وهى مسئولة عنهم، وعبد الرجل راع على مال سيده وهو مسئول عنه ألا فكلكم راع، وكلكم مسئول عن رعيته»
صحیح بخاری، رقم : 7138.
”اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آگاہ رہو! تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ حاکم وقت لوگوں کا نگہبان ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ مرد اپنے گھر والوں کو نگہبان ہے اس سے اپنی نگہبانی سے متعلق سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے اہل خانہ اور اولاد کی نگران ہے، اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا۔ کسی شخص کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے، اسے اس کی نگرانی کے متعلق سوال ہوگا۔ آگاہ رہو! تم سب نگہبان ہو اور تم سب سے اپنی اپنی رعایا کے متعلق باز پرس ہوگی ۔ “
حکمران اپنی رعایا سے محبت کرے
حدیث 38
«وعن عوف بن مالك الاشجعي، يقول: سمعت عوف بن مالك الاشجعى يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: خيار ائمتكم الذين تحبونهم ويحبونكم ، وتصلون عليهم ويصلون عليكم، وشرار أئمتكم الذين تبغضونهم ويبغضونكم، وتلعنونهم ويلعنونكم قال: قالوا: يا رسول الله أفلا ننابدهم عند ذلك؟ قال: لا ، ما أقاموا فيكم الصلوة ، لا ، ما أقاموا فيكم الصلوة . الا من ولى عليه وال، فرآه يأتى شيئا من معصية الله فليكره ما يأتى من معصية الله ، ولا ينزعن يدا من طاعة»
صحیح مسلم، رقم : 4805 .
” اور حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: تمہارے بہترین امام (حکمران) وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں ، تم ان کے لیے دعا کرو اور وہ تمہارے لیے دعا کریں اور تمہارے بدترین امام وہ ہیں جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں اور تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔ (حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے) کہا: صحابہ نے عرض کی، کیا ہم ایسے موقع پر ان کا ڈٹ کا مقابلہ نہ کریں؟ آپ صلی اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: نہیں ، جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں، نہیں ، جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں، سن رکھو! جس پر کسی شخص کو حاکم بنایا گیا، پھر اس نے اس حاکم کو اللہ کی کسی معصیت میں مبتلا دیکھا تو وہ اللہ کی اس معصیت کو برا جانے اور اس کی اطاعت سے ہرگز ہاتھ نہ کھینچے۔ “
حکام کے خلاف جنگ کرنے کی ممانعت
حدیث 39
«وعن أم سلمة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ستكون أمراء فتعرفون وتنكرون ، فمن عرف بري، ومن أنكر سلم ، ولكن من رضي وتابع ، قالوا: أفلا نقاتلهم؟ قال: لا ، ما صلوا»
صحیح مسلم، رقم : 4800 .
”اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جلد ہی ایسے حکمران ہوں گے کہ تم انہیں ( کچھ کاموں میں ) صحیح اور ( کچھ میں ) غلط پاؤ گے۔ جس نے (ان کی رہنمائی میں ) نیک کام کیے وہ بری ٹھہرا اور جس نے (ان کے غلط کاموں سے ) انکار کر دیا وہ بچ گیا لیکن جو ہر کام پر راضی ہوا اور (ان کی ) پیروی کی (وہ بری ہوا نہ بچ سکا۔ ) صحابہ نے عرض کی: کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں (جنگ نہ کرو۔) “
حاکم وقت کی بات سننے کا حکم
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا﴾
(64-التغابن:16)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” سو اللہ سے ڈرو جتنی طاقت رکھو اور سنو اور حکم مانو “
حدیث 40
«وعن أنس بن مالك صلى الله عليه وسلم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اسمعوا وأطيعوا، وإن استعمل عليكم عبد حبشي كأن رأسه زبيبة»
صحیح بخاری، رقم : 7142.
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم بات سنو اور اطاعت کرو اگر چہ تم پر کسی ایسے حبشی کو حاکم اور سر براہ مقرر کر دیا جائے جس کا سر منقیٰ کی طرح چھوٹا ہو۔“
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين