ابوطالب کا اسلام؟
 تحریر غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

قارئین کرام ! قرآن و سنت کی تعلیمات یہ بتاتی ہیں کہ کسی مسلمان کو کافر کہنا خود کافر ہونے کے مترادف ہے۔ فتنہ تکفیر ( مسلمانوں کو کافر کہنا ) ، غلو پر مبنی ایک عقیدہ و نظریہ ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ واقعی انتہا پسندی ہے۔ لیکن یہ بات بھی زیر غور رہے کہ یہ ایک انتہا ہے۔ اسلام ایک معتدل دین ہے لہٰذا اہل سنت والجماعت اپنے عقیدے و منہج کے اعتبار سے ہمیشہ دو انتہاؤں کے درمیان اعتدال ہی میں رہے ہیں۔ اب اس سلسلے میں دوسری انتہا کیا ہے ؟ بدیہی طور پر فتنہ تکفیر کے برعکس دوسری انتہا یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کو بھی مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کرنا جس کے کفر پر قرآن و سنت اور مسلمانوں کے اجماع جیسے ٹھوس دلائل موجود ہوں۔ آئندہ سطور میں استاذ محترم نے اسی دوسری انتہا کے آئینہ دار ایک نظریے ”ایمان ابوطالب“ کو موضوع بحث بنا کر قرآن و سنت اور اجماعِ امت کے ذریعے اس کا بطلان کیا ہے، نیز اس بارے میں اہل سنت والجماعت کے اتفاقی نظریے کو قرآن و سنت کی روشنی میں ثابت بھی کیا ہے۔ اگر تعصب کی پٹی اتار کا انصاف کی نظر سے اس مضمون کو دیکھا جائے تو یقیناً ایک انتہا پسند سوچ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ ہم ابوجہل اور ابوطالب کو ایک ہی صف میں کھڑا نہیں کرتے۔ ابوجہل کے کفر پر مرنے پر ہم بالکل دل گرفتہ نہیں، کیونکہ اس نے اسلام دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا، البتہ ابوطالب یقیناً اسلام دوست تھے، ان کے ایمان لائے بغیر فوت ہونے پر ہمیں بھی صدمہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تھا، لیکن اس سلسلے میں ہم حق و انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ سکتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ( حافظ ابو یحییٰ نورپوری )

اہل سنت والجماعت کا اتفاقی عقیدہ ہے کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اس موقف پر قرآن و حدیث کے دلائل شاہد ہیں۔ ائمہ دین کی تصریحات اس پر مستزاد ہیں۔ اس کے باوجود رافضی فرقہ ابوطالب کے اسلام پر مُصر ہے۔ بعض شیعوں نے ”ایمان ابی طالب“ کے عنوان سے کتابیں لکھ دی ہیں۔ اسی طرح بعض نام نہاد اہل سنت نے بھی ایمان ابی طالب کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ عطاء محمد بندیالوی نامی ایک بریلوی نے ”تحقیق ایمان ابی طالب“ نامی رسالہ لکھا ہے۔ اس پر ”مفتی“ محمد خان قادری بریلوی کی تقریظ ہے۔

ہماری گزارش ہے کہ جو لوگ اہل سنت والجماعت کے اجماعی عقیدے سے منحرف ہوں اور ابوطالب کے کفر پر موجود صریح احادیث رسول کو رافضیوں کی تقلید میں ”خبر واحد“ کہہ کر ٹھکرا رہے ہوں، نیز ان فرامین رسول کو قرآن کے مخالف بھی قرار دینے کی سعی مذموم کر رہے ہوں، انہیں ”سنی“ کہلوانے کا کیا حق ہے ؟

ایسے لوگوں کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ( 661-728ھ) فرماتے ہیں :
۔۔۔ يَقُولُهُ الْجُهَّالُ مِنْ الرَّافِضَةِ وَنَحْوِهِمْ مِنْ أَنَّ أَبَا طَالِبٍ آمَنَ وَيَحْتَجُّونَ بِمَا فِي ”السِّيرَةِ“ مِنْ الْحَدِيثِ الضَّعِيفِ وَفِيهِ أَنَّهُ تَكَلَّمَ بِكَلَامِ خَفِيٍّ وَقْتَ الْمَوْتِ. وَلَوْ أَنَّ الْعَبَّاسَ ذَكَرَ أَنَّهُ آمَنَ لَمَا كَانَ ”قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَمُّك الشَّيْخُ الضَّالُّ كَانَ يَنْفَعُك فَهَلْ نَفَعْته بِشَيْءِ؟ فَقَالَ : وَجَدْته فِي غَمْرَةٍ مِنْ نَارٍ فَشَفَعْت فِيهِ حَتَّى صَارَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ فِي رِجْلَيْهِ نَعْلَانِ مِنْ نَارٍ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ وَلَوْلَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنْ النَّارِ“ ”. هَذَا بَاطِلٌ مُخَالِفٌ لِمَا فِي الصَّحِيحِ وَغَيْرِهِ فَإِنَّهُ كَانَ آخِرَ شَيْءٍ قَالَهُ : هُوَ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَأَنَّ الْعَبَّاسَ لَمْ يَشْهَدْ مَوْتَهُ مَعَ أَنَّ ذَلِكَ لَوْ صَحَّ لَكَانَ أَبُو طَالِبٍ أَحَقّ بِالشُّهْرَةِ مِنْ حَمْزَةَ وَالْعَبَّاسِ فَلَمَّا كَانَ مِنْ الْعِلْمِ الْمُتَوَاتِرِ الْمُسْتَفِيضِ بَيْنَ الْأُمَّةِ خَلَفًا عَنْ سَلَفٍ أَنَّهُ لَمْ يُذْكَرْ أَبُو طَالِبٍ وَلَا أَبَوَاهُ فِي جُمْلَةِ مَنْ يُذْكَرُ مَنْ أَهْلِهِ الْمُؤْمِنِينَ كَحَمْزَةِ وَالْعَبَّاسِ وَعَلِيٍّ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ كَانَ هَذَا مِنْ أَبْيَنِ الْأَدِلَّةِ عَلَى أَنَّ ذَلِكَ كَذِبٌ .
”رافضی اور دیگر جاہل لوگ کہتے ہیں کہ ابوطالب ایمان لے آئے تھے۔ اس سلسلے میں وہ کتب سیرت میں مذکور ایک ضعیف حدیث سے دلیل لیتے ہیں۔ اس کا مضمون یہ ہے کہ ابوطالب نے موت کے وقت ( ایمان کے بارے میں ) مخفی کلام کیا تھا، لیکن اگر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے ابوطالب کے ایمان کا ذکر کیا ہوتا تو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات نہ کہتے کہ آپ کا گمراہ چچا ( اپنی زندگی میں ) آپ کو نفع پہنچایا کرتا تھا۔ کیا آپ نے بھی اسے کوئی فائدہ پہنچایا ہے ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وَجَدْته فِي غَمْرَةٍ مِنْ نَارٍ فَشَفَعْت فِيهِ حَتَّى صَارَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ فِي رِجْلَيْهِ نَعْلَانِ مِنْ نَارٍ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ وَلَوْلَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنْ النَّارِ ”میں نے انہیں آگ میں غوطے لیتے دیکھا تو ان کی سفارش کی حتیٰ کہ وہ جہنم کے بالائی طبقہ میں آ گئے۔ اب ان کے پاؤں میں آگ کے دو جوتے ہیں جن کی وجہ سے ان کا دماغ کھول رہا ہے۔ اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے نچلے گڑھے میں ہوتے۔ ( دیکھیں صحیح البخاری : 6564، صحیح مسلم : 362، 360 )

یعنی یہ بات صحیح بخاری وغیرہ میں مذکورہ قصے کے خلاف ہے۔ ابوطالب نے آخری کلام یہ کیا تھا کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر قائم ہیں۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ تو ابوطالب کی موت کے وقت موجود نہ تھے۔ اگر یہ بات ثابت ہو جائے تو ابوطالب کے ایمان کی شہرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے زیادہ ہونی چاہیے تھی۔

سلف سے خلف تک متواتر اور مشہور و معلوم بات ہے کہ ابوطالب۔۔۔ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان لانے والے رشتہ داروں میں مثلاً سیدنا حمزہ، سیدنا عباس، سیدنا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہم میں ذکر نہیں کیا گیا۔ یہ اس بات کے جھوٹے ہونے پر واضح ترین دلیل ہے۔“ (مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ:۳۲۷/۴)

اب ہم انتہائی اختصار کے ساتھ ابوطالب کے مسلمان نہ ہونے کے دلائل ذکر کرتے ہیں :

دلیل نمبر 1 :

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾ (۲۸-القصص : ٥٦)
”اے نبی ! آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، البتہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے ہدایت عطا فرماتا ہے۔“

یہ آیت کریمہ بالاتفاق ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جیسا کہ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) فرماتے ہیں :
فقد أَجمع المفسرون علي انھا نزلت في ابي طالب، وكذا نقل إجماعھم علي ھذا الزجاج وغيره، وھي عامه فانه لا يھدي الا يضل الا الله تعاليٰ.
”مفسرین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت کریمہ ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ زجاج وغیرہ نے مفسرین کا اجماع اسی طرح نقل کیا ہے۔ یہ آیت عام ( بھی ) ہے۔ ہدایت دینا اور گمراہ کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے۔“ ( شرح صحیح مسلم للنووی : 41/1)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852ھ) لکھتے ہیں :
”بیان کرنے والے اس بات میں اختلاف نہیں کرتے کہ یہ آیت ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔“ ( فتح الباری لا بن حجر 506/8)

دلیل نمبر 2 :

سیدنا مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

 أَنَّ أَبَا طَالِبٍ لَمَّا حَضَرَتْهُ الوَفَاةُ، دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ، فَقَالَ : أَيْ عَمِّ، قُلْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ : يَا أَبَا طَالِبٍ، تَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَلَمْ يَزَالاَ يُكَلِّمَانِهِ، حَتَّى قَالَ آخِرَ شَيْءٍ كَلَّمَهُمْ بِهِ : عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ، مَا لَمْ أُنْهَ عَنْهُ فَنَزَلَتْ : ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الجَحِيمِ﴾ (التوبة : 113) وَنَزَلَتْ : ﴿إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ﴾ (القصص : 56)
”جب ابوطالب کی وفات کا وقت آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بن المغیرہ کو دیکھا تو فرمایا : اے چچا ! لا اله الا الله کہہ دیں کہ اس کلمے کے ذریعے اللہ کے ہاں آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ کہنے لگے : اے ابوطالب ! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے منحرف ہو جائیں گے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل اپنی بات ابوطالب کو پیش کرتے رہے اور بار بار یہ کہتے رہے، حتیٰ کہ ابوطالب نے اپنی آخری بات یوں کی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔ انہوں نے لا اله الا الله کہنے سے انکار کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے جب تک روکا نہ گیا، اللہ تعالیٰ سے آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرما دیں : ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الجَحِيمِ﴾ (التوبة : 113) ”نبی اور مؤمنوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے استغفار کریں، اگرچہ وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، اس کے بعد کہ انہیں ان کے جہنمی ہونے کا واضح علم ہو جائے۔“

اللہ تعالیٰ نے ابوطالب کے بارے میں قرآن نازل کرتے ہوئے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا :
﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾ (القصص : ٥٦) ”بے شک آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاه ہے۔“ ( صحیح البخاری : 3884 )

یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ ابوطالب کافر تھے۔ وہ ملت عبدالمطلب پر فوت ہوئے۔ انہوں نے مرتے وقت کلمہ پڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کو ہدایت نصیب نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ان کے حق میں دعا کرنے سے منع کر دیا تھا۔

دلیل نمبر 3:

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں :

 قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمِّهِ: قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ لَكَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، قَالَ: لَوْلَا أَنْ تُعَيِّرَنِي قُرَيْشٌ، يَقُولُونَ: إِنَّمَا حَمَلَهُ عَلَى ذَلِكَ الْجَزَعُ لَأَقْرَرْتُ بِهَا عَيْنَكَ، فَأَنْزَلَ اللهُ : ﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾ (۲۸-القصص : ٥٦)

   ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا (ابوطالب) سے کہا «لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» کہہ دیں ۔ میں قیامت کے روز اس کلمے کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دوں گا ۔ انہوں نے جواب دیا : اگر مجھے قریش یہ طعنہ نہ دیتے کہ موت کی گھبراہٹ نے اسے اس بات پر آمادہ کر دیا ہے تو میں یہ کلمہ پڑھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کر دیتا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی : ﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾ (۲۸-القصص : ٥٦) ”یقیناً جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے ، البتہ جسے اللہ چاہے ہدیات عطا فرمادیتا ہے ۔“ ( صحیح مسلم : 55/1، ح:25)

دلیل نمبر 4 :

سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا :

 مَا أَغْنَيْتَ عَنْ عَمِّكَ فَإِنَّهُ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : يا رسول الله، هل نفعت أبا طالب بشيء فإنه كان يحوطك ويغضب لك؟ قال: نعم، ھو فی ضحضاح من نار، لولا أنا لكان في الدرك الأسفل من النار

”اے اللہ کے رسول ! کیا آپ نے ابو طالب کو کوئی فائدہ دیا – وہ تو آپ کا دفاع کیا کرتے تھے اور آپ کے دوسروں سے غصے ہو جایا کر تے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ! ( میں نے اُنہیں فائُدہ پہنچایا ہے ) وہ اب با لائی طبقے میں ہیں۔ اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے نچلے حصے میں ہو تے۔“ (صحیح البخاری : 548/1، ح : 3883، صحیح المسلم : 115/1۔ ح : 209)

حا فظ سہیلی رحمہ اللہ (ھ581-508) فرماتے ہیں :
وظاھر الحديث يقتضي أن عبدالمطلب مات علي الشرك
”اس حدیث کے ظاہری الفاظ اس بات کے متقاضى ہیں کہ عبدالمطلب شرک پر فوت ہوئے تھے۔“ (الروض الانف : 19/4)

حا فظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (733-853ھ) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
فھذا شان من مات علي الكفر، فلو كان مات علي التوحيد لنجا من النار أصلا والاحاديث الصححة والاخبار المتكاثرة طاقحة بذلك ”یہ صورتحال تو اس شخص کی ہوتی ہےجو کفر پر فوت ہوا ہو۔ اگر ابوطالب توحید پر فوت ہوتے تو آگ سے مکمل طور پر نجات پا جاتے۔ لیکن بہت سی احادیث و اخبار اس (کفر ابو طالب) سے لبریز ہیں-“ (الاصابته في تميز الصحابته لابن حجر : 241/7)

 

 دلیل نمبر 5 :

 سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم وذكر عنده عمه فقال : ‏‏‏‏ لعله تنفعه شفاعتي يوم القيامة، ‏‏‏‏ فيجعل في ضحضاح من النار يبلغ كعبيه يغلي منه دماغه.
انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آپ کے چچا (ابوطالب) کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”شاید کہ ان کو میری سفارش قیامت کے دن فائدہ دے اور ان کو جہنم کے بالائی طبقے میں رکھا جائے جہاں عذاب صرف ٹخنوں تک ہو اور جس سے (صرف) ان کا دماغ کھولے گا۔“ (صحیح البخاری : 548/1، ح3885، صحیح المسلم : 115/1، ح210) 

دلیل نمبر6 :

 سیدنا عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 
أَهْوَنُ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا أَبُو طَالِبٍ وَهُوَ مُنْتَعِلٌ بِنَعْلَيْنِ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ
”جہنمیو ں میں سب سے ہلکے عذاب والے شخص ابو طالب ہوں گے۔ وہ آگ کے جوتے پہنے ہوں گے جن کی وجہ سے اُن کا دماغ کھو ل رہا ہو گا۔“ (صحیح المسلم : ح : 515) 

دلیل نمبر 7 :

 خلیفہ راشد سیدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : 
لَمَّا تُوُفِّيَ أَبِي أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ : إِنَّ عَمَّكَ قَدْ تُوُفِّيَ قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ ، قُلْتُ : إِنَّهُ مَاتَ مُشْرِكًا، قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ وَلَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي ، فَفَعَلْتُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَأَمَرَنِي أَنْ أَغْتَسِلَ 
”جب میرے والد فوت ہوئے تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حا ضر ہوا اور عرض کی : آپ کے چچا فوت ہو گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جا کر انہیں دفنا دیں۔“ میں نے عرض کی : یقیناً وہ تو مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جائیں اور انہیں دفنا دیں، لیکن جب تک میرے پاس واپس نہ آئیں کوئی نیا کام نہ کریں۔“ میں ایسا ہی کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا۔“ (مسند الطيالسي : ص : 19، ح، 120، وسنده‘ حسن متصل ) 

ایک روایت کے الفاظ ہیں :
إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبْتُ فَوَارَيْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَجِئْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ کے گمراہ چچا فوت ہو گئے ہیں ان کو کون دفنائے گا؟، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جائیں اور اپنے والد کو دفنا دیں۔ ( مسند الامام احمد : 97/1، سنن ابي داؤد : 3214، سنن النسائي : 190، 2008، واللفظ لهٗ، وسندهٗ حسن ) 

اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (الاصابته في تميز الصحابته لابن حجر : 114/7) اور امام ابنِ جارود رحمہ اللہ علیہم (550ھ) نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔ 

یہ حدیث نص قطعی ہے کہ ابوطالب مسلمان نہیں تھے۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ تک نہیں پڑھی۔

دلیل نمبر 8:

سیدنا اُسامہ رضی اللہ عنہ کا انتہائی واضح بیان ملاحظہ ہو: 
‏‏‏‏‏‏وَكَانَ عَقِيلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ هُوَ وَطَالِبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَرِثْهُ جَعْفَرٌ وَلَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا شَيْئًا لِأَنَّهُمَا كَانَا مُسْلِمَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ عَقِيلٌ وَطَالِبٌ كَافِرَيْنِ (صحیح بخاری 1588)
”عقیل اور طالب دونوں ابوطالب کے وارث بنے تھے، لیکن (ابو طالب کے بیٹے) سیدنا جعفر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اُن کی وراثت سے کچھ بھی نہ لیا کیونکہ وہ دونوں مسلمان تھے جبکہ عقیل اور طالب دونوں کا فر تھے۔“ (صحیح البخاری:1588،صحیح المسلم:33/2،ح:1614مختصراً) 

یہ روایت بھی بین دلیل ہے کہ ابوطالب کفر کی حا لت میں فوت ہو گئے تھے۔ اسی لئے عقیل اور طالب کے برعکس سیدنا جعفر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اُن کے وارث نہیں بنے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ ”نہ مسلمان کافر کا وارث بن سکتا ہے نہ کافر مسلمان کا۔“ (صحیح البخاری:551/2،ح:6764، صحیح المسلم:33/2،ح:1614) 

امام ابنِ عساکر رحمہ اللہ (499-571ھ) فرماتے ہیں:
وقيل : إنهُ أَسلَمَ وَلَا يَصِحٌ إسلامُهُ
”ایک قول یہ بھی ہے کہ ابوطالب مسلمان ہو گئے تھے، لیکن ان کا مسلمان ہونا ثابت نہیں ہے۔“ (تاریح ابن عساکر:307/66) 

ابوطالب کے ایمان لائے بغیر فوت ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت صدمہ ہوا تھا۔ وہ ہقیناً پوری زندگی اسلام دوست رہے۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے وہ ہمیشہ اپنے دل میں ایک نرم گو شہ رکھتے رہے لیکن اللہ کی مرضی کہ وہ اسلام کی دولت سے سرفراز نہ ہو سکے۔ اس لیے ہم اُن کے لیے اپنے دل میں نرم گو شہ رکھنے کے باوجود دُعا گو نہیں ہو سکتے۔

حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ (700-774ھ) ابو طالب کے کفر پر فوت ہونے کے بعد لکھتے ہیں:
وَلَوْلَا مَا نَهَانَا اللَّهُ عَنْهُ مِنَ الِاسْتِغْفَارِ لِلْمُشْرِكِينَ، لَاسْتَغْفَرْنَا لابي طَالب وترحمنا عَلَيْهِ ”اگر اللہ تعالیٰ نی ہمیں مشرکین کے لیے استغفار کرنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو ہم ابوطالب کے لیے استغفار کر تے اور اُن کے لیے رحم کی دعا بھی کرتے!“ (سیرةالرسول ابن کثیر:132/2)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!