إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ” (میری جانب سے) کہہ دو: اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ“ ۔ کا بیان
حدیث 1:
«عن ابن عباس رضي الله عنها ، أن ناسا من أهل الشرك كانوا قد قتلوا وأكثروا ، وزنوا وأكثروا فأتوا محمدا صلى الله عليه وسلم فقالوا: إن الذى تقول وتدعو إليه لحسن لو تخبرنا أن لما عملنا كفارة ، فنزل: وَ الَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا يَزْنُوْنَ ونزلت قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ»
صحیح بخاری، رقم: 4810
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مشرکین میں سے کچھ لوگوں نے بہت خون ناحق بہائے تھے اور بکثرت زنا کرتے رہے تھے، وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں اور جس کی دعوت دیتے ہیں وہ یقینا اچھی چیز ہے لیکن اگر آپ ہمیں اس بات سے آگاہ کر دیں کہ اب تک ہم نے جو گناہ کیے ہیں کیا وہ معافی کے قابل ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی جان کو ناحق قتل بھی نہیں کرتے ، جس کا قتل اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور وہ زنا کرتے ہیں۔ اور یہ آیت بھی نازل ہوئی: کہہ دیجیے! اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ۔“
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًاؕ-فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”یعقوب علیہ السلام نے کہا: بلکہ تمہارے دلوں نے تمہارے لیے ایک بری بات آراستہ کر دی ہے، لہذا صبر ہی بہتر ہے۔“ کا بیان
حدیث 2:
«وعن الزهري: سمعت عروة بن الزبير، وسعيد بن المسيب، وعلقمة بن وقاص ، وعبيد الله بن عبد الله، عن حديث عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم حين قال لها أهل الإفك ما قالوا فبرأها الله، كل حدثنى طائفة من الحديث . قال النبى صلى الله عليه وسلم: إن كنت بريئة فسيبرتك الله، وإن كنت ألممت بذنب فاستغفرى الله وتوبى إليه . قلت: إنى والله لا أجد مثلا إلا أبا يوسف: ﴿فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ وَ اللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوْنَ﴾ وأنزل الله: ﴿اِنَّ الَّذِيْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ﴾ العشر الآيات»
صحیح بخاری، رقم: 4690
”اور حضرت زہری سے روایت ہے کہ عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبید اللہ بن عبد اللہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہما کے اس واقعہ کے متعلق سنا، جس میں تہمت لگانے والوں نے ان پر تہمت لگائی تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی پاکی نازل کی۔ ان تمام لوگوں نے مجھ سے اس قصہ کا کچھ کچھ ٹکڑا بیان کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (عائشہ رضی اللہ عنہ سے ) فرمایا کہ اگر تم بری ہو تو عنقریب اللہ تعالیٰ تمہاری پاکی نازل کر دے گا لیکن اگر تو آلودہ ہو گئی ہے تو اللہ سے مغفرت طلب کر اور اس کے حضور میں توبہ کر (عائشہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ) میں نے اس پر کہا اللہ کی قسم! میری اور تمہاری مثال یوسف علیہ السلام کے والد جیسی ہے (اور انہیں کی کہی ہوئی بات میں بھی دہراتی ہوں کہ) سو صبر کرنا (ہی) اچھا ہے اور تم جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے عائشہ رضی اللہ عنہما کی پاکی میں سورہ نور کی ﴿اِنَّ الَّذِيْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ﴾ سے آخر تک دس آیات اتاریں۔ “
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ-اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”اے اللہ ! مجھے ایسی سلطنت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو میسر نہ ہو، بے شک تو ہی بہت عطا کرنے والا ہے۔“ کا بیان
حدیث 3:
«وعن أبى هريرة رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن عفريتا من الجن تفلت على البارحة أو كلمة نحوها ليقطع على الصلاة ، فأمكنني الله منه وأردت أن أربطه إلى سارية من سوارى المسجد حتى تصبحوا ، وتنظروا إليه كلكم ، فذكرت قول أخي سليمان: ﴿رَبِّ هَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْ بَعْدِيْ﴾ قال روح فرده خاسئا»
صحیح بخاری، رقم: 4808
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: گزشتہ رات ایک سرکش جن اچانک میرے پاس آیا یا اسی طرح کا کلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تاکہ میری نماز خراب کرے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دے دی اور میں نے سوچا کہ اسے مسجد کے ستون سے باندھ دوں تاکہ صبح کے وقت تم سب لوگ بھی اسے دیکھ سکو۔ پھر مجھ کو اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آ گئی کہ اے میرے رب! مجھے ایسی سلطنت دے کہ میرے بعد کسی کو میسر نہ ہو۔ روح نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جن کو ذلت کے ساتھ بھگا دیا۔ “
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿وَدًّا سُوَاعًا وَّ لَا يَغُوْثَ وَ يَعُوْقَ﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”ود، سواع، یغوث، یعوق (اور نسر)۔“ کا بیان
حدیث 4:
«وعن ابن عباس رضي الله عنهما صارت الأوثان التى كانت فى قوم نوح فى العرب بعد، أما ود كانت لكلب بدومة الجندل، وأما سواع: فكانت لهذيل ، وأما يغوث: فكانت لمراد ثم لبني غطيف ، بالجوف عند سيا، وأما يعوق: فكانت لهمدان ، وأما نسر: فكانت لحمير ، لآل ذي الكلاع ، أسماء رجال صالحين من قوم نوح ، فلما هلكوا أوحى الشيطان إلى قومهم أن انصبوا إلى مجالسهم التى كانوا يجلسون أنصابا وسموها بأسمائهم ، ففعلوا، فلم تعبد، حتى إذا هلك أولئك وتنسخ العلم عبدت»
صحیح بخاری، رقم: 4920
”اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ کہ جو بت حضرت موسی علیہ السلام کی قوم میں پوجے جاتے تھے بعد میں وہی عرب میں پوجے جانے لگے۔ وہ دومۃ الجندل میں بنی کلب کا بت تھا۔ سواع بنی ہذیل کا۔ یغوث بنی مراد کا اور مراد کی شاخ بنی غطیف کا جو وادی اجوف میں قوم کے سبا کے پاس رہتے تھے یعوق بنی ہمدان کا بت تھا۔ نسر حمیر کا بت تھا جو ذوالکلاع کی آل میں سے تھے۔ یہ پانچوں حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوں کے نام تھے جب ان کی موت ہو گئی تو شیطان نے ان کے دل میں ڈالا کہ اپنی مجلسوں میں جہاں وہ بیٹھتے تھے ان کے بت قائم کر لیں اور ان بتوں کے نام اپنے نیک لوگوں کے نام پر رکھ لیں ، چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اس وقت ان بتوں کی پوجا نہیں ہوتی تھی، لیکن جب وہ لوگ بھی مر گئے جنہوں نے بت قائم کئے تھے اور علم لوگوں میں نہ رہا تو ان کی پوجا ہونے لگی۔ “
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِيْرًا﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”بلاشبہ ہم نے آپ کو شہادت دینے والا ، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔“ کا بیان
حدیث 5:
«وعن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما: أن هذه الآية التى فى القرآن ﴿يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِيْرًا﴾ قال: فى التوراة: يا أيها النبى إنا أرسلناك شاهدا ومبشرا ونذيرا وحرزا للأميين ، أنت عبدى ورسولي ، سميتك المتوكل، ليس بفظ ولا غليظ ولا سخاب بالأسواق، ولا يدفع السيئة بالسيئة، ولكن يعفو ويصفح ولن يقبضه الله حتى يقيم به الملة العوجاء بأن يقولوا: لا إله إلا الله، فيفتح بها أعينا عميا ، وآذانا صما ، وقلوبا غلفا»
صحیح بخاری، رقم: 4838
”اور حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ یہ آیت جو قرآن میں ہے: اے نبی ! بے شک ہم نے آپ کو گواہی دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہی اللہ تعالیٰ نے تورات میں بھی فرمایا تھا: اے نبی ! بے شک ہم نے آپ کو گواہی دینے والا اور بشارت دینے والا اور ان پڑھوں (عربوں) کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ آپ میرے بندے ہیں اور میرے رسول اللہ ہیں۔ میں نے آپ کا نام متوکل رکھا، آپ نہ بدخو ہیں اور نہ سخت دل اور نہ بازاروں میں شور کرنے والے اور نہ وہ برائی کا بدلہ برائی سے دیں گے بلکہ معافی اور درگزر سے کام لیں گے اور اللہ ان کی روح اس وقت تک قبض نہیں کرے گا جب تک کہ وہ کج قوم (عربی) کو سیدھا نہ کر لیں یعنی جب تک وہ ان سے لا اله الا الله کا اقرار نہ کر لیں، پس اس کلمہ توحید کے ذریعہ وہ اندھی آنکھوں کو اور بہرے کانوں کو اور پردہ پڑے ہوئے دلوں کو کھول دیں گے۔ “
بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى: ﴿وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ ۖ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ۖ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ﴾ [غافر: 28]
اللہ تعالیٰ کا بیان ”اور فرعون کی آل میں سے ایک مومن آدمی نے کہا جو اپنا ایمان چھپاتا تھا، کیا تم ایک آدمی کو اس لیے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے حالانکہ یقیناً وہ تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے واضح دلیلیں لے کر آیا ہے اور اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ اسی پر ہے اور اگر وہ سچا ہے تو تمھیں اس کا کچھ حصہ پہنچ جائے گا جس کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے۔ بے شک اللہ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھنے والا سخت جھوٹا ہو۔ “
حدیث 6:
وعن عروة بن الزبير قال: قلت لعبد الله بن عمرو بن العاص أخبرنى بأشد ما صنع المشركون برسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال: بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بفناء الكعبة إذ أقبل عقبة بن أبى معيط فأخذ بمنكب رسول الله صلى الله عليه وسلم ولوى ثوبه فى عنقه فخنقه به خنقا شديدا ، فأقبل أبو بكر ، فأخذ بمنكبه، ودفع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وقال: ﴿أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ﴾
صحیح بخاری، رقم: 4815
”اور حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ آپ نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ سخت معاملہ مشرکین نے کیا کیا تھا؟ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے قریب نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اس نے آپ کا شانہ مبارک پکڑ کر آپ کو گردن میں اپنا کپڑا لپیٹ دیا اور اس کپڑے سے آپ کا گلا بڑی سختی کے ساتھ گھونٹنے لگا۔ اتنے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آگئے اور انہوں نے اس بدبخت کا مونڈھا پکڑ کر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا کیا اور کہا کہ کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کر دینا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کے پاس سے اپنی سچائی کے لیے روشن دلائل بھی ساتھ لایا ہے۔ “
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”ان لوگوں نے اللہ کی قدر نہیں کہ جو اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔“ کا بیان
حدیث 7:
وعن عبد الله رضي الله عنه قال: جاء حبر من الأحبار إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا محمد إنا نجد أن الله يجعل السموات على إصبع ، والأرضين على إصبع والشجر على إصبع ، والماء والثرى على إصبع ، وسائر الخلائق على إصبع ، فيقول: أنا الملك ، فضحك النبى صلى الله عليه وسلم حتى بدت نواجده تصديقا لقول الحبر ، ثم قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم: ﴿وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ﴾
صحیح بخاری، رقم: 4811
”اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: علمائے یہود میں سے ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ اے محمد ! ہم تورات میں پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اس طرح زمین کو ایک انگلی پر ، درختوں کو ایک انگلی پر ، پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر ، پھر فرمائے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ہنس دیئے اور آپ کے سامنے کے دانت دکھائی دینے لگے۔ آپ کا یہ ہنسنا اس یہودی عالم کی تصدیق میں تھا۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی: اور ان لوگوں نے اللہ کی عظمت نہ کی جیسی عظمت کرنا چاہیے تھی ۔ “
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ﴾
ارشاد باری تعالی: ”جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی۔“ کا بیان
حدیث 8:
وعن أبى سعيد رضي الله عنه قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: يكشف ربنا عن ساقه، فيسجد له كل مؤمن ومؤمنة ، فيبقى كل من كان يسجد فى الدنيا رياء وسمعة ، فيذهب ليسجد ، فيعود ظهره طبقا واحدا
صحیح بخاری، رقم: 4919
”اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: ہمارا رب قیامت کے دن اپنی پنڈلی کھولے گا اس وقت ہر مومن مرد اور ہر مومنہ عورت اس کے لیے سجدہ میں گر پڑیں گے۔ صرف وہ باقی رہ جائیں گے جو دنیا میں دکھاوے اور ناموری کے لیے سجدہ کرتے تھے۔ جب وہ سجدہ کرنا چاہیں گے تو ان کی پیٹھ تختہ ہو جائے گی اور وہ سجدہ کے لیے نہ مڑ سکیں گے۔ “
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”اور جو کچھ رسول تمھیں دے وہ لے لو۔“ کا بیان
حدیث 9:
وعن عبد الله قال: لعن الله الواشمات والموتشمات، والمتنمصات والمتفلجات للحسن ، المغيرات خلق الله، فبلغ ذلك امرأة من بني أسد يقال لها: أم يعقوب، فجاءت فقالت: إنه بلغني عنك أنك لعنت كيت وكيت ، فقال: وما لي لا ألعن من لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ومن هو فى كتاب الله؟ فقالت لقد قرأت ما بين اللوحين فما وجدت فيه ما تقول، قال: لئن كنت قرأتيه لقد وجدتيه، أما قرأت: ﴿وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا﴾ قالت: بلى ، قال: فإنه قد نهى عنه ، قالت: فإنى أرى أهلك يفعلونه، قال: فاذهبي فانظري ، فذهبت فنظرت فلم تر من حاجتها شيئا، فقال: لو كانت كذلك ما جامعتها
صحیح بخاری، رقم: 4886
”اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گودوانے والیوں اور حسن کے لیے آگے کے دانتوں میں کشادگی کرنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے کہ یہ اللہ کی پیدا کی ہوئی صورت میں تبدیلی کرتی ہیں۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ کلام قبیلہ بنی اسد کی ایک عورت کو معلوم ہوا جو ام یعقوب کے نام سے معروف تھی وہ آئی اور کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اس طرح کی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے؟ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا آخر کیوں نہ میں انہیں لعنت کروں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ کے حکم کے مطابق ملعون ہے۔ اس عورت نے کہا کہ قرآن مجید تو میں نے بھی پڑھا ہے لیکن آپ جو کچھ کہتے ہیں میں نے تو اس میں کہیں یہ بات نہیں دیکھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم نے بغور پڑھا ہوتا تو تمہیں ضرور مل جاتا، کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی کہ: رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں جو کچھ دیں لے لیا کرو اور جس سے تمہیں روک دیں ، رک جایا کرو۔ اس نے کہا کہ پڑھی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں سے روکا ہے۔ اس پر اس عورت نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ کی بیوی بھی ایسا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اچھا جاؤ اور دیکھ لو۔ وہ عورت گئی اور اس نے دیکھا لیکن اس طرح کی ان کے یہاں کوئی معیوب چیز اسے نہیں ملی۔ پھر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میری بیوی اسی طرح کرتی تو بھلا وہ میرے ساتھ رہ سکتی تھی؟ ہر گز نہیں۔ “
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔“ کا بیان
حدیث 10:
«عن على رضي الله عنه يقول: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم انا والزبير والمقداد، فقال: ” انطلقوا حتى تاتوا روضة خاخ، فإن بها ظعينة معها كتاب، فخذوه منها، فذهبنا تعادى بنا خيلنا حتى اتينا الروضة، فإذا نحن بالظعينة، فقلنا: اخرجي الكتاب، فقالت: ما معي من كتاب، فقلنا: لتخرجن الكتاب، او لنلقين الثياب، فاخرجته من عقاصها، فاتينا به النبى صلى الله عليه وسلم، فإذا فيه من حاطب بن ابي بلتعة إلى اناس من المشركين ممن بمكة يخبرهم ببعض امر النبى صلى الله عليه وسلم، فقال النبى صلى الله عليه وسلم: ” ما هذا يا حاطب؟ ” قال: لا تعجل على يا رسول الله، إني كنت امرا من قريش ولم اكن من انفسهم، وكان من معك من المهاجرين لهم قرابات يحمون بها اهليهم واموالهم بمكة، فاحببت إذ فاتني من النسب فيهم ان اصطنع إليهم يدا يحمون قرابتي وما فعلت ذلك كفرا ولا ارتدادا عن ديني، فقال النبى صلى الله عليه وسلم: ” إنه قد صدقكم” فقال عمر: دعني يا رسول الله، فاضرب عنقه، فقال: ” إنه شهد بدرا وما يدريك لعل الله عز وجل اطلع على اهل بدر، فقال: ” اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم»
صحیح بخاری رقم: 4890
”اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، حضرت زبیر اور مقدار رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا اور فرمایا کہ چلے جاؤ اور جب مقام خاخ کے باغ پر پہنچ جاؤ گے (جو مکہ اور مدینہ کے درمیان تھا) تو وہاں تمہیں ہودج میں ایک عورت ملے گی، اس کے ساتھ ایک خط ہوگا، وہ خط تم اس سے لے لینا۔ چنانچہ ہم روانہ ہوئے ہمارے گھوڑے ہمیں تیز رفتاری کے ساتھ لے جا رہے تھے ۔ آخر جب ہم اس باغ پر پہنچے تو واقعی وہاں ہم نے ہودج میں اس عورت کو پا لیا ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ اس نے کہا میرے پاس کوئی خط نہیں ہے ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال دے ورنہ ہم تیرے سارے کپڑے اتار کر تلاشی لیں گے۔ آخر اس نے اپنی چوٹی سے خط نکالا ہم لوگ وہ خط لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اس خط میں لکھا ہوا تھا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین کے چند آدمیوں کی طرف جو مکہ میں تھے اس خط میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیاری کا ذکر کر لکھا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے معاملہ میں جلدی نہ فرمائیں میں قریش کے ساتھ بطور حلیف (زمانہ قیام مکہ میں) رہا کرتا تھا لیکن ان کے قبیلہ و خاندان سے میرا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کے برخلاف آپ کے ساتھ جو دوسرے مہاجرین ہیں ان کی قریش میں رشتہ داریاں ہیں اور ان کی رعایت سے قریش مکہ میں رہ جانے والے ان کے اہل وعیال اور مال کی حفاظت کرتے ہیں۔ میں نے چاہا کہ جبکہ ان سے میرا کوئی نسبی تعلق نہیں ہے تو اس موقع پر ان پر ایک احسان کر دوں اور اس کی وجہ سے وہ میرے رشتہ داروں کی مکہ میں حفاظت کریں۔ یا رسول اللہ ! میں نے یہ عمل کفر یا اپنے دین سے پھر جانے کی وجہ سے نہیں کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یقیناً انہوں نے تم سے سچی بات کہہ دی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ بولے کہ یا رسول اللہ ! مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بدر کی جنگ میں ہمارے ساتھ موجود تھے ۔ تمہیں کیا معلوم، اللہ تعالیٰ بدر والوں کے تمام حالات سے واقف تھا اور اس کے باوجود ان کے متعلق فرما دیا کہ جو جی چاہے کرو کہ میں نے تمہیں معاف کر دیا۔ “
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”پس دو کمانوں کے بقدر فاصلہ رہ گیا تھا بلکہ اس سے بھی کم۔“ کا بیان
حدیث 11:
وعن زر، عن عبد الله ﴿فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ﴾ قال: حدثنا ابن مسعود: أنه رأى جبريل له ست مائة جناح
صحیح بخاری، رقم: 4856
”اور حضرت زر بن حبیش سے روایت ہے، وہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے درج ذیل آیات کی تفسیر بیان کرتے ہیں: صرف دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا تھا بلکہ اس سے بھی کم ، پھر اس نے وحی پہنچائی اس (اللہ ) کے بندے کی طرف جو وحی پہنچائی ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کو (ان کی اصل شکل میں) دیکھا، ان کے چھ سو پر تھے۔ “
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ﴾
ارشاد باری تعالی: ”اپنی آواز میں نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آواز پر اونچی نہ کرو“ کا بیان
حدیث 12:
«وعن أنس بن مالك رضي الله عنه: أن النبى صلى الله عليه وسلم افتقد ثابت بن قيس، فقال رجل: يا رسول الله! أنا أعلم لك علمه، فأتاه فوجده جالسا فى بيته منكسا رأسه، فقال له: ما شأنك؟ فقال: شر، كان يرفع صوته فوق صوت النبى صلى الله عليه وسلم فقد حبط عمله وهو من أهل النار ، فأتى الرجل النبى صلى الله عليه وسلم ، فأخبره أنه قال كذا وكذا ، فقال موسى: فرجع إليه المرة الآخرة، ببشارة عظيمة ، فقال: اذهب إليه فقل له: إنك لست من أهل النار ، ولكنك من أهل الجنة»
صحیح بخاری، رقم: 4846
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔ ایک صحابی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ کے لیے ان کی خبر لاتا ہوں۔ پھر وہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے یہاں آئے۔ دیکھا کہ وہ گھر میں سر جھکائے بیٹھے ہیں پوچھا کیا حال ہے؟ کہا کہ برا حال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کے مقابلہ میں بلند آواز سے بولا کرتا تھا اب سارے نیک عمل اکارت ہوئے اور اہل دوزخ میں قرار دے دیا گیا ہوں۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے جو کچھ کہا تھا اس کی اطلاع آپ کو دی۔ حضرت موسیٰ بن انس نے بیان کیا کہ وہ شخص اب دوبارہ ان کے لیے ایک عظیم بشارت لے کر ان کے پاس آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ان کے پاس جاؤ اور کہو کہ تم اہل دوزخ میں سے نہیں ہو بلکہ تم اہل جنت میں سے ہو۔ “
بَاب قَوْلِهِ: ﴿وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِ﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”اپنے رب کی حمد کے ساتھ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے تسبیح کیجیے“ کا بیان
حدیث 13:
وعن جرير بن عبد الله قال: كنا جلوسا ليلة مع النبى صلى الله عليه وسلم فنظر إلى القمر ليلة أربع عشرة فقال: إنكم سترون ربكم كما ترون هذا لا تضامون فى رؤيته ، فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس ، وقبل غروبها فافعلوا، ثم قرأ: ﴿وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِ﴾
صحیح بخاری، رقم: 4851
اور حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے چودہویں رات تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی طرف دیکھا اور پھر فرمایا: یقینا تم اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اس کی رؤیت میں تم دھکم پیل نہیں کرو گے (بلکہ بڑے اطمینان سے ایک دوسرے کو دھکا دیئے بغیر دیکھو گے ) اس لیے اگر تمہارے لئے ممکن ہو تو سورج نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے نماز نہ چھوڑو۔ پھر آپ نے یہ آیت اور اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے رہیے ”آفتاب نکلنے سے پہلے اور چھپنے سے پہلے“ کی تلاوت کی۔
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿وَ يُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”وہ دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے“ کا بیان
حدیث 14:
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: أتى رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله أصابنى الجهد ، فأرسل إلى نسائه فلم يجد عندهن شيئا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا رجل يضيفه هذه الليلة ، يرحمه الله؟ فقام رجل من الأنصار فقال: أنا يا رسول الله ، فذهب إلى أهله فقال لامرأته: ضيف رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تدخـريه شيئا، قالت: والله ما عندي إلا قوت الصبية، قال: فإذا أراد الصبية العشاء فنوميهم وتعالى فأطفني السراج ، ونطوى بطوننا الليلة ، ففعلت ، ثم غدا الرجل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: لقد عجب الله عزوجل، أو ضحك من فلان وفلانة ، فأنزل الله عز وجل: ﴿وَ يُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ﴾
صحیح بخاری، رقم: 4889
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صاحب خود (ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ) حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! میں فاقہ سے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے پاس بھیجا (کہ وہ آپ کی دعوت کریں) لیکن ان کے پاس کوئی چیز کھانے کی نہیں تھی ۔ آپ نے فرمایا: کیا کوئی شخص ایسا نہیں جو آج رات اس مہمان کی میزبانی کرے؟ اللہ اس پر رحم کرے گا۔ اس پر ایک انصاری صحابی (ابوطلحہ رضی اللہ عنہ) کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول ! یہ آج میرے مہمان ہیں پھر وہ انہیں اپنے ساتھ گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں، کوئی چیز ان سے بچا کے نہ رکھنا۔ بیوی نے کہا کہ اللہ کی قسم میرے پاس اس وقت بچوں کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے۔ انصاری صحابی نے کہا: اگر بچے کھانا مانگیں تو انہیں سلا دو اور آؤ یہ چراغ بھی بجھا دو، آج رات ہم بھوکے ہی رہ لیں گے۔ بیوی نے ایسا ہی کیا۔ پھر وہ انصاری صحابی صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فلاں (انصاری صحابی) اور ان کی بیوی (کے عمل ) کو پسند فرمایا۔ یا (آپ نے یہ فرمایا کہ) اللہ تعالیٰ مسکرایا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ﴿وَ يُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ﴾ یعنی اور اپنے سے مقدم رکھتے ہیں اگرچہ خود فاقہ میں ہی ہوں۔ “
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿اِتَّخَذُوْۤا اَيْمَانَهُمْ جُنَّةً﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”انھوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے“ کا بیان
حدیث 15:
«وعن زيد بن أرقم رضي الله عنه قال: كنت مع عمي فسمعت عبد الله بن أبى ابن سلول يقول: لا تنفقوا على من عند رسول الله حتى ينفضوا . وقال أيضا: لئن رجعنا إلى المدينة ليخرجن الأعز منها الأذل . فذكرت ذلك لعمي، فذكر عمي لرسول الله صلى الله عليه وسلم فأرسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عبد الله بن أبى وأصحابه فحلفوا ما قالوا فصدقهم رسول الله صلى الله عليه وسلم وكذبني، فأصابني هم لم يصبني مثله قط فجلست فى بيتي، فأنزل الله عزوجل ﴿اِذَا جَآءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ﴾ إلى قوله: ﴿هُمُ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰى مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ﴾ إلى قوله: ﴿لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ﴾ ، فأرسل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقرأها على ثم قال: إن الله قد صدقك»
صحیح بخاری، رقم: 4901
”اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں اپنے چچا (سعد بن عبادہ یا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ) کے ساتھ تھا میں نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو کہتے سنا کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہیں ان پر خرچ مت کرو تاکہ وہ ان کے پاس سے بھاگ جائیں۔ یہ بھی کہا کہ اگر اب ہم مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلیلوں کو نکال کر باہر کر دے گا۔ میں نے اس کی یہ بات چچا سے آکر کہی اور انہوں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلوایا۔ انہوں نے قسم کھالی کہ ایسی کوئی بات انہوں نے نہیں کہی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کو سچا جانا اور مجھ کو جھوٹا سمجھا۔ مجھے اس کا اتنا صدمہ پہنچا کہ ایسا کبھی نہیں پہنچا ہوگا پھر میں گھر کے اندر بیٹھ گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل کی: ﴿اِذَا جَآءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ﴾ سے اس آیت تک ﴿لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ﴾ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا اور میرے سامنے اس سورت کی تلاوت کی پھر فرمایا: اللہ نے تمہارے بیان کو سچا کر دیا ہے۔ “
جنات اور نظر بد سے بچاؤ کے لیے
حدیث 16:
«وعن أبى سعيد رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتعوذ من الجان وعين الإنسان حتى نزلت المعوذتان فلما نزلتا أخذ بهما وترك ما سواهما»
سنن ترمذی، رقم: 2058 ، سنن نسائی، رقم: 5494 ، سنن ابن ماجه رقم: 3511 – محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنات اور انسانوں کی نظر سے پناہ مانگا کرتے تھے یہاں تک کہ معوذتین سورتیں (الفلق اور الناس) نازل ہوئیں، جب وہ نازل ہوئیں تو آپ نے ان کے ساتھ دم کرنا شروع کر دیا اور ان کے علاوہ تمام دموں کو چھوڑ دیا۔ “
سورہ فاتحہ نور ہے
حدیث 17:
«وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال بينما جبريل عليه السلام القاعد عند النبى صلى الله عليه وسلم سمع نقيضا من فوقه فرفع رأسه فقال: هذا باب من السماء فتح اليوم لم يفتح قط إلا اليوم فنزل منه ملك فقال: هذا ملك نزل إلى الأرض لم ينزل قط إلا اليوم فسلم وقال أبشر بنورين أوتيتهما لم يؤتهما نبي قبلك فاتحة الكتاب وخواتيم سورة البقرة ، لن تقرأ بحرف منهما إلا أعطيته»
صحیح مسلم کتاب فضائل القرآن، رقم: 806
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے اوپر سے ایک دروازہ کھلنے کی زور دار آواز سنی، سر اٹھایا اور فرمایا کہ یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا۔ اس سے ایک فرشتہ زمین پر نازل ہوا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں نازل ہوا۔ اس نے حاضر ہو کر سلام عرض کیا اور (نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ) کہا کہ آپ کو دو نور مبارک ہوں ، آپ سے پہلے یہ نور کسی نبی کو عطا نہیں کیے گئے ، ایک سورۃ فاتحہ اور دوسرا سورہ بقرہ کی آخری دو آیات، جو بھی یہ دو آیات پڑھے گا اسے اس کی مانگی ہوئی چیز ضرور عطا کی جائے گی۔ “
روز قیامت سورہ بقرہ اور آل عمران سفارش کریں گی
حدیث 18:
«وعن النواس بن سمعان الكلابي يقول: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: يؤتى بالقرآن يوم القيامة وأهله الذين كانوا يعملون ، تقدمه سورة البقرة وآل عمران ، وضرب لهما رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة أمثال ما نسيتهن بعد، قال: كأنهما غمامتان أو ظلتان سوداوان بينهما شرق أو كأنهما حزقان من طير صواف تحاجان عن صاحبهما»
صحیح مسلم، کتاب فضائل القرآن، رقم: 805
”اور حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مروی ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن قرآن اور اس پر عمل کرنے والوں کو لایا جائے گا، سورہ بقرہ اور سورۃ آل عمران سب سے آگے آگے ہوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے تین مثالیں بھی بیان فرمائیں جنہیں میں کبھی نہیں بھولا ۔ آپصلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: گویا یہ دونوں سورتیں دو بادل یا دو گھنے سائبان ہوں جن میں چمک دمک ہو یا پر کھولے ہوئے پرندوں کے دو جھرمٹ ہوں، اپنے پڑھنے والوں کو یہ سفارش کریں گی۔ “
سورہ ملک کا روز محشر اپنے پڑھنے والوں کے لیے جھگڑا کرنے کا بیان
حدیث 19:
وعن أنس بن مالك رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سورة (في) القرآن خاصمت عن صاحبها حتى أدخلته الجنة: ﴿تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ٘﴾
معجم اوسط للطبرانی: 76/45 ، صحیح الجامع الصغير، رقم: 3644
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قرآن مجید میں ایک ایسی سورت ہے جو اپنے ساتھی (یعنی پڑھنے والے) کی مغفرت کے لیے (روزِ قیامت) جھگڑا کرے گی حتیٰ کہ اسے جنت میں داخل کرائے گی اور وہ سورت ﴿تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ٘﴾ ہے۔ “
سورہ اخلاص سے محبت کی فضیلت
حدیث 20:
«وعن عائشة أن النبى صلى الله عليه وسلم بعث رجلا على سرية وكان يقرأ لأصحابه فى صلاتهم فيختم بـ ﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ﴾ فلما رجعوا ذكروا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: سلوه ل أى شيء يصنع ذلك ، فسألوه ، فقال لأنها صفة الرحمن وأنا أحب أن أقرأ بها ، فقال النبى صلى الله عليه وسلم: أخبروه أن الله يحبه»
صحیح بخاری، کتاب التوحيد رقم: 7375 ، صحیح مسلم، رقم: 813
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجا، وہ اپنے ساتھیوں کو جب نماز پڑھاتا تو قراءت کے اختتام پر ﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ﴾ ضرور پڑھتا، جب یہ لوگ واپس آئے تو انہوں نے اس بات کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ انہوں نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس سورہ مبارکہ میں رحمن کی صفت بیان کی گئی ہے، اس لیے مجھے اس سورت کے پڑھنے سے بہت محبت ہے، یہ سن کر نبی صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اسے بتا دو کہ اللہ تعالیٰ کو بھی اس سے محبت ہے۔ “
سورہ فاتحہ کی فضیلت
حدیث 21:
«وعن أبى سعيد الخدري قال: كنا فى مسير لنا فنزلنا، فجاءت جارية فقالت: إن سيد الحي سليم ، وإن نفرنا غيب فهل منكم راق؟ فقام معها رجل ما كنا نأبنه برقية فرقاه فبرأ ، فأمر له بثلاثين شاة وسقانا لبنا ، فلما رجع قلنا له: أكنت تحسن رقية أو كنت ترقي؟ قال: لا ، ما رقيت إلا بأم الكتاب، قلنا: لا تحدثوا شيئا حتى نأتي أو نسأل النبى صلى الله عليه وسلم فلما قدمنا المدينة ذكرناه للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: وما كان يدريه أنها رقية ، اقسموا واضربوا لي بسهم»
صحیح بخاری، رقم: 5007
”اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک (فوجی) سفر میں تھے (رات میں) ہم نے ایک قبیلہ کے نزدیک پڑاؤ کیا۔ پھر ایک لونڈی آئی اور کہنے لگی کہ قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ہے اور ہمارے قبیلے کے مرد موجود نہیں ہیں، کیا تم میں کوئی بچھو کا جھاڑ پھونک کرنے والا ہے؟ ایک صحابی (خود ابو سعید ) اس کے ساتھ کھڑے ہو گئے ، ہم کو معلوم تھا کہ وہ جھاڑ پھونک نہیں جانتے لیکن انہوں نے قبیلہ کے سردار کو جھاڑا تو اسے صحت ہوگئی۔ اس نے اس کے شکرانے میں تیسں بکریاں دینے کا حکم دیا اور ہمیں دودھ پلایا۔ جب وہ جھاڑ پھونک کر واپس آئے تو ہم نے ان سے پوچھا: کیا تم واقعی کوئی منتر جانتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں، میں نے تو صرف سورۃ فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کر دیا تھا۔ ہم نے کہا: اچھا جب تک ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق نہ پوچھ لیں ان بکریوں کے بارے میں اپنی طرف سے کچھ نہ کہو، چنانچہ ہم نے مدینہ پہنچ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انہوں نے کیسے جانا کہ سورۂ فاتحہ منتر بھی ہے۔ (جاؤ یہ مال حلال ہے) اسے تقسیم کر لو اور اس میں میرا بھی حصہ لگانا۔ “
قرآن مجید کی تلاوت کے وقت سکینت اور فرشتوں کا اترنا
حدیث 22:
«وعن أسيد بن حضير قال: بينما هو يقرأ من الليل سورة البقرة وفرسه مربوطة عنده ، إذ جالت الفرس ، فسكت فسكتت فقرأ فجالت الفرس ، فسكت وسكتت الفرس قرأ فجالت الفرس ، فانصرف وكان ابنه يحيى قريبا منها فأشفق أن تصيبه، فلما اجتره رفع رأسه إلى السماء حتى ما يراها ، فلما أصبح حدث النبى صلى الله عليه وسلم فقال له: اقرأ يا ابن حضير، اقرأيا ابن حضير، قال: فأشفقت يا رسول الله أن تطأ يحيى وكان منها قريبا ، فرفعت رأسي فانصرفت إليه فرفعت رأسي إلى السماء، فإذا مثل الظلة فيها أمثال المصابيح فخرجت حتى لا أراها . قال: وتدري ما ذاك؟ قال: لا ، قال: تلك الملائكة دنت لصوتك، ولو قرأت لأصبحت ينظر الناس إليها ، لا تتوارى منهم»
صحیح بخاری، رقم: 5018
”اور حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رات کے وقت وہ سورہ بقرہ کی تلاوت کر رہے تھے اور ان کا گھوڑا ان کے پاس ہی بندھا ہوا تھا۔ اتنے میں گھوڑا بدکنے لگا تو انہوں نے تلاوت بند کر دی تو گھوڑا بھی رک گیا۔ پھر انہوں نے تلاوت شروع کی تو گھوڑا پھر بدکنے لگا۔ اس مرتبہ بھی جب انہوں نے تلاوت بند کی تو گھوڑا بھی ٹھہر گیا۔ تیسری مرتبہ انہوں نے جب تلاوت شروع کی تو پھر گھوڑا بدکا۔ ان کے بیٹے یحیی چونکہ گھوڑے کے قریب تھے، اس لیے اس ڈر سے کہ کہیں انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے۔ انہوں نے تلاوت بند کر دی اور بچے کو وہاں سے ہٹا دیا، پھر آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو کچھ نہ دکھائی دیا۔ صبح کے وقت یہ واقعہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابن حضیر ! تم پڑھتے رہتے تلاوت بند نہ کرتے۔ (تو بہتر تھا) انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! مجھے ڈر لگا کہ کہیں گھوڑا میرے بچے یحیی کو نہ کچل ڈالے، وہ اس سے بہت قریب تھا۔ میں نے سر اوپر اٹھایا اور پھر یحیی کی طرف گیا۔ پھر میں نے آسمان کی طرف سر اٹھایا تو ایک چھتری سی نظر آئی جس میں روشن چراغ تھے۔ پھر جب میں دوبارہ باہر آیا تو میں نے اسے نہیں دیکھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہیں معلوم بھی ہے وہ کیا چیز تھی؟ اسید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ فرشتے تھے تمہاری آواز سننے کے لیے قریب ہورہے تھے اگر تم رات بھر پڑھتے رہتے تو صبح تک اور لوگ بھی انہیں دیکھتے وہ لوگوں سے چھپتے نہیں ۔ “
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”اور (اللہ نے حضرت) آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے نام بتا دیے“ کا بیان
حدیث 23:
«وعن أنس رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: يجتمع المؤمنون يوم القيامة، فيقولون: لو استشفعنا إلى ربنا فياتون آدم فيقولون: انت ابو الناس خلقك الله بيده واسجد لك ملائكته، وعلمك اسماء كل شيء، فاشفع لنا عند ربك حتى يريحنا من مكاننا هذا، فيقول: لست هناكم ويذكر ذنبه، فيستحي ائتوا نوحا، فإنه اول رسول بعثه الله إلى اهل الارض، فياتونه، فيقول: لست هناكم ويذكر سؤاله ربه ما ليس له به علم فيستحي، فيقول: ائتوا خليل الرحمن، فياتونه، فيقول: لست هناكم ائتوا موسى عبدا كلمه الله، واعطاه التوراة، فياتونه، فيقول: لست هناكم، ويذكر قتل النفس بغير نفس فيستحي من ربه، فيقول: ائتوا عيسى عبد الله ورسوله، وكلمة الله وروحه، فيقول: لست هناكم ائتوا محمدا صلى الله عليه وسلم عبدا غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تاخر، فياتوني، فانطلق حتى استاذن على ربي، فيؤذن لي، فإذا رايت ربي وقعت ساجدا، فيدعني ما شاء الله، ثم يقال: ارفع راسك وسل تعطه، وقل يسمع، واشفع تشفع، فارفع راسي فاحمده بتحميد يعلمنيه، ثم اشفع فيحد لي حدا، فادخلهم الجنة، ثم اعود إليه فإذا رايت ربي مثله، ثم اشفع فيحد لي حدا، فادخلهم الجنة، ثم اعود الرابعة، فاقول: ما بقي فى النار إلا من حبسه القرآن ووجب عليه الخلود»
صحیح بخاری، رقم: 4476
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مؤمنین قیامت کے دن پریشان ہو کر جمع ہوں گے اور (آپس میں) کہیں گے۔ بہتر یہ تھا کہ اپنے رب کے حضور میں آج کسی کو ہم اپنا سفارشی بناتے۔ چنانچہ سب لوگ آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ آپ انسانوں کے باپ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا۔ آپ کے لیے فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا اور آپ کو ہر چیز کے نام سکھائے۔ آپ ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں سفارش کر دیں تاکہ آج کی اس مصیبت سے ہمیں نجات ملے ۔ آدم علیہ السلام کہیں گے، میں اس کے لائق نہیں ہوں، وہ اپنی لغزش کو یاد کریں گے اور ان کو پروردگار کے حضور میں جانے سے شرم آئے گی ۔ کہیں گے کہ تم لوگ نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ وہ سب سے پہلے نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے (میرے بعد ) زمین والوں کی طرف مبعوث کیا تھا۔ سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں اور وہ اپنے رب سے اپنے سوال کو یاد کریں گے جس کے متعلق انہیں کوئی علم نہیں تھا۔ ان کو بھی شرم آئے گی اور کہیں گے کہ اللہ کے خلیل علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے لیکن وہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں، موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، ان سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا تھا اور تورات دی تھی۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے لیکن وہ بھی عذر کر دیں گے کہ مجھ میں اس کی جرات نہیں۔ ان کو بغیر کسی حق کے ایک شخص کو قتل کرنا یاد آ جائے گا اور اپنے رب کے حضور میں جاتے ہوئے شرم دامن گیر ہوگی ۔ کہیں گے تم عیسی علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ، اس کا کلمہ اور اس کی روح ہیں لیکن عیسی علیہ السلام بھی یہی کہیں گے کہ مجھ میں اس کی ہمت نہیں، تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے مقبول بندے ہیں اور اللہ نے ان کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دیے ہیں۔ چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے، میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور اپنے رب سے اجازت چاہوں گا۔ مجھے اجازت مل جائے گی ، پھر میں اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدہ میں گر پڑوں گا اور جب تک اللہ چاہے گا میں سجدہ میں رہوں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا اپنا سر اٹھاؤ اور جو چاہو مانگو, تمہیں دیا جائے گا، جو چاہو کہو تمہاری بات سنی جائے گی۔ شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اللہ کی وہ حمد بیان کروں گا جو مجھے اس کی طرف سے سکھائی گئی ہوگی۔ اس کے بعد شفاعت کروں گا اور میرے لیے ایک حد مقرر کر دی جائے گی۔ میں انہیں جنت میں داخل کراؤں گا اور پھر جب واپس آؤں گا تو اپنے رب کو پہلے کی طرح دیکھوں گا اور شفاعت کروں گا، اس مرتبہ پھر میرے لیے حد مقرر کر دی جائے گی۔ جنہیں میں جنت میں داخل کراؤں گا۔ چوتھی مرتبہ جب میں واپس آؤں گا تو عرض کروں گا کہ جہنم میں ان لوگوں کے سوا اور کوئی اب باقی نہیں رہا جنہیں قرآن نے ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا ضروری قرار دے دیا ہے۔ “
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾
ارشاد باری تعالی: ”تم دانستہ طور پر اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ“ کا بیان
حدیث 24:
«وعن عبد الله قال: سألت النبى صلى الله عليه وسلم: أى الذنب أعظم عند الله؟ قال: أن تجعل لله ندا وهو خلقك، قلت: إن ذلك لعظيم ، قلت: ثم أي؟ قال: وأن تقتل ولدك تخاف أن يطعم معك ، قلت: ثم أي؟ قال: أن تزاني حليلة جارك»
صحیح بخاری، رقم: 4477
”اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے نزدیک کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ فرمایا: یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو برابر ٹھہراؤ حالانکہ اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا ہے۔ میں نے عرض کیا: یہ تو واقعی سب سے بڑا گناہ ہے، پھر اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ فرمایا: یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں گے۔ میں نے پوچھا: اور اس کے بعد؟ فرمایا: یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرو۔ “
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی تک تمھیں ان لوگوں جیسے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں“ کی تفسیر
حدیث 25:
«وعن عروة قال: قالت عائشة: معاذ الله ، والله ما وعد الله رسوله من شيء قط إلا علم أنه كائن قبل أن يموت ، ولكن لم يزل البلاء بالرسل حتى خافوا أن يكون من معهم يكذبونهم فكانت تقرؤها: ﴿وَ ظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوْا﴾ مثقلة»
صحیح بخاری، رقم: 4525
”اور حضرت عروہ بیان کرتے ہیں: عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی تھیں: اللہ کی پناہ! اللہ کی قسم ! اللہ اور اس کے رسول نے کبھی بھی کسی چیز کا وعدہ نہیں کیا مگر اس کو جانتے ہیں کہ مرنے سے پہلے ضرور پورا ہو گا۔ بات یہ ہے کہ پیغمبروں کی آزمائش برابر ہوتی رہی ہے۔ (مدد آنے میں اتنی دیر ہوئی ) کہ پیغمبر ڈر گئے۔ ایسا نہ ہو ان کی امت کے لوگ ان کو جھوٹا سمجھ لیں تو عائشہ رضی اللہ عنہ اس آیت کو یوں پڑھتی تھیں: ﴿وَ ظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوْا﴾ (ذال کو تشدید کے ساتھ )۔ “
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿وَ تُقَطِّعُوْۤا اَرْحَامَكُمْ﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”اور تم رشتہ ناتا توڑ ڈالو گے“ کا بیان
حدیث 26:
وعن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: خلق الله الخلق فلما فرغ منه قامت الرحم فأخذت ، فقال له: مه . قالت: هذا مقام العائذ بك من القطيعة، قال: ألا ترضين أن أصل من وصلك ، وأقطع من قطعك؟ قالت: بلى يا رب . قال فذاك قال أبو هريرة اقرثوا إن شئتم: ﴿فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْۤا اَرْحَامَكُمْ﴾
صحیح بخاری، رقم: 4830
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی، جب وہ اس کی پیدائش سے فارغ ہوا تو رحم نے کھڑے ہوکر رحم کرنے والے اللہ کے دامن میں پناہ لی۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا کہ تجھے یہ پسند نہیں کہ جو تجھ کو جوڑے میں بھی اسے جوڑوں اور تجھے توڑے میں بھی اسے توڑوں ۔ رحم نے عرض کیا ، ہاں میرے رب ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پھر ایسا ہی ہوگا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو ”اگر تم کنارہ کش رہو تو آیا تم کو یہ احتمال بھی ہے کہ تم لوگ زمین میں فساد مچادو گے اور آپس میں قطع تعلق کر لو گے۔ “
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتٰى﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”اور اس وقت کو یاد کرو جب حضرت ابراہیم نے کہا: اے میرے رب! مجھے دکھا کہ تو کس طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے؟“ کا بیان
حدیث 27:
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نحن أحق بالشك من إبراهيم إذ قال: ﴿رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتٰى قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلٰى وَ لٰـكِنْ لِّيَطْمَىٕنَّ قَلْبِيْ﴾
صحیح بخاری، رقم: 4547
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شک کرنے کا ہمیں ابراہیم علیہ السلام سے زیادہ حق ہے، جب انہوں نے عرض کیا تھا کہ اے میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا، اللہ کی طرف سے ارشاد ہوا کہ تجھ کو یقین نہیں ہوا؟ عرض کیا یقین ضرور ہے، لیکن میں نے یہ درخواست اس لیے کی ہے کہ میرے دل کو اور اطمینان حاصل ہو جائے ۔ “
بابُ قَوْلِهِ: ﴿مِنْهُ اٰيٰتٌ مُحْكَمٰتٌ﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”اس کی کچھ آیات محکم ہیں“ کا بیان
حدیث 28:
«وعن عائشة رضي الله عنها قالت: تلا رسول الله صلى الله عليه وسلم هذه الآية: ﴿هُوَ الَّذِيْۤ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَآءَ تَاْوِيْلِهٖ وَ مَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاۚ وَ مَا يَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ﴾ قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فإذا رأيت الذين يتبعود ما تشابه منه، فأولئك الذين سمى الله فاحذروهم»
صحیح بخاری، رقم: 4547
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی: وہی خدا ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری ہے، اس میں محکم آیتیں ہیں اور وہی کتاب کا اصل دارو مدار ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔ سو وہ لوگ جن کے دلوں میں چڑپن ہے۔ وہ اس کے اسی حصے کے پیچھے لگ جاتے ہیں جو متشابہ ہیں، فتنے کی تلاش میں اور اس کی غلط تاویل کی تلاش میں ۔ آخر آیت ﴿اُولُوا الْاَلْبَابِ﴾ تک۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہوں تو یاد رکھو کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے (آیت بالا میں ) ذکر فرمایا ہے، اس لیے ان سے بچتے رہو۔“
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿قُلْ يٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۭ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ” (اے پیغمبر!) کہہ دیجیے: اے اہل کتاب! ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے درمیان اور تمہارے درمیان یکساں مسلم ہے، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں“ کا بیان
حدیث 29:
«وعن ابن عباس قال: حدثني ابو سفيان من فيه إلى في، قال: انطلقت فى المدة التى كانت بيني وبين رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فبينا انا بالشام إذ جيء بكتاب من النبى صلى الله عليه وسلم إلى هرقل، قال: وكان دحية الكلبي جاء به فدفعه إلى عظيم بصرى، فدفعه عظيم بصرى إلى هرقل، قال: فقال هرقل: هل ها هنا احد من قوم هذا الرجل الذى يزعم انه نبي؟ فقالوا: نعم، قال: فدعيت فى نفر من قريش فدخلنا على هرقل فاجلسنا بين يديه، فقال: ايكم اقرب نسبا من هذا الرجل الذى يزعم انه نبي؟ فقال: ابو سفيان، فقلت: انا، فاجلسوني بين يديه واجلسوا اصحابي خلفي، ثم دعا بترجمانه، فقال: قل لهم إني سائل هذا عن هذا الرجل الذى يزعم انه نبي، فإن كذبني، فكذبوه، قال ابو سفيان: وايم الله لولا ان يؤثروا على الكذب لكذبت، ثم قال لترجمانه: سله كيف حسبه فيكم؟ قال: قلت: هو فينا ذو حسب، قال: فهل كان من آبائه ملك؟ قال: قلت: لا، قال: فهل كنتم تتهمونه بالكذب قبل ان يقول ما قال؟ قلت: لا، قال: ايتبعه اشراف الناس ام ضعفاؤهم؟ قال: قلت: بل ضعفاؤهم، قال: يزيدون او ينقصون، قال: قلت: لا، بل يزيدون، قال: هل يرتد احد منهم عن دينه بعد ان يدخل فيه سخطة له؟ قال: قلت: لا، قال: فهل قاتلتموه؟ قال: قلت: نعم، قال: فكيف كان قتالكم إياه؟ قال: قلت: تكون الحرب بيننا وبينه سجالا، يصيب منا ونصيب منه، قال: فهل يغدر؟ قال: قلت: لا، ونحن منه فى هذه المدة لا ندري ما هو صانع فيها، قال: والله ما امكنني من كلمة ادخل فيها شيئا غير هذه، قال: فهل قال هذا القول احد قبله؟ قلت: لا، ثم قال لترجمانه: قل له إني سالتك عن حسبه فيكم، فزعمت انه فيكم ذو حسب، وكذلك الرسل تبعث فى احساب قومها، وسالتك هل كان فى آبائه ملك؟ فزعمت ان لا، فقلت: لو كان من آبائه ملك قلت رجل يطلب ملك آبائه، وسالتك عن اتباعه اضعفاؤهم ام اشرافهم؟ فقلت: بل ضعفاؤهم، وهم اتباع الرسل، وسالتك هل كنتم تتهمونه بالكذب قبل ان يقول ما قال؟ فزعمت ان لا، فعرفت انه لم يكن ليدع الكذب على الناس، ثم يذهب فيكذب على الله، وسالتك هل يرتد احد منهم عن دينه بعد ان يدخل فيه سخطة له؟ فزعمت ان لا، وكذلك الإيمان إذا خالط بشاشة القلوب، وسالتك هل يزيدون ام ينقصون؟ فزعمت انهم يزيدون، وكذلك الإيمان حتى يتم، وسالتك هل قاتلتموه؟ فزعمت انكم قاتلتموه، فتكون الحرب بينكم وبينه سجالا، ينال منكم، وتنالون منه، وكذلك الرسل تبتلى، ثم تكون لهم العاقبة، وسالتك هل يغدر؟ فزعمت انه لا يغدر، وكذلك الرسل لا تغدر، وسالتك هل قال احد هذا القول قبله؟ فزعمت ان لا، فقلت: لو كان قال هذا القول احد قبله، قلت رجل ائتم بقول قيل قبله، قال: ثم قال: بم يامركم؟ قال: قلت: يامرنا بالصلاة، والزكاة، والصلة، والعفاف، قال: إن يك ما تقول فيه حقا، فإنه نبي، وقد كنت اعلم انه خارج، ولم اك اظنه منكم، ولو اني اعلم اني اخلص إليه، لاحببت لقاءه، ولو كنت عنده لغسلت عن قدميه، وليبلغن ملكه ما تحت قدمي، قال ثم دعا بكتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقراه، فإذا فيه” بسم الله الرحمن الرحيم، من محمد رسول الله إلى هرقل عظيم الروم، سلام على من اتبع الهدى، اما بعد، فإني ادعوك بدعاية الإسلام، اسلم تسلم، واسلم يؤتك الله اجرك مرتين، فإن توليت، فإن عليك إثم الاريسيين، و ﴿يٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۭ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ﴾ ، إلى قوله: ﴿اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ﴾ ، فلما فرغ من قراءة الكتاب، ارتفعت الاصوات عنده، وكثر اللغط، وامر بنا فاخرجنا، قال فقلت لاصحابي حين خرجنا: لقد امر امر ابن ابي كبشة، إنه ليخافه ملك بني الاصفر، فما زلت موقنا بامر رسول الله صلى الله عليه وسلم انه سيظهر، حتى ادخل الله على الإسلام، قال الزهري: فدعا هرقل عظماء الروم، فجمعهم فى دار له، فقال: يا معشر الروم، هل لكم فى الفلاح والرشد آخر الابد؟ وان يثبت لكم ملككم؟ قال: فحاصوا حيصة حمر الوحش إلى الابواب، فوجدوها قد غلقت، فقال: على بهم فدعا بهم، فقال: إني إنما اختبرت شدتكم على دينكم، فقد رايت منكم الذى احببت، فسجدوا له ورضوا عنه»
صحیح بخاری، رقم: 4553
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے روبرو یہ بیان کیا، انہوں نے بتلایا کہ جس مدت میں میرے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان (صلح حدیبیہ کے معاہدہ کے مطابق) تھی، میں (سفر تجارت) پر شام گیا ہوا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ہر قل کے پاس پہنچا۔ انہوں نے بیان کیا کہ دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ وہ خط لائے تھے اور عظیم بصری کے حوالے کر دیا تھا اور ہرقل کے پاس اسی سے پہنچا تھا۔ ابوسفیان نے بیان کیا کہ ہرقل نے پوچھا کیا ہماری حدود سلطنت میں اس شخص کی قوم کے بھی کچھ لوگ ہیں جو نبی ہونے کا دعویدار ہے؟ درباریوں نے بتایا کہ جی ہاں موجود ہیں۔ ابوسفیان نے بیان کیا کہ پھر مجھے قریش کے چند دوسرے آدمیوں کے ساتھ بلایا گیا۔ ہم ہرقل کے دربار میں داخل ہوئے اور اس کے سامنے ہمیں بٹھا دیا گیا۔ اس نے پوچھا: تم لوگوں میں سے اس شخص سے زیادہ قریبی کون ہے جو نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا کہ میں زیادہ قریب ہوں۔ اب درباریوں نے مجھے بادشاہ کے بالکل قریب بٹھا دیا اور میرے دوسرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا۔ اس کے بعد ترجمان کو بلایا اور اس سے ہرقل نے کہا کہ انہیں بتاؤ کہ میں اس شخص کے بارے میں تم سے کچھ سوالات کروں گا، جو نبی ہونے کا دعویدار ہے، اگر یہ (یعنی ابوسفیان رضی اللہ عنہ ) جھوٹ بولے تو تم اس کا جھوٹ ظاہر کر دینا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا بیان تھا کہ اللہ کی قسم! اگر مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ میرے ساتھی کہیں میرے متعلق جھوٹ بولنا نقل نہ کر دیں تو میں (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ) ضرور جھوٹ بولتا۔ پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ جس نے نبی ہونے کا دعوی کیا ہے وہ اپنے نسب میں کیسے ہیں؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ان کا نسب ہم میں بہت ہی عزت والا ہے۔ اس نے پوچھا: کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے؟ بیان کیا کہ میں نے کہا: نہیں۔ اس نے پوچھا: تم نے دعوی نبوت سے پہلے کبھی ان پر جھوٹ کی تہمت لگائی گئی تھی؟ میں نے کہا: نہیں۔ پوچھا: ان کی پیروی معزز لوگ زیادہ کرتے ہیں یا کمزور؟ میں نے کہا کہ قوم کے کمزور لوگ زیادہ ہیں۔ اس نے پوچھا: ان کے ماننے والوں میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یا کمی؟ میں نے کہا کہ نہیں بلکہ زیادتی ہوتی رہتی ہے۔ پوچھا کبھی ایسا بھی کوئی واقعہ پیش آیا ہے کہ کوئی شخص ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر ان سے پھر گیا ہو؟ میں نے کہا: ایسا بھی کبھی نہیں ہوا۔ اس نے پوچھا تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ اس نے پوچھا: تمہاری ان کے ساتھ جنگ کا کیا نتیجہ رہا؟ میں نے کہا کہ ہماری جنگ کی مثال ایک ڈول کی ہے کہ کبھی ان کے ہاتھ میں اور کبھی ہمارے ہاتھ میں ۔ اس نے پوچھا: کبھی انہوں نے تمہارے ساتھ کوئی دھوکا بھی کیا؟ میں نے کہا کہ اب تک تو نہیں کیا، لیکن آج کل بھی ہمارا ان سے ایک معاہدہ چل رہا ہے، نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں ان کا طرز عمل کیا رہے گا۔ ابوسفیان نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم ! اس جملہ کے سوا اور کوئی بات میں اس پوری گفتگو میں اپنی طرف سے نہیں ملا سکا، پھر اس نے پوچھا: اس سے پہلے بھی یہ دعوئی تمہارے یہاں کسی نے کیا تھا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا: اس سے کہو کہ میں نے تم سے نبی کے نسب کے بارے میں پوچھا تو تم نے بتایا کہ وہ تم لوگوں میں باعزت اور اونچے نسب کے سمجھے جاتے ہیں، انبیا کا بھی یہی حال ہے۔ ان کی بعثت ہمیشہ قوم کے صاحب حسب ونسب خاندان میں ہوتی ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا کوئی ان کے باپ دادوں میں بادشاہ گزرا ہے، تو تم نے اس کا انکار کیا۔ میں اس سے اس فیصلہ پر پہنچا کہ اگر ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ اپنی خاندانی سلطنت کو اس طرح واپس لینا چاہتے ہوں اور میں نے تم سے ان کی اتباع کرنے والوں کے متعلق پوچھا کہ آیا وہ قوم کے کمزور لوگ ہیں یا اشراف، تو تم نے بتایا کہ کمزور لوگ ان کی پیروی کرنے والوں میں (زیادہ) ہیں۔ یہی طبقہ ہمیشہ سے انبیا کی اتباع کرتا رہا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے ان پر جھوٹ کا کبھی شبہ کیا تھا، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا۔ میں نے اس سے یہ سمجھا کہ جس شخص نے لوگوں کے معاملہ میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، وہ اللہ کے معاملے میں کس طرح جھوٹ بول دے گا اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر کوئی شخص ان کے دین سے کبھی پھرا بھی ہے، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا۔ ایمان کا یہی اثر ہوتا ہے جب وہ دل کی گہرائیوں میں اتر جائے۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے ماننے والوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے یا کم ہوتی ہے، تو تم نے بتایا کہ ان میں اضافہ ہی ہوتا ہے، ایمان کا یہی معاملہ ہے، یہاں تک کہ وہ کمال کو پہنچ جائے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے؟ تو تم نے بتایا کہ جنگ کی ہے اور تمہارے درمیان لڑائی کا نتیجہ ایسا رہا ہے کہ کبھی تمہارے حق میں اور کبھی ان کے حق میں۔ انبیا کا بھی یہی معاملہ ہے، انہیں آزمائش میں ڈالا جاتا ہے اور آخر انجام انہی کے حق میں ہوتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اس نے تمہارے ساتھ کبھی خلاف عہد بھی معاملہ کیا ہے تو تم نے اس سے بھی انکار کیا۔ انبیا کبھی عہد کے خلاف نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تمہارے یہاں اس طرح کا دعویٰ پہلے بھی کسی نے کیا تھا۔ تو تم نے کہا کہ پہلے کسی نے اس طرح کا دعویٰ نہیں کیا، میں اس سے اس فیصلے پر پہنچا کہ اگر کسی نے تمہارے یہاں اس سے پہلے اس طرح کا دعویٰ کیا ہوتا یہ کہا جاسکتا تھا کہ یہ بھی اس کی نقل کر رہے ہیں۔ بیان کیا کہ پھر ہرقل نے پوچھا وہ تمہیں کن چیزوں کا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا: نماز، زکوۃ ، صلہ رحمی اور پاکدامنی کا ۔ آخر اس نے کہا کہ جو کچھ تم نے بتایا ہے اگر وہ صحیح ہے تو یقینا وہ نبی ہیں اس کا علم تو مجھے بھی تھا کہ ان کی نبوت کا زمانہ قریب ہے لیکن یہ خیال نہ تھا کہ وہ تمہاری قوم میں ہوں گے۔ اگر مجھے ان تک پہنچ سکنے کا یقین ہوتا تو میں ضرور ان سے ملاقات کرتا ہے اور اگر میں ان کی خدمت میں ہوتا تو ان کے قدموں کو دھوتا اور ان کی حکومت میرے ان دو قدموں تک پہنچ کر رہے گی۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور اسے پڑھا، اس میں یہ لکھا ہوا تھا: اللہ، رحمن ورحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف سے عظیم روم ہرقل کی طرف، سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی اتباع کرے۔ اما بعد! میں تمہیں اسلام کی طرف بلاتا ہوں، اسلام لاؤ تو سلامتی پاؤ گے اور اسلام لاؤ تو اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا۔ لیکن تم نے اگر منہ موڑا تو تمہاری رعایا (کے کفر کا بار بھی) تم پر ہوگا اور اے کتاب والو! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہم میں اور تم میں برابر ہے، وہ یہ کہ ہم سوائے اللہ کے اور کسی کی عبادت نہ کریں اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ﴾ تک ۔ جب ہرقل خط پڑھ چکا تو دربار میں بڑا شور برپا ہو گیا اور پھر ہمیں دربار سے باہر کر دیا گیا۔ باہر آ کر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبثہ کا معاملہ تو اب اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ملک بنی الاصفر (ہرقل ) بھی ان سے ڈرنے لگا۔ اس واقعہ کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غالب آ کر رہیں گے اور آخر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی روشنی میرے دل میں بھی ڈال ہی دی۔ زہری نے کہا کہ پھر ہرقل نے روم کے سرداروں کو بلا کر ایک خاص کمرے میں جمع کیا، پھر ان سے کہا: اے رومیو! کیا تم ہمیشہ فلاح اور بھلائی چاہتے ہو اور یہ تمہارا ملک تمہارے ہی ہاتھ میں رہے (اگر تم ایسا چاہتے ہو تو اسلام قبول کرلو ) راوی نے بیان کیا کہ یہ سنتے ہی وہ سب وحشی جانوروں کی طرح دروازے کی طرف بھاگے، دیکھا تو دروازہ بند تھا، پھر ہ قل نے سب کو اپنے پاس بلایا کہ انہیں میرے پاس لاؤ اور ان سے کہا کہ میں نے تو تمہیں آزمایا تھا کہ تم اپنے دین میں کتنے پختہ ہو، اب میں نے اس چیز کا مشاہدہ کر لیا جو مجھے پسند تھی چنانچہ سب درباریوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے راضی ہو گئے ۔ “
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”تم اس وقت تک اصل نیکی حاصل نہ کر سکو گے جب تک وہ کچھ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو جو تمھیں محبوب ہو“ کا بیان
حدیث 30:
«وعن أنس بن مالك رضي الله عنه يقول: كان أبو طلحة أكثر أنصاري بالمدينة نخلا ، وكان أحب أمواله إليه بير حاء وكانت مستقبلة المسجد ، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخلها ويشرب من ماء فيها طيب ، فلما أنزلت: ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾ ، قام أبو طلحة، فقال: يا رسول الله! إن الله يقول: ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾ وإن أحب أموالى إلى بير حاء وإنها صدقة لله ، أرجو برها وذخرها عند الله، فضعها يا رسول الله حيث أراك الله ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بح ذلك مال رايح، ذلك مال رايح، وقد سمعت ما قلت ، وإني أرى أن تجعلها فى الأقربين، قال أبو طلحة: أفعل يا رسول الله، فقسمها أبو طلحة فى أقاربه وفي بني عمه . قال عبد الله بن يوسف عبادة: ذلك مال رابح . حدثني يحيى حدثني يحيى بن يحيى قال: قرأت على مالك: مال رايح»
صحیح بخاری، رقم: 4554
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس انصار میں سب سے زیادہ کھجوروں کے درخت تھے اور بیرحاء کا باغ اپنی تمام جائیداد میں انہیں سب سے زیادہ عزیز تھا۔ یہ باغ مسجد نبوی کے سامنے ہی تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس میں تشریف لے جاتے اور اس کے میٹھے اور عمدہ پانی کو پیتے ، پھر جب آیت جب تک تم اپنی عزیز ترین چیزوں کو نہ خرچ کرو گے نیکی کے مرتبہ کو نہ پہنچ سکو گے۔ نازل ہوئی تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا: اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”جب تک تم اپنی عزیز چیزوں کو خرچ نہ کرو گے نیکی کے مرتبہ کو نہ پہنچ سکو گے“ اور میرا سب سے زیادہ عزیز مال بیرحاء ہے اور یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ اللہ ہی سے میں اس کے ثواب واجر کی توقع رکھتا ہوں، پس اللہ کے رسول، جہاں آپ مناسب سمجھیں اسے استعمال کریں۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: خوب! یہ فانی ہی دولت تھی، یہ فانی ہی دولت تھی۔ جو کچھ تم نے کہا ہے وہ میں نے سن لیا اور میرا خیال ہے کہ تم اپنے عزیز واقربا کو اسے دے دو۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ایسا ہی کروں گا، اللہ کے رسول! چنانچہ انہوں نے وہ باغ اپنے عزیزوں اور اپنے ناطہ والوں میں بانٹ دیا۔ عبداللہ بن یوسف اور روح بن عبادہ نے ذالك مال رابح (ربح سے ) بیان کیا ہے۔ یعنی یہ مال بہت نفع دینے والا ہے۔“
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿اَلَّذِيْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”وہ لوگ کہ جب لوگوں نے ان سے کہا: دشمن نے تمہارے مقابلے میں ایک بہت بڑا لشکر تیار کر رکھا ہے، لہذا ان سے ڈرو“ کی تفسیر
حدیث 31:
وعن ابن عباس: ﴿حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ﴾ قالها إبراهيم عليه السلام حين ألقي فى النار، وقالها محمد صلى الله عليه وسلم حين قالوا: ﴿اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِيْمَانًا وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيْلُ﴾
صحیح بخاری، رقم: 4563
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہ کلمہ ﴿حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ﴾ ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا، اس وقت جب ان کو آگ میں ڈالا گیا تھا اور یہی کلمہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کہا تھا جب لوگوں نے مسلمانوں کو ڈرانے کے لیے کہا تھا کہ لوگوں (یعنی قریش) نے تمہارے خلاف بڑا سامانِ جنگ اکٹھا کر رکھا ہے، ان سے ڈرو لیکن اس بات نے ان مسلمانوں کا (جوش) ایمان اور بڑھا دیا اور انہوں نے کہا: ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کام بنانے والا ہے۔“
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿وَ لَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ﴾
ارشاد باری تعالٰی: ”اور جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل سے بہت کچھ دیا ہے اور وہ اس میں بخل کرتے ہیں تو وہ بخل کو اپنے لیے ہرگز بہتر نہ سمجھیں“ کا بیان
حدیث 32:
وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من آتاه الله مالا فلم يؤد زكاته ، مثل له ماله شجاعا أقرع ، له زبيبتان، يطوقه يوم القيامة يأخذ بلهزمتيه – يعني بشدقيه – يقول: أنا مالك ، أنا كنرك ، ثم تلا هذه الآية: ﴿وَ لَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ﴾ إلى آخر الآية
صحیح بخاری، رقم: 4565
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور پھر اس نے اس کی زکوۃ نہیں ادا کی تو (آخرت میں ) اس کا مال نہایت زہریلے سانپ کی صورت میں جس کی آنکھوں کے اوپر دو نقطے ہوں گے۔ اس کی گردن میں طوق کی طرح پہنا دیا جائے گا پھر وہ سانپ اس کے دونوں جبڑوں کو پکڑ کر کہے گا کہ میں ہی تیرا مال ہوں، میں ہی تیرا خزانہ ہوں، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ”اور جو لوگ کہ اس مال میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دے رکھا ہے، وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ مال ان کے حق میں بہتر ہے۔ ۔ ۔“ آخر تک۔ “
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔“ کی تفسیر
حدیث 33:
«وعن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه، النبى صلى الله عليه وسلم، قالوا: يا رسول الله، هل نرى ربنا يوم القيامة؟ قال النبى صلى الله عليه وسلم: ” نعم، هل تضارون فى رؤية الشمس بالظهيرة، ضوء ليس فيها سحاب؟ ” قالوا: لا، قال: ” وهل تضارون فى رؤية القمر ليلة البدر، ضوء ليس فيها سحاب؟ ” قالوا: لا، قال النبى صلى الله عليه وسلم: ” ما تضارون فى رؤية الله عز وجل يوم القيامة، إلا كما تضارون فى رؤية احدهما، إذا كان يوم القيامة اذن مؤذن، تتبع كل امة ما كانت تعبد، فلا يبقى من كان يعبد غير الله من الاصنام والانصاب إلا يتساقطون فى النار، حتى إذا لم يبق إلا من كان يعبد الله بر او فاجر، وغبرات اهل الكتاب، فيدعى اليهود، فيقال لهم: من كنتم تعبدون؟ قالوا: كنا نعبد عزير ابن الله، فيقال لهم: كذبتم، ما اتخذ الله من صاحبة ولا ولد، فماذا تبغون؟ فقالوا: عطشنا ربنا فاسقنا، فيشار الا تردون فيحشرون إلى النار كانها سراب يحطم بعضها بعضا فيتساقطون فى النار، ثم يدعى النصارى، فيقال لهم: من كنتم تعبدون؟ قالوا: كنا نعبد المسيح ابن الله، فيقال لهم: كذبتم، ما اتخذ الله من صاحبة ولا ولد، فيقال لهم: ماذا تبغون؟ فكذلك مثل الاول، حتى إذا لم يبق إلا من كان يعبد الله من بر او فاجر، اتاهم رب العالمين فى ادنى صورة من التى راوه فيها، فيقال: ماذا تنتظرون؟ تتبع كل امة ما كانت تعبد، قالوا: فارقنا الناس فى الدنيا على افقر ما كنا إليهم ولم نصاحبهم، ونحن ننتظر ربنا الذى كنا نعبد، فيقول: انا ربكم، فيقولون: لا نشرك بالله شيئا، مرتين او ثلاثا»
صحیح بخاری، رقم: 4581
”اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں، کیا سورج کو دو پہر کے وقت دیکھنے میں تمہیں کوئی دشواری ہوتی ہے، جبکہ اس پر بادل بھی نہ ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا چودھویں رات کو چاند کو دیکھنے میں تمہیں کچھ دشواری پیش آتی ہے، جبکہ اس پر بادل نہ ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ نہیں ۔ پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: بس اسی طرح تم بلا کسی وقت اور رکاوٹ کے اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے۔ قیامت کے دن ایک منادی ندا کرے گا کہ ہر امت اپنے جھوٹے معبودوں کے ساتھ حاضر ہو جائے۔ اس وقت اللہ کے سوا جتنے بھی بتوں اور پتھروں کی پوجا ہوتی تھی، سب کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ پھر جب وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جو صرف اللہ کی بندگی کیا کرتے تھے ، خواہ نیک ہوں یا گنہ گار اور اہل کتاب کے کچھ لوگ تو پہلے یہود کو بلایا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ تم (اللہ کے سوا) کس کی پوجا کرتے تھے؟ وہ عرض کریں گے کہ عزیز ابن اللہ کی، اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا لیکن تم جھوٹے تھے، اللہ نے نہ کسی کو اپنی بیوی بنایا اور نہ بیٹا، اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے، ہمارے رب! ہم پیاسے ہیں، ہمیں پانی پلا دے۔ انہیں اشارہ کیا جائے گا کہ کیا ادھر نہیں چلتے۔ چنانچہ سب کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ وہاں چمکتی ریت پانی کی طرح نظر آئے گی بعض بعض کے ٹکڑے کیے دے رہی ہوگی۔ پھر سب کو آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر نصاری کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم کس کی عبادت کیا کرتے تھے؟ وہ کہیں گے کہ ہم مسیح ابن اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ ان سے بھی کہا جائے گا کہ تم جھوٹے تھے۔ اللہ نے کسی کو بیوی اور بیٹا نہیں بنایا، پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا چاہتے ہو؟ اور ان کے ساتھ یہودیوں کی طرح برتاؤ کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب ان لوگوں کے سوا اور کوئی باقی نہ رہے گا جو صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے ، خواہ وہ نیک ہوں یا گنہگار، تو ان کے پاس ان کا رب ایک صورت میں جلوہ گر ہوگا، جو پہلی صورت سے جس کو وہ دیکھ چکے ہوں گے ملتی جلتی ہوگی (یہ وہ صورت نہ ہوگی ) اب ان سے کہا جائے گا۔ اب تمہیں کس کا انتظار ہے؟ ہر امت اپنے معبودوں کو ساتھ لے کر جا چکی، وہ جواب دیں گے ہم دنیا میں جب لوگوں سے (جنہوں نے کفر کیا تھا) جدا ہوئے تو ہم ان میں سب سے زیادہ محتاج تھے، پھر بھی ہم نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور اب ہمیں اپنے بچے رب کا انتظار ہے جس کی ہم دنیا میں عبادت کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہارا رب میں ہی ہوں۔ اس پر تمام مسلمان بول اٹھیں گے کہ ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے۔ دو یا تین مرتبہ یوں کہیں گے ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے والے نہیں ہیں۔ “
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿لَيْسَ عَلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوْۤا﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے انھیں اس بات پر کوئی گناہ نہیں ہوگا جو وہ پہلے کھاپی چکے ہیں۔ ۔“ کا بیان
حدیث 34:
وعن أنس رضي الله عنه: إن الخمر التى أهريقت الفضيخ . وزادني محمد البيكندى عن أبى النعمان قال: كنت ساقي القوم فى منزل أبى طلحة، فنزل تحريم الخمر فأمر مناديا فنادى ، فقال أبو طلحة: اخرج فانظر ما هذا الصوت، قال: فخرجت فقلت: هذا مناد ينادى ألا إن الخمر قد حرمت، فقال لي: اذهب فأهرقها، قال: فجرت فى سكك المدينة، قال: وكانت خمرهم يومئذ الفضيخ ، فقال بعض القوم: قتل قوم وهى فى بطونهم، قال: فأنزل الله: ﴿لَيْسَ عَلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوْۤا﴾
صحیح بخاری، رقم: 4620
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں صحابہ کی ایک جماعت کو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر شراب پلا رہا تھا کہ شراب کی حرمت نازل ہوئی۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے منادی کو حکم دیا اور انہوں نے اعلان کرنا شروع کیا۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا، باہر جاکے دیکھو یہ آواز کیسی ہے۔ بیان کیا کہ میں باہر آیا اور کہا کہ ایک منادی اعلان کر رہا ہے کہ خبر دار ہو جاؤ ، شراب حرام ہوگئی ہے۔ یہ سنتے ہی انہوں نے مجھ سے کہا کہ جاؤ اور شراب بہادو۔ راوی نے بیان کیا، مدینہ کی گلیوں میں شراب بہنے لگی ۔ راوی نے بیان کیا کہ ان دنوں فصیح شراب استعمال ہوتی تھی ۔ بعض لوگوں نے شراب کو جو اس طرح بہتے دیکھا تو کہنے لگے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اپنا پیٹ بھر رکھا تھا اور اسی حالت میں انہیں قتل کر دیا گیا ہے۔ بیان کیا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: ”جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور نیک کام کرتے رہتے ہیں، ان پر اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جس کو انہوں نے کھالیا۔“
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿وَ اِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”اور جب کفار نے کہا: اے اللہ ! اگر یہی دین واقعی تیری طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا (یا ہم پر کوئی درد ناک عذاب لے آ)“ کی تفسیر
حديث 35:
«وعن أنس بن مالك رضى الله عنه: قال أبو جهل: اللهم إن كان هذا هو الحق من عندك فأمطر علينا حجارة من السماء ، أو انتنا بعذاب أليم . فنزلت: ﴿وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِيْهِمْ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ وَ مَا لَهُمْ اَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ وَ هُمْ يَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ الآية»
صحیح بخاری، رقم: 4648
اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ابوجہل نے کہا تھا کہ اے اللہ ! اگر یہ کلام تیری طرف سے واقعی حق ہے تو ہم پر آسمانوں سے پتھر برسا دے یا پھر کوئی اور ہی عذاب دردناک لے آ ! تو اس پر آیت ”حالانکہ اللہ ایسا نہیں کرے گا کہ انہیں عذاب دے، اس حال میں کہ آپ ان میں موجود ہوں اور نہ اللہ ان پر عذاب لائے گا اس حال میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔ ان لوگوں کے لیے کیا وجہ ہے کہ اللہ ان پر عذاب (ہی سرے سے) نہ لائے در آں حالیکہ وہ مسجد حرام سے روکتے ہیں ۔ “ آخر آیت تک ۔
حدیث 36:
وعن سعيد بن المسيب عن أبيه قال: لما حضرت أبا طالب الوفاة جاءه رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجد عنده أبا جهل وعبد الله بن أبى أمية بن المغيرة، فقال: أى عم قل لا إله إلا الله ، كلمة أحاج لك بها عند الله . فقال أبو جهل وعبد الله بن أبى أمية: أترغب عن ملة عبد المطلب فلم يزل رسول الله صلى الله عليه وسلم يعرضها عليه ويعيدانه بتلك المقالة ، حتى قال أبو طالب آخر ما كلمهم: على ملة عبد المطلب، وأبى أن يقول: لا إله إلا الله. قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: والله لاستغفرن لك ما لم أنه عنك، فأنزل الله ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْ﴾ وأنزل الله فى أبى طالب فقال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: ﴿اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰـكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ﴾
صحیح بخاری، رقم: 4772
اور حضرت سعید بن مسیب کے والد حضرت مسیب بن حزن سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے ، ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ وہاں پہلے سے ہی موجود تھے۔ آپ نے فرمایا: چچا! آپ صرف کلمہ لا اله الا الله پڑھ لیں تاکہ اس کلمہ کے ذریعہ اللہ کی بارگاہ میں آپ کی شفاعت کروں۔ اس پر ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بولے: کیا تم عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جاؤ گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار ان سے یہی کہتے رہے (کہ آپ صرف یہی ایک کلمہ پڑھ لیں) اور یہ دونوں بھی اپنی بات ان کے سامنے بار بار دہراتے رہے (کہ کیا تم عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جاؤ گے؟ ) آخر ابوطالب کی زبان سے جو آخری کلمہ نکلا وہ یہی تھا کہ وہ عبدالمطلب کے مذہب پر ہی قائم ہیں۔ انہوں نے لا اله الا الله پڑھنے سے انکار کر دیا۔ راوی نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم ! میں آپ کے لئے طلب مغفرت کرتا رہوں گا تا آنکہ مجھے اس سے روک نہ دیا جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ”نبی اور ایمان والوں کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ مشرکین کے لئے دعائے مغفرت کریں۔“ اور خاص ابوطالب کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ ”جس کو تم چاہو ہدایت نہیں کر سکتے ، البتہ اللہ ہدایت دیتا ہے اسے جس کے لئے وہ ہدایت چاہتا ہے۔“
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِي الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ” (وہ) دو میں دوسرا تھا، جبکہ وہ دونوں غار (ثور) میں تھے، جب وہ (نبی ) اپنے ساتھی (ابوبکر) سے کہہ رہا تھا: غم نہ کر، یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ “
حدیث 37:
«وعن أنس قال: حدثني أبو بكر رضي الله عنه قال: كنت مع النبى صلى الله عليه وسلم فى الغار فرأيت آثار المشركين ، قلت: يا رسول الله لو أن أحدهم رفع قدمه رآنا، قال: ما ظنك باثنين الله ثالتهما»
صحیح بخاری، رقم: 4663
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں کہا کہ مجھ سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں غار ثور میں نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے ساتھ تھا۔ میں نے کافروں کے پاؤں دیکھے (جو ہمارے سر پر کھڑے ہوئے تھے ) صدیق رضی اللہ عنہ گھبرائے اور بولے کہ یا رسول اللہ ! اگر ان میں سے کسی نے ذرا بھی قدم اٹھائے تو وہ ہم کو دیکھ لے گا ۔ آپ نے فرمایا: تو کیا سمجھتا ہے ان دو آدمیوں کو (کوئی نقصان پہنچا سکے گا ) جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہو۔ “
بابُ قَوْلِهِ: ﴿اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْؕ-اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً فَلَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”آپ ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں یا نہ کریں، اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ بھی بخشش کی دعا کریں تو بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا“ کا بیان
حدیث 38:
وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: لما توفي عبد الله بن أبى جاء ابنه عبد الله بن عبد الله إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فسأله أن يعطيه قميصه يكفن فيه أباه ، فأعطاه ، ثم سأله أن يصلي عليه ، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلى عليه ، فقام عمر ، فأخذ بثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله تصلي عليه وقد نهاك ربك أن تصلى عليه؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنما خيرني الله فقال: ﴿اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً﴾ وسأزيده على السبعين. قال: إنه منافق، قال: فصلى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فأنزل الله تعالى: ﴿وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖ﴾
صحیح بخاری، رقم: 4670
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب عبداللہ بن ابی (منافق) کا انتقال ہوا تو اس کے لڑکے عبداللہ بن عبداللہ (جو پختہ مسلمان تھے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ اپنی قمیص ان کے والد کے کفن کے لیے عنایت فرمادیں۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے قمیص عنایت فرمائی۔ پھر انہوں نے عرض کی کہ آپ نماز جنازہ بھی پڑھا دیں۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ پڑھانے کے لئے بھی آگے بڑھ گئے ۔ اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کی نماز جنازہ پڑھانے جارہے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے منع بھی فرما دیا ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے فرمایا کہ ”آپ ان کے لیے استغفار کریں خواہ نہ کریں۔ اگر آپ ان کے لئے ستر بار بھی استغفار کریں گے (تب بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا ) اس لئے میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا ۔“ (ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ زیادہ استغفار کرنے سے معاف کر دے) عمر رضی اللہ عنہ بولے: لیکن یہ شخص تو منافق ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا: ”اور ان سے جو کوئی مرجائے اس پر کبھی بھی جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔ “
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”نبی اور اہل ایمان کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت طلب کریں …“ کا بیان
حدیث 39:
وعن سعيد بن المسيب ، عن أبيه قال: لما حضرت أبا طالب الوفاة دخل عليه النبى صلى الله عليه وسلم وعنده أبو جهل وعبد الله بن أبى أمية فقال النبى صلى الله عليه وسلم: أى عم ! قل: لا إله إلا الله، أحاج لك بها عند الله، فقال أبو جهل وعبد الله بن أبى أمية: يا أبا طالب أترغب عن ملة عبد المطلب؟ فقال النبى صلى الله عليه وسلم: لاستغفرن لك ما لم أنه عنك ، فنزلت: ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَ لَوْ كَانُـوْۤا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ﴾
صحیح بخاری، رقم: 4675
”اور حضرت سعید نے اپنے باپ مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ جب ابوطالب کے انتقال کا وقت ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لے گئے، اس وقت وہاں ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بیٹھے ہوئے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: میرے چچا! (آپ ایک بار زبان سے کلمہ) لا اله الا الله کہہ دیجئے میں اسی کو (آپ کی نجات کے لیے وسیلہ بنا کر ) اللہ کی بارگاہ میں پیش کرلوں گا ۔ اس پر ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ کہنے لگے: ابوطالب ! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ نبی کریم صلی للہ ولیم نے کہا: اب میں آپ کے لیے برابر مغفرت کی دعا مانگتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے روک نہ دیا جائے۔ تو یہ آیت نازل ہوئی نبی اور ایمان والوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں۔ اگر چہ وہ (مشرکین ) رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ جب ان پر یہ ظاہر ہو چکے کہ وہ (یقیناً) اہل دوزخ سے ہیں ۔ “
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿وَّ عَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْاؕ-حَتّٰۤى اِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ﴾
ارشاد باری تعالیٰ: ”اور ان تین آدمیوں پر بھی (مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائی) جن کا معاملہ ملتوی رکھا گیا تھا حتی کہ زمین اپنی فراخی کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی“ کا بیان
حدیث 40:
«وعن عبد الله بن كعب بن مالك عن أبيه قال سمعت أبى كعب بن مالك – وهو أحد الثلاثة الذين تيب عليهم – أنه لم يتخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فى غزوة غزاها قط غير غزوتين: غزوة العسرة، وغزوة بدر ، قال: فأجمعت صدق رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى وكان قلما يقدم من سفر سافره إلا ضحى، وكان يبدأ بالمسجد فيركع ركعتين ونهى النبى صلى الله عليه وسلم عن كلامي وكلام صاحبي ولم ينه عن كلام أحد من المتخلفين غيرنا فاجتنب الناس كلامنا فلبثت كذلك حتى طال على الأمر وما من شيء أهم إلى من أن أموت فلا يصلى على النبى صلى الله عليه وسلم ، أو يموت رسول الله صلى الله عليه وسلم فأكون من الناس بتلك المنزلة فلا يكلمني أحد منهم ولا يصلى علي، فأنزل الله توبتنا على نبيه صلى الله عليه وسلم حين بقى الثلث الآخر من الليل ورسول الله صلى الله عليه وسلم عند سلمة، وكانت أم سلمة محسنة فى شأني، معنية فى أمري ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا أم سلمة ! تيب على كعب قالت: أفلا أرسل إليه فأبشره؟ قال: إذا يحطمكم الناس فيمنعونكم النوم سائر الليلة ، حتى إذا صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الفجر آذن بتوبة الله علينا وكان إذا استبشر استنار وجهه حتى كأنه قطعة من القمر ، وكنا أيها الثلاثة الذين خلفوا عن الأمر الذى قبل من هؤلاء الذين اعتذروا حين أنزل الله لنا التوبة ، فلما ذكر الذين كذبوا رسول الله صلى الله عليه وسلم من المتخلفين واعتذروا بالباطل ذكروا بشر ما ذكر به أحد ، قال الله سبحانه: ﴿يَعْتَذِرُوْنَ اِلَيْكُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَيْهِمْ قُلْ لَّا تَعْتَذِرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّاَنَا اللّٰهُ مِنْ اَخْبَارِكُمْ وَ سَيَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَ رَسُوْلُه﴾ الآية»
صحیح بخاری، رقم: 4677
اور حضرت عبد اللہ بن کعب سے روایت ہے، وہ اپنے باپ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں، وہ ان تین صحابہ میں سے تھے جن کی توبہ قبول کی گئی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ دوغزوؤں ، غزوۂ عسرت (یعنی غزوہ تبوک) اور غزوہ بدر کے سوا میں اور کسی غزوے میں کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے سے نہیں رکا تھا۔ انہوں نے بیان کیا چاشت کے وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (غزوے سے واپس تشریف لائے ) تو میں نے سچ بولنے کا پختہ ارادہ کر لیا اور آپ کا سفر سے واپس آنے میں معمول یہ تھا کہ چاشت کے وقت ہی آپ (مدینہ) پہنچتے تھے اور سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے (بہر حال ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اور میری طرح عذر بیان کرنے والے دو اور صحابہ سے دوسرے صحابہ کو بات چیت کرنے سے منع کر دیا۔ ہمارے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ (جو ظاہر میں مسلمان تھے ) اس غزوے میں شریک نہیں ہوئے لیکن آپ نے ان میں سے کسی سے بھی بات چیت کی ممانعت نہیں کی تھی۔ چنانچہ لوگوں نے ہم سے بات چیت کرنا چھوڑ دیا۔ میں اسی حالت میں ٹھہرا رہا۔ معاملہ بہت طول پکڑتا جارہا تھا۔ ادھر میری نظر میں سب سے اہم معاملہ یہ تھا کہ اگر کہیں (اس عرصہ میں) میں مر گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر نماز نہیں پڑھائیں گے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو جائے تو افسوس لوگوں کا یہی طرز عمل میرے ساتھ پھر ہمیشہ کے لیے باقی رہ جائے گا، نہ مجھ سے کوئی گفتگو کرے گا اور نہ مجھ پر نماز جنازہ پڑھے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ کی بشارت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت نازل کی جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تشریف رکھتے تھے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا مجھ پر بڑا احسان وکرم تھا اور وہ میری مدد کیا کرتی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ام سلمہ ! کعب کی توبہ قبول ہو گئی۔ انہوں نے عرض کیا: پھر میں ان کے یہاں کسی کو بھیج کر یہ خوشخبری نہ پہنچادوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ خبر سنتے ہی لوگ جمع ہو جائیں گے اور ساری رات تمہیں سونے نہیں دیں گے۔ چنانچہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھنے کے بعد بتایا کہ اللہ نے ہماری توبہ قبول کرلی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ خوشخبری سنائی تو آپ کا چہرہ مبارک منور ہو گیا جیسے چاند کا ٹکڑا ہو اور (غزوے میں نہ شریک ہونے والے دوسرے لوگوں سے ) جنہوں نے معذرت کی تھی اور ان کی معذرت قبول بھی ہوگئی تھی ، ہم تین صحابہ کا معاملہ بالکل مختلف تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبول ہونے کے متعلق وحی نازل کی، لیکن جب ان دوسرے غزوہ میں شریک نہ ہونے والے لوگوں کا ذکر کیا، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھوٹ بولا تھا اور جھوٹی معذرت کی تھی تو اس درجہ برائی کے ساتھ کیا کہ کسی کا بھی اتنی برائی کے ساتھ ذکر نہ کیا ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”یہ لوگ تمہارے سامنے عذر پیش کریں گے، جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے تو آپ کہہ دیں کہ بہانے نہ بناؤ ہم ہرگز تمہاری بات نہ مانیں گے! بے شک ہم کو اللہ تمہاری خبر دے چکا ہے اور عنقریب اللہ اور اس کا رسول تمہارا عمل دیکھ لیں گے ۔“ آخر آیت تک۔
بَابُ قَوْلِهِ: ﴿اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ﴾ الآية
ارشاد باری تعالیٰ: ”اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر رحمت بھیجتے ہیں۔ ۔“ کا بیان
حدیث 41:
«وعن كعب بن كعب بن عجرة رضي الله عنه ، قيل: يا رسول الله! أما السلام عليك فقد عرفناه ، فكيف الصلاة عليك؟ قال: قولوا اللهم صل على محمد وعلى آل محمد ، كما صليت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد ، اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد، كما باركت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد»
صحیح بخاری، رقم: 4797
اور حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عرض کی گئی اللہ کے رسول ! آپ پر سلام کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہو گیا ہے، لیکن آپ پر ”صلوٰۃ“ کا کیا طریقہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یوں پڑھا کرو: اے اللہ ! تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتیں نازل فرما ار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر بھی ، جس طرح تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آل پر رحمتیں نازل کی ہیں بے شک تو قابل تعریف ہے، بزرگ ہے۔ اے اللہ ! تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر برکتیں نازل فرما اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد پر بھی ، جس طرح تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آل پر نازل فرمائی ہیں۔ بے شک تو قابل تعریف، بزرگ ہے۔
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين