وَ اِنۡ اَحَدٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ اسۡتَجَارَکَ فَاَجِرۡہُ حَتّٰی یَسۡمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبۡلِغۡہُ مَاۡمَنَہٗ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ ٪﴿۶﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دے، یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سنے، پھر اسے اس کی امن کی جگہ پر پہنچا دے۔ یہ اس لیے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو علم نہیں رکھتے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اس کو پناہ دو یہاں تک کہ کلام خدا سننے لگے پھر اس کو امن کی جگہ واپس پہنچادو۔ اس لیے کہ یہ بےخبر لوگ ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناه طلب کرے تو تو اسے پناه دے دے یہاں تک کہ وه کلام اللہ سن لے پھر اسے اپنی جائے امن تک پہنچا دے۔ یہ اس لئے کہ یہ لوگ بے علم ہیں
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
6۔ اور اگر ان مشرکوں میں سے کوئی آپ سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دیجئے تا آنکہ وہ (اطمینان سے) اللہ کا کلام سن لے۔ [6] پھر اسے اس کی جائے امن تک پہنچا دو۔ یہ اس لیے (کرنا چاہئے) کہ وہ لوگ علم نہیں رکھتے
[6] مشرک کو امان مانگنے پر امان دینا اور اسلام سمجھانا چاہئے:۔
یعنی اگر کوئی مشرک اس چار ماہ کی معینہ مدت کے اندر یا بعد میں پکڑ دھکڑ کے دوران یہ درخواست کرے کہ مجھے اسلام کی تعلیم پوری طرح سمجھا دو۔ تو اس کی اس درخواست کو رد نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے اپنے ہاں پناہ دو تاکہ دوسرا کوئی مسلمان بھی اس سے تعرض نہ کرے۔ پھر اسے اسلام کے اصول و ارکان اور اس کے حقائق پوری طرح سمجھا دو۔ پھر بھی اگر وہ اسلام نہیں لاتا اور معاندانہ روش اختیار کرتا ہے تو وہیں اسے قتل نہ کر دو بلکہ اسے اس کی حفاظت کے مقام پر پہنچا دو۔ پھر اس کے بعد تم اس سے وہی سلوک کر سکتے ہو جو دوسرے مشرکوں سے کرنا چاہیے۔ یہ رعایت اس لیے دی گئی کہ کسی مشرک کے لیے اتمام حجت کا عذر باقی نہ رہے۔ پناہ یا امان بھی در اصل ایفائے عہد ہی کی ایک قسم ہے جس میں پناہ لینے والے کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ پناہ دینے والا اس کی جان و مال کی دشمنوں سے حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہے۔ اور وہ خود بھی اسے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچائے گا۔ مسلمانوں کا اس قسم کا ایفائے عہد یا امان کی پاسداری اس قدر زبان زد تھی کہ دشمن نے بعض دفعہ مسلمانوں کی کسی واقعہ سے لاعلمی سے فائدہ اٹھا کر امان حاصل کی اور عظیم فائدے حاصل کیے اور مسلمان جو پناہ دے چکے تھے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ یہ امان مکر و فریب سے حاصل کی گئی ہے اپنا نقصان اٹھا کر بھی اس عہد کو پورا کیا۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر صرف ایک مسلمان خواہ وہ آزاد ہو یا غلام یا عورت ہو کسی کو پناہ دے دے تو وہ تمام مسلمانوں کی طرف سے امان سمجھی جائے گی۔ چنانچہ خوزستان (ایران) کی فتوحات کے سلسلہ میں ایک مقام شابور کا مسلمانوں نے محاصرہ کیا ہوا تھا۔ ایک دن شہر والوں نے خود شہر پناہ کے دروازے کھول دیئے اور نہایت اطمینان سے اپنے کام کاج میں لگ گئے۔ مسلمانوں کو اس بات پر بڑی حیرت ہوئی۔ سبب پوچھا تو شہر والوں نے کہا کہ تم ہم کو جزیہ کی شرط پر ایمان دے چکے ہو۔ اب کیا جھگڑا رہا (واضح رہے کہ جزیہ کی شرط پر امان کا اصل وقت جنگ شروع ہونے سے پہلے ہے۔ دوران جنگ یا فتح کے بعد نہیں) سب کو حیرت تھی کہ امان کس نے دی۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایک غلام نے لوگوں سے چھپا کر امن کا رقعہ لکھ دیا ہے۔ ابو موسیٰ اسلامی سپہ سالار نے کہا کہ ایک غلام کی امان حجت نہیں ہو سکتی۔ شہر والے کہتے تھے کہ ہم آزاد غلام نہیں جانتے۔ آخر حضرت عمرؓ کو خط لکھا گیا۔ آپ نے جواب میں لکھا کہ ”مسلمانوں کا غلام بھی مسلمان ہے اور جس کو اس نے امان دی تمام مسلمان امان دے چکے۔“ [الفاروق ص 231]
اور عورت کی امان کے سلسلہ میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے: فتح مکہ کے موقعہ پر ام ہانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پس پردہ غسل فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ”کون ہے؟“ ام ہانی کہنے لگیں ”میں ام ہانی ہوں“ پھر ام ہانی نے عرض کیا ”اے اللہ کے رسول! میری ماں کے لڑکے (علیؓ) یہ کہتے ہیں کہ وہ ہبیرہ (ام ہانی کے خاوند کا نام) کے لڑکے کو قتل کر دیں گے جبکہ میں اسے پناہ دے چکی ہوں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ام ہانی! جس کو تم نے پناہ دی ہم نے بھی اس کو پناہ دی۔“ [بخاري كتاب الغسل۔ باب التستر فى الغسل]
مسلمانوں کی اس راستبازی اور ایفائے عہد کی بنا پر دشمن دھوکا دے کر بھی امان حاصل کر لیتے تھے۔ چنانچہ عراق و ایران کی جنگوں میں خارق کے مقام پر سیدنا ابو عبیدہ ابن الجراح اور ایرانیوں کے سپہ سالار جاپان کی افواج کا مقابلہ ہوا۔ جاپان شکست کھا کر گرفتار ہو گیا۔ مگر جس مجاہد نے اسے گرفتار کیا تھا وہ اسے پہچانتا نہیں تھا۔ جاپان نے اس کی لاعلمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے عوض دو نوجوان غلام دینے کا وعدہ کر کے امان لے لی۔ اتنے میں کسی دوسرے نے اسے پہچان لیا اور پکڑ کر ابو عبیدہ کے پاس لے گئے۔ سیدنا ابو عبیدہ نے یہ صورت حال دیکھ کر فرمایا: اگرچہ ایسے دشمن کو چھوڑ دینا ہمارے حق میں بہت مضر ثابت ہو گا مگر ایک مسلمان اسے پناہ دے چکا ہے اس لیے بد عہدی جائز نہیں چنانچہ اس امان کی بنا پر اسے چھوڑ دیا گیا۔ [تاريخ اسلام۔ حميد الدين ص 132]
اب اس کے مقابلہ میں عیسائی دنیا کی صلیبی جنگوں میں امان، کا قصہ بھی سن لیجئے۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد طرابلس کے مسلمان بادشاہ نے کاؤنٹ بوہیمانڈ کو پیغام بھیجا کہ وہ معاہدہ کرنے کو تیار ہے اور ساتھ ہی دس گھوڑے اور سونا بھی خیر سگالی کے طور پر بھیجا اور یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا جب کاؤنٹ امان دے چکنے کے بعد پورے شہر کے زن و مرد کو موت کی گھاٹ اتار رہا تھا۔ بوہیمانڈ نے ترجمان کے ذریعہ مسلمان امیروں کو بتایا کہ اگر وہ صدر دروازے کے اوپر والے محل میں پناہ لے لیں تو ان کو، ان کی بیویوں اور ان کے بچوں کو پناہ دے دی جائے گی اور ان کا مال واپس کر دیا جائے گا۔ شہر کا ایک کونا بھی مسلمانوں کی لاشوں سے خالی نہ تھا اور چلنا پھرنا دشوار ہو گیا تھا بوہیمانڈ نے جن کو پناہ دی تھی ان کا سونا چاندی اور زیورات ان سے لے لیے اور ان میں سے بعض کو تو مروا دیا اور باقی ماندہ کو انطاکیہ میں غلام بنا کر بیچ ڈالا گیا۔ [پهلي صليبي جنگ ص 45 بحواله جهاد از بريگيڈيئر گلزار احمد ص 267]
اور عورت کی امان کے سلسلہ میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے: فتح مکہ کے موقعہ پر ام ہانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پس پردہ غسل فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ”کون ہے؟“ ام ہانی کہنے لگیں ”میں ام ہانی ہوں“ پھر ام ہانی نے عرض کیا ”اے اللہ کے رسول! میری ماں کے لڑکے (علیؓ) یہ کہتے ہیں کہ وہ ہبیرہ (ام ہانی کے خاوند کا نام) کے لڑکے کو قتل کر دیں گے جبکہ میں اسے پناہ دے چکی ہوں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ام ہانی! جس کو تم نے پناہ دی ہم نے بھی اس کو پناہ دی۔“ [بخاري كتاب الغسل۔ باب التستر فى الغسل]
مسلمانوں کی اس راستبازی اور ایفائے عہد کی بنا پر دشمن دھوکا دے کر بھی امان حاصل کر لیتے تھے۔ چنانچہ عراق و ایران کی جنگوں میں خارق کے مقام پر سیدنا ابو عبیدہ ابن الجراح اور ایرانیوں کے سپہ سالار جاپان کی افواج کا مقابلہ ہوا۔ جاپان شکست کھا کر گرفتار ہو گیا۔ مگر جس مجاہد نے اسے گرفتار کیا تھا وہ اسے پہچانتا نہیں تھا۔ جاپان نے اس کی لاعلمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے عوض دو نوجوان غلام دینے کا وعدہ کر کے امان لے لی۔ اتنے میں کسی دوسرے نے اسے پہچان لیا اور پکڑ کر ابو عبیدہ کے پاس لے گئے۔ سیدنا ابو عبیدہ نے یہ صورت حال دیکھ کر فرمایا: اگرچہ ایسے دشمن کو چھوڑ دینا ہمارے حق میں بہت مضر ثابت ہو گا مگر ایک مسلمان اسے پناہ دے چکا ہے اس لیے بد عہدی جائز نہیں چنانچہ اس امان کی بنا پر اسے چھوڑ دیا گیا۔ [تاريخ اسلام۔ حميد الدين ص 132]
اب اس کے مقابلہ میں عیسائی دنیا کی صلیبی جنگوں میں امان، کا قصہ بھی سن لیجئے۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد طرابلس کے مسلمان بادشاہ نے کاؤنٹ بوہیمانڈ کو پیغام بھیجا کہ وہ معاہدہ کرنے کو تیار ہے اور ساتھ ہی دس گھوڑے اور سونا بھی خیر سگالی کے طور پر بھیجا اور یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا جب کاؤنٹ امان دے چکنے کے بعد پورے شہر کے زن و مرد کو موت کی گھاٹ اتار رہا تھا۔ بوہیمانڈ نے ترجمان کے ذریعہ مسلمان امیروں کو بتایا کہ اگر وہ صدر دروازے کے اوپر والے محل میں پناہ لے لیں تو ان کو، ان کی بیویوں اور ان کے بچوں کو پناہ دے دی جائے گی اور ان کا مال واپس کر دیا جائے گا۔ شہر کا ایک کونا بھی مسلمانوں کی لاشوں سے خالی نہ تھا اور چلنا پھرنا دشوار ہو گیا تھا بوہیمانڈ نے جن کو پناہ دی تھی ان کا سونا چاندی اور زیورات ان سے لے لیے اور ان میں سے بعض کو تو مروا دیا اور باقی ماندہ کو انطاکیہ میں غلام بنا کر بیچ ڈالا گیا۔ [پهلي صليبي جنگ ص 45 بحواله جهاد از بريگيڈيئر گلزار احمد ص 267]