فَاِذَا انۡسَلَخَ الۡاَشۡہُرُ الۡحُرُمُ فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ وَ خُذُوۡہُمۡ وَ احۡصُرُوۡہُمۡ وَ اقۡعُدُوۡا لَہُمۡ کُلَّ مَرۡصَدٍ ۚ فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوۡا سَبِیۡلَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
پس جب حرمت والے مہینے نکل جائیں تو ان مشرکوں کو جہاں پائو قتل کرو اور انھیں پکڑو اور انھیں گھیرو اور ان کے لیے ہر گھات کی جگہ بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
جب عزت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو اور پکڑلو اور گھیرلو اور ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھے رہو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
پھر حرمت والے مہینوں کے گزرتے ہی مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو انہیں گرفتار کرو، ان کا محاصره کرلو اور ان کی تاک میں ہر گھاٹی میں جا بیٹھو، ہاں اگر وه توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکوٰة ادا کرنے لگیں توتم ان کی راہیں چھوڑ دو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
5۔ پھر جب یہ حرمت [4] والے (چار) مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو، انہیں پکڑو، ان کا محاصرہ کرو اور ان کی تاک میں ہر گھات کی جگہ بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے [5] لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ (کیونکہ) اللہ درگزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے [4] یہاں حرمت والے مہینوں سے مراد 10 ذی الحجہ 9 ہجری سے لے کر 10 ربیع الثانی 10 ہجری تک چار ماہ کی مدت ہے جو مشرکوں کو سوچ بچار کے لیے دی گئی تھی۔ یہاں حرمت والے مہینوں سے مراد ذیقعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب نہیں ہیں جو دور جاہلیت میں بھی حرمت والے سمجھے جاتے تھے اور اسلام نے بھی ان کی حرمت کو بحال رکھا ہے۔
[5] مشرکوں سے جنگ نہ کرنے کی شرائط:۔
درج ذیل حدیث اس کی مزید وضاحت کر رہی ہے۔ عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے جنگ کروں جب تک وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی نہ دیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ پھر جب وہ یہ کام کریں تو انہوں نے مجھ سے اپنی جانیں اور اپنے مال محفوظ کر لیے سوائے اسلام کے حق کے اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔“ [بخاري۔ كتاب الايمان۔ باب فان، تابوا۔۔ مسلم۔ كتاب الايمان۔ باب الامر بقتال الناس حتي۔۔]
یعنی ان مشرکوں کو محض اسلام لانے کا اعلان یا توبہ کرنا ہی کافی نہیں بلکہ انہیں اپنے دعویٰ کو درست ثابت کرنے کے لیے نماز کا قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ اور اگر کوئی مشرک ظاہری طور پر یہ تینوں شرائط پوری کر دے تو اس سے تعرض نہیں کیا جائے گا خواہ اس کی نیت میں فتور بدستور موجود ہو۔ اور اگر ایسی صورت ہو تو اللہ اس سے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ایسے لوگوں سے نمٹ لے گا۔ اس آیت سے یہ اصول مستنبط ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان خواہ وہ موروثی مسلمان ہو یا نو مسلم ہو اگر وہ نماز قائم کرتا اور زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو ایک اسلامی حکومت میں اسے حقوق شہریت مل سکتے ہیں اور اگر نہیں کرتا تو اسے مسلمانوں جیسے حقوق نہیں مل سکتے۔
یعنی ان مشرکوں کو محض اسلام لانے کا اعلان یا توبہ کرنا ہی کافی نہیں بلکہ انہیں اپنے دعویٰ کو درست ثابت کرنے کے لیے نماز کا قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ اور اگر کوئی مشرک ظاہری طور پر یہ تینوں شرائط پوری کر دے تو اس سے تعرض نہیں کیا جائے گا خواہ اس کی نیت میں فتور بدستور موجود ہو۔ اور اگر ایسی صورت ہو تو اللہ اس سے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ایسے لوگوں سے نمٹ لے گا۔ اس آیت سے یہ اصول مستنبط ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان خواہ وہ موروثی مسلمان ہو یا نو مسلم ہو اگر وہ نماز قائم کرتا اور زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو ایک اسلامی حکومت میں اسے حقوق شہریت مل سکتے ہیں اور اگر نہیں کرتا تو اسے مسلمانوں جیسے حقوق نہیں مل سکتے۔
مرتدین اور بالفعل زکوٰۃ نہ دینے والوں سے سیدنا ابو بکر صدیقؓ کا جہاد:۔
دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس اعلان کے بعد مشرکوں نے صرف تیسری راہ اختیار کی یعنی وہ اسلام لے آئے۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پھر ایسے مشرکوں نے سر اٹھایا۔ کچھ تو سرے سے اسلام سے ہی مرتد ہو گئے اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے ایسے لوگوں کے بارے میں جنگ کرنے سے متعلق مجلس شوریٰ طلب کی۔ اور ایسے نازک حالات میں ان مانعین زکوٰۃ کے خلاف جہاد کرنے کے متعلق مشورہ کیا۔ اس مجلس میں اکثر صحابہ نے حالات کی نزاکت کے پیش نظر ان سے فی الحال تعرض نہ کرنے کا مشورہ دیا اور بعض نے یہ کہا کہ آپ ایسے لوگوں سے کیسے جنگ کر سکتے ہیں جو کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام میں داخل ہو چکے ہیں تو سیدنا ابو بکرؓ نے اسی آیت سے استدلال کر کے شوریٰ پر ثابت کر دیا کہ اسلام کے دعویٰ کی صداقت کے لیے جیسے نماز کی ادائیگی شرط ہے ویسے ہی زکوٰۃ کی ادائیگی بھی شرط ہے چنانچہ شوریٰ کو اس بات کا قائل ہونا پڑا اور آپ نے ان مانعین زکوٰۃ سے کفار و مشرکین کی طرح جہاد کیا۔