لَوۡ کَانَ عَرَضًا قَرِیۡبًا وَّ سَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوۡکَ وَ لٰکِنۡۢ بَعُدَتۡ عَلَیۡہِمُ الشُّقَّۃُ ؕ وَ سَیَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰہِ لَوِ اسۡتَطَعۡنَا لَخَرَجۡنَا مَعَکُمۡ ۚ یُہۡلِکُوۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ ۚ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ ﴿٪۴۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اگر کوئی قریب سامان اور درمیانہ سفر ہوتا تو وہ ضرور تیرے ساتھ جاتے، لیکن ان پر فاصلہ دور پڑ گیا اور عنقریب وہ اللہ کی قسم کھائیں گے کہ اگر ہم طاقت رکھتے تو تمھارے ساتھ ضرور نکلتے۔ وہ اپنے آپ کو ہلاک کر رہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ بے شک وہ ضرور جھوٹے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اگر مالِ غنیمت سہل الحصول اور سفر بھی ہلکا سا ہوتا تو تمہارے ساتھ (شوق سے) چل دیتے۔ لیکن مسافت ان کو دور (دراز) نظر آئی (تو عذر کریں گے) ۔ اور خدا کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم طاقت رکھتے تو آپ کے ساتھ ضرور نکل کھڑے ہوتے یہ (ایسے عذروں سے) اپنے تئیں ہلاک کر رہے ہیں۔ اور خدا جانتا ہے کہ جھوٹے ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اگر جلد وصول ہونے واﻻ مال واسباب ہوتا اور ہلکا سفر ہوتا تو یہ ضرور آپ کے پیچھے ہو لیتے لیکن ان پر تو دوری اور دراز کی مشکل پڑ گئی۔ اب تو یہ اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم میں قوت وطاقت ہوتی تو ہم یقیناً آپ کے ساتھ نکلتے، یہ اپنی جانوں کو خود ہی ہلاکت میں ڈال رہے ہیں ان کے جھوٹا ہونے کا سچا علم اللہ کو ہے

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

42۔ اگر دنیوی فائدہ قریب نظر آتا اور سفر بھی واجبی سا ہوتا تو یہ (منافق) آپ کے ساتھ [46] ہولیتے۔ مگر یہ مسافت انہیں کٹھن معلوم ہوئی تو لگے اللہ کی قسمیں کھانے: ”اگر ہم تمہارے ساتھ نکل سکتے تو ضرور نکلتے“ یہ لوگ اپنے آپ کو ہی ہلاک کر رہے ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ یہ لوگ یقیناً جھوٹے ہیں
[46] منافقوں کے عذر:۔
یعنی اگر تھوڑی سی محنت کے بعد منافقوں کو مال غنیمت ہاتھ آجانے کی توقع ہوتی اور سفر بھی اتنا طویل اور پر مشقت نہ ہوتا تو پھر تو یہ منافق یقیناً آپ کے ہمراہ نکلنے کو تیار ہو جاتے۔ لیکن شام تک کا سفر، وہ بھی شدید گرمی کے موسم میں جبکہ سواریاں بھی بہت کم ہیں اور آگے مقابلہ بھی ایک بہت دبدبے والی حکومت سے ہے جہاں فتح کے بجائے ناکامی کے آثار دکھائی دیتے ہیں تو ایسی صورت میں یہ کیسے آپ کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ اب تو وہ یہی قسمیں کھائیں گے کہ اس وقت ہمارے حالات سازگار نہیں۔ ورنہ ہمیں آپ کے ہمراہ جانے میں کوئی عذر نہ ہوتا۔ اور وہ جھوٹے اس لحاظ سے نہیں ہیں کہ حقیقتاً جو باتیں اور خدشات انہیں جہاد پر جانے سے روک رہے ہیں انہیں وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اور آپ کے سامنے ظاہر کر ہی نہیں سکتے۔ لہٰذا ادھر ادھر کی باتیں عذر کے طور پر پیش کر دیتے ہیں۔