قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
کہہ دے اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا خاندان اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور رہنے کے مکانات، جنھیں تم پسند کرتے ہو، تمھیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور خاندان کے آدمی اور مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس کے بند ہونے سے ڈرتے ہو اور مکانات جن کو پسند کرتے ہو خدا اور اس کے رسول سے اور خدا کی راہ میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ عزیز ہوں تو ٹھہرے رہو یہاں تک کہ خدا اپنا حکم (یعنی عذاب) بھیجے۔ اور خدا نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکےاور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وه تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وه حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راه میں جہاد سے بھی زیاده عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے۔ اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
24۔ (اے نبی! آپ مسلمانوں سے) کہہ دیجئے کہ اگر تمہیں اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیویاں، اپنے کنبہ والے اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے مکان جو تمہیں [22] پسند ہیں، اللہ، اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو راہ نہیں دکھاتا
[22] دنیوی مرغوبات میں پھنس کر جہاد چھوڑنے کی سزا:۔
اس آیت میں جن رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان سے انسان کو فطری لگاؤ ہوتا ہے اور بعض مسلمانوں کے باپ یا بیٹے یا بیویاں کافر تھیں جنہیں چھوڑ کر ہجرت کرنا مشکل سی بات تھی۔ اسی طرح انسان کو اپنے کمائے ہوئے مال و دولت، اپنے کاروبار سے اور جائیداد سے بھی بہت محبت ہوتی ہے کیونکہ یہ چیزیں اس کے گاڑھے خون پسینے کی کمائی کے نتیجہ میں اسے حاصل ہوتی ہے لہٰذا انہی چیزوں سے مومنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا ہے کہ آیا وہ ان چیزوں کو چھوڑ کر دین کی خاطر ہجرت اور جہاد کرتے ہیں یا نہیں؟ چنانچہ صحابہ کرامؓ کی اکثریت اس معیار پر بھی پوری اتری۔ تھوڑے ہی مسلمان ایسے تھے جو انہی فطری کمزوریوں کی وجہ سے مکہ میں یا اطراف و جوانب میں رہ گئے تھے اس آیت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم نے ان کمزوریوں کو دور نہ کیا اور اپنی جانوں اور اموال سے جہاد کرنے میں کوتاہی کی اور رشتہ داروں کی محبت، تن آسانی اور دنیا طلبی کی راہ اختیار کی اور خواہشات نفس میں پھنس کر اللہ کے احکام کی تعمیل نہ کی تو تمہیں حقیقی کامیابی نصیب نہ ہو گی۔ اور حدیث میں ہے کہ جب تم جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا جس سے تم کبھی نکل نہ سکو گے۔ [ابن ماجه۔ كتاب الجهاد، باب التغليظ فى الجهاد]