یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَاذَاۤ اُحِلَّ لَہُمۡ ؕ قُلۡ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ ۙ وَ مَا عَلَّمۡتُمۡ مِّنَ الۡجَوَارِحِ مُکَلِّبِیۡنَ تُعَلِّمُوۡنَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ ۫ فَکُلُوۡا مِمَّاۤ اَمۡسَکۡنَ عَلَیۡکُمۡ وَ اذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہِ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ ﴿۴﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
تجھ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے؟ کہہ دے تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں اور شکاری جانوروں میں سے جو تم نے سدھائے ہیں، (جنھیں تم) شکاری بنانے والے ہو، انھیں اس میں سے سکھاتے ہو جو اللہ نے تمھیں سکھایا ہے تو اس میں سے کھائو جو وہ تمھاری خاطر روک رکھیں اور اس پر اللہ کا نام ذکر کرو اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لیے حلال ہیں (ان سے) کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں تم کو حلال ہیں اور وہ (شکار) بھی حلال ہے جو تمہارے لیے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہو اور جس (طریق) سے خدا نے تمہیں (شکار کرنا) سکھایا ہے (اس طریق سے) تم نے ان کو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو کھا لیا کرو اور (شکاری جانوروں کو چھوڑتے وقت) خدا کا نام لے لیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بےشک خدا جلد حساب لینے والا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا کچھ حلال ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ تمام پاک چیزیں تمہارے لئے حلال کی گئی ہیں، اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھا رکھا ہے یعنی جنہیں تم تھوڑا بہت وه سکھاتے ہو جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے تمہیں دے رکھی ہے پس جس شکار کو وه تمہارے لئے پکڑ کر روک رکھیں تو تم اس سے کھا لو اور اس پر اللہ تعالیٰ کے نام کا ذکر کر لیا کرو۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے واﻻ ہے
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
4۔ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لئے کیا کچھ حلال کیا گیا ہے؟ آپ ان سے کہئے کہ تمام پاکیزہ چیزیں تمہارے [22] لیے حلال کر دی گئی ہیں۔ اور ان شکاری جانوروں کا شکار بھی جنہیں تم نے اس طرح سدھایا ہو۔ جیسے اللہ نے تمہیں سکھایا ہے۔ لہذا جو شکار وہ تمہارے لیے روکے رکھیں وہ کھا سکتے ہو اور انہیں چھوڑتے وقت اللہ کا نام [23] لے لیا کرو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بلا شبہ اللہ کو حساب چکانے میں دیر نہیں لگتی
[22] ہر چیز کی اصل اباحت ہے:۔
اس آیت میں کھانے پینے کی اشیاء کی حلت و حرمت کے متعلق ایک عظیم الشان اصول دیا گیا ہے جسے فقہی زبان میں یوں ادا کیا جاتا ہے کہ ”ہر چیز کی اصل اباحت ہے“ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کھانے پینے کی تمام اشیاء دو شرطوں کے ساتھ تمہارے لیے حلال ہیں ایک یہ کہ وہ چیز پاکیزہ اور صاف ستھری ہو گندی باسی۔ سڑی ہوئی اور بدبو دار نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ اس کے متعلق شریعت میں یہ صراحت نہ ہو کہ وہ حرام ہے اس طرح حرام اشیاء کا دائرہ بہت محدود ہو جاتا ہے اور حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع ہو جاتا ہے۔ جبکہ اس آیت کے نزول سے پہلے عموماً یہی سمجھا جاتا تھا کہ حلال صرف وہ چیز ہو سکتی ہے جس کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت موجود ہو۔ جیسا کہ اس آیت میں مسلمانوں کے یہی سوال کرنے سے بھی ظاہر ہوتا ہے اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے سابقہ نظریہ کو بدل کر اور حلال اشیاء کا دائرہ وسیع کر کے مسلمانوں پر احسان عظیم فرمایا ہے۔
[23] شکار کے متعلق احکام:۔
شکاری جانوروں میں پرندے بھی شامل ہیں جیسے باز اور شکرا وغیرہ۔ یعنی کتا، چیتا، باز، شکرا جسے بھی یہ بات سکھائی گئی ہو کہ وہ شکار کو اپنے مالک کے لیے روک رکھے گا۔ خود اس میں سے کچھ نہ کھائے گا۔ اس آیت کی تشریح کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔
1۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تم اپنے سدھائے ہوئے کتوں کو چھوڑو اور ان پر اللہ کا نام لو تو ان کا کیا ہوا شکار کھا لو۔“
[مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب الصید۔ باب الصید بالکلاب المعلمۃ والرمی]
2۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تم اپنا تیر چھوڑو تو بسم اللہ کہہ لو۔“
[مسلم۔ ايضاً]
3۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تم تیر چھوڑو اور شکار غائب ہو جائے تو جب ملے اسے کھا سکتے ہو بشرطیکہ سڑ نہ جائے۔“
[مسلم۔ کتاب الصید و الذبائح، باب اذاغاب عنہ الصید ثم وجدہ]
4۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر تم شکار پر تیر چھوڑو۔ پھر اس شکار کو ایک یا دو دن کے بعد پاؤ۔ پھر دیکھو کہ اس پر تمہارے تیر کے علاوہ کوئی اور نشان نہیں تو اسے کھا سکتے ہو۔ اور اگر وہ شکار پانی میں گر پڑا ہو تو اسے مت کھاؤ۔“
[بخاری۔ کتاب الذبائح والصید۔ باب الصید اذا غاب عنہ یومین اوثلاثہ]
5۔ سیدنا عبد اللہ بن مغفلؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری (پھینک کر شکار کرنے) سے منع فرمایا اور فرمایا کہ اس کے ذریعہ شکار نہ کیا جائے۔
[بخاری۔ کتاب الذبائح والصید۔ باب الخذف والبندقۃ۔ مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب اباحۃ مایستعان بہ علی الاصطیاد]
6۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان کرنا فرض کر دیا ہے لہٰذا جب تم کسی جاندار کو مارو یا ذبح کرو تو احسن طریقہ سے مارو (یعنی اپنی چھری وغیرہ کو خوب تیز کر لو۔ تاکہ اس مذبوحہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو)“
[مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب الامر باحسان الذبح والقتل]
1۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تم اپنے سدھائے ہوئے کتوں کو چھوڑو اور ان پر اللہ کا نام لو تو ان کا کیا ہوا شکار کھا لو۔“
[مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب الصید۔ باب الصید بالکلاب المعلمۃ والرمی]
2۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تم اپنا تیر چھوڑو تو بسم اللہ کہہ لو۔“
[مسلم۔ ايضاً]
3۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تم تیر چھوڑو اور شکار غائب ہو جائے تو جب ملے اسے کھا سکتے ہو بشرطیکہ سڑ نہ جائے۔“
[مسلم۔ کتاب الصید و الذبائح، باب اذاغاب عنہ الصید ثم وجدہ]
4۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر تم شکار پر تیر چھوڑو۔ پھر اس شکار کو ایک یا دو دن کے بعد پاؤ۔ پھر دیکھو کہ اس پر تمہارے تیر کے علاوہ کوئی اور نشان نہیں تو اسے کھا سکتے ہو۔ اور اگر وہ شکار پانی میں گر پڑا ہو تو اسے مت کھاؤ۔“
[بخاری۔ کتاب الذبائح والصید۔ باب الصید اذا غاب عنہ یومین اوثلاثہ]
5۔ سیدنا عبد اللہ بن مغفلؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری (پھینک کر شکار کرنے) سے منع فرمایا اور فرمایا کہ اس کے ذریعہ شکار نہ کیا جائے۔
[بخاری۔ کتاب الذبائح والصید۔ باب الخذف والبندقۃ۔ مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب اباحۃ مایستعان بہ علی الاصطیاد]
6۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان کرنا فرض کر دیا ہے لہٰذا جب تم کسی جاندار کو مارو یا ذبح کرو تو احسن طریقہ سے مارو (یعنی اپنی چھری وغیرہ کو خوب تیز کر لو۔ تاکہ اس مذبوحہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو)“
[مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب الامر باحسان الذبح والقتل]