وَّ الۡخَیۡلَ وَ الۡبِغَالَ وَ الۡحَمِیۡرَ لِتَرۡکَبُوۡہَا وَ زِیۡنَۃً ؕ وَ یَخۡلُقُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۸﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور گھوڑے اور خچر اور گدھے، تاکہ تم ان پر سوار ہو اور زینت کے لیے، اور وہ پیدا کرے گا جو تم نہیں جانتے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور اسی نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور (وہ تمہارے لیے) رونق وزینت (بھی ہیں) اور وہ (اور چیزیں بھی) پیدا کرتا ہے جن کی تم کو خبر نہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
گھوڑوں کو، خچروں کو، گدھوں کو اس نے پیدا کیا کہ تم ان کی سواری لو اور وه باعﺚ زینت بھی ہیں۔ اور بھی وه ایسی بہت چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم بھی نہیں
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
8۔ اس نے گھوڑے، خچر اور گدھے بھی پیدا کئے تاکہ تم ان پر سواری کرو اور وہ تمہارے لئے باعث زینت بھی [7] ہیں اور وہ اور بھی کئی چیزیں پیدا کرے گا۔ جنہیں [8] تم نہیں جانتے [7] ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے مویشیوں کو بھی انسان ہی کی خدمت کے لیے پیدا فرمایا ہے جن سے وہ طرح طرح کے فوائد حاصل کرتا ہے بعض جانور ایسے ہیں جن کے گوشت کو غذا کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ دودھ، مکھن اور گھی انھیں سے حاصل کرتا تھا۔ گرم پوشاک انھیں مویشیوں کی اون سے مہیا ہوتی ہے۔ وہ اس کے بار برداری کے کام بھی آتے ہیں اور سواری کے بھی۔ ان کے چمڑے سے وہ بہت سی قیمتی چیزیں تیار کرتا ہے۔ حتیٰ کہ ان کی ہڈیوں تک کو اپنے کام میں لاتا ہے پھر مزید یہ کہ اس کے لیے زینت بھی ہیں اور شان و شوکت کا سامان بھی۔ آج کے مشینی دور میں گو بہ لحاظ سواری اور بار برداری مویشیوں کی قدر و قیمت بہت کم ہو گئی ہے۔ تاہم ابھی تک ان کی ضرورت بدستور باقی ہے لیکن اس مشینی دور کو شروع ہوئے ابھی تین سو سال سے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ ذرا غور فرمائیے اس مشینی دور سے پہلے اگر یہ مویشی نہ ہوتے تو انسان بالخصوص بار برداری کے مسئلے میں کسی قدر مشقت میں پڑ سکتا تھا۔ پھر اس مشینی دور نے بھی ان جانوروں کے فوائد کے صرف ایک حصہ یعنی سواری اور بار برداری کو کم کیا ہے۔ اور آج بھی دشوار گزار راستوں پر انہی جانوروں سے سواری اور بار برداری کا کام لیا جاتا ہے۔ ان جانوروں کے باقی سب فوائد بدستور باقی ہیں اور یہ سب احسانات اللہ تعالیٰ نے انسان پر اس لئے کیے کہ اس کی جسمانی زندگی کے بقا کے لیے اس کے ممد و معاون ثابت ہوں۔ مندرجہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے جہاں سواری اور زینت کا ذکر فرمایا تو گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کا نام لیا اور جہاں بار برداری اور جمال کا ذکر فرمایا تو وہاں انعام کا لفظ استعمال فرمایا اور انعام نعم کی جمع ہے گو اس کا اطلاق درندوں کے علاوہ باقی سب جانوروں پر ہوتا ہے تاہم اس کا زیادہ تر استعمال اونٹ کے لیے ہی ہوتا ہے کیونکہ عربوں کے لیے اونٹ سے بڑھ کر کوئی نعمت نہ تھی جس کی کئی وجوہ ہیں۔ مثلاً اونٹ باقی سب جانوروں سے زیادہ بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ عام اندازے کے مطابق گدھا 5 من یا 2 بوریاں غلہ اٹھا سکتا ہے۔ گھوڑے اور خچر 3 بوریاں جبکہ اونٹ 4 بوریاں بآسانی اٹھا سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ باقی سب جانوروں پر انھیں کھڑا کر کے بوجھ لادا جاتا ہے صرف اونٹ ایک ایسا جانور ہے جسے بٹھا کر اس پر بوجھ لادا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی لمبوتری گردن میں اتنی قوت رکھی ہے کہ وہ اس کے سہارے بھرے ہوئے بوجھ سمیت اٹھ کھڑا ہوتا ہے اونٹ میں بار برداری کے لحاظ سے تیسری خوبی یہ ہے کہ وہ عرب کے لق و دق صحراؤں کے ریگستان میں بآسانی سفر کر سکتا ہے اور چوتھی یہ کہ پانی کے بغیر یہ جانور کئی دنوں تک اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے اونٹ کی انہی خوبیوں کی بنا پر اسے ”صحرا کا جہاز“ کا نام دیا گیا ہے۔ آج کے مشینی دور میں بھی جہاں پٹرول کی گاڑیاں کام نہیں دیتیں یہی صحرائی جہاز کام دیتا ہے۔
[8] مویشیوں کے فوائد:۔
اس جملہ کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کئی ایسی چیزیں تمہارے لیے پیدا کر رکھی ہیں جو تمہاری خدمت پر مامور ہیں لیکن تم انھیں جان نہیں سکتے یا ابھی تک جان نہیں سکے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری سواری اور بار برداری اور دوسرے فوائد کے لیے مستقبل میں کئی ایسی چیزیں پیدا کرے گا جن کا فی الحال تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ مثلاً سواری کے لیے اللہ تعالیٰ نے بسیں، ریل گاڑیاں اور ہوائی جہاز پیدا کر دیئے اور معلوم نہیں کہ آئندہ کیا کچھ پیدا کرے گا۔ یہی حال زندگی کے دوسرے شعبوں میں نت نئی نئی ایجادات کا ہے۔