ترجمہ و تفسیر کیلانی — سورۃ إبراهيم (14) — آیت 9
اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ نَبَؤُا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ قَوۡمِ نُوۡحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوۡدَ ۬ؕۛ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ؕۛ لَا یَعۡلَمُہُمۡ اِلَّا اللّٰہُ ؕ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَرَدُّوۡۤا اَیۡدِیَہُمۡ فِیۡۤ اَفۡوَاہِہِمۡ وَ قَالُوۡۤا اِنَّا کَفَرۡنَا بِمَاۤ اُرۡسِلۡتُمۡ بِہٖ وَ اِنَّا لَفِیۡ شَکٍّ مِّمَّا تَدۡعُوۡنَنَاۤ اِلَیۡہِ مُرِیۡبٍ ﴿۹﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
کیا تمھارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، نوح کی قوم کی (خبر) اور عاد اور ثمود کی اور ان کی جو ان کے بعد تھے، جنھیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، ان کے رسول ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے تو انھوں نے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں لوٹالیے اور انھوں نے کہا بے شک ہم اسے نہیں مانتے جو تم دے کر بھیجے گئے ہو اور بے شک ہم تو اس چیز کے بارے میں جس کی طرف تم ہمیں دعوت دیتے ہو، ایک بے چین رکھنے والے شک میں مبتلا ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
بھلا تم کو ان لوگوں (کے حالات) کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے تھے (یعنی) نوح اور عاد اور ثمود کی قوم۔ اور جو ان کے بعد تھے۔ جن کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں (جب) ان کے پاس پیغمبر نشانیاں لے کر آئے تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دیئے (کہ خاموش رہو) اور کہنے لگے کہ ہم تو تمہاری رسالت کو تسلیم نہیں کرتے اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ہم اس سے قوی شک میں ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
کیا تمہارے پاس تم سے پہلے کے لوگوں کی خبریں نہیں آئیں؟ یعنی قوم نوح کی اور عاد وﺛمود کی اور ان کے بعد والوں کی جنہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا، ان کے پاس ان کے رسول معجزے ﻻئے، لیکن انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منھ میں دبالیے اور صاف کہہ دیا کہ جو کچھ تمہیں دے کر بھیجا گیا ہے ہم اس کے منکر ہیں اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو ہمیں تو اس میں بڑا بھاری شبہ ہے

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

9۔ کیا تمہیں ان لوگوں کے حالات نہیں پہنچے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں جیسے نوح، عاد اور ثمود کی قومیں، اور ان کے بعد آنے والے لوگوں کے حالات جنہیں صرف [11] اللہ ہی جانتا ہے۔ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے تو انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منہ [12] میں دے دیئے اور کہنے لگے: ”جو پیغام تم لائے ہو ہم اس کا انکار کرتے ہیں اور جس بات کی طرف ہمیں بلاتے ہو اس سے ہم ایسے شک میں پڑ گئے ہیں جو ہمیں بے چین [13] کر رہا ہے“ [11] پچھلی آیت پر موسیٰؑ کا خطاب ختم ہوا اور اس آیت سے اللہ تعالیٰ کا مشرکین مکہ کو خطاب شروع ہوتا ہے۔ سابقہ مقامات پر اقوام اور انبیاء کا الگ الگ ذکر ہوتا رہا۔ یہاں بحیثیت مجموعی ذکر ہو رہا ہے اور قریش مکہ سے صرف ان اقوام کا ذکر کیا گیا ہے جو ان کے آس پاس تھیں یا جن کے حالات کسی نہ کسی ذریعہ سے ان تک پہنچ سکتے تھے۔ مثلاً قوم نوح، عاد، ثمود، قوم فرعون، اصحاب مدین وغیرہ وغیرہ لیکن بہت سی ایسی اقوام بھی تھیں جن کے حالات کا علم ان کی دسترس سے باہر تھا اور ان سے کہیں دور کے علاقوں میں آباد تھیں اور ان پر بھی انکار حق کی بنا پر عذاب آیا تھا۔ لہٰذا قرآن نے ان کا تفصیل سے ذکر نہیں کیا محض اشارہ کر دیا ہے۔
[12] یہ محاورہ ہے۔ اور اس سے مراد ایسا انکار ہوتا ہے جس میں تعجب بھی شامل ہو جیسے ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں کہ اس نے اپنی انگلی منہ میں دبا لی یا اپنا ہاتھ کانوں پر رکھ لیا اور مجاہد کہتے ہیں کہ ”یہ محاورہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا جو حکم ہوا تھا، اس سے وہ باز رہ“ [بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ ابراہیم]
[13] انبیاء کی دعوت سے مشرکوں کی بے چینی:۔
تمام انبیاء کے مخالفین کا یہی حال رہا ہے اگرچہ وہ بظاہر حق کی مخالفت کرتے اور اس مخالفت میں اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں مگر حق کے دلائل کے سامنے وہ بے بس ہو جاتے ہیں۔ نیز جوں جوں حق کو غلبہ نصیب ہوتا ہے ان کا قلبی سکون رخصت ہوتا جاتا ہے اور شک، اضطراب اور بے چینی بڑھتی جاتی ہے۔ اس طرح داعیان حق کو بے چین کرنے والے خود بھی چین سے محروم ہو جاتے ہیں اور اگر اس کے لفظی معنی کا اعتبار کیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ وہ لوگ رسولوں کو بات بھی نہیں کرنے دیتے تھے اور بات کرتے وقت ان کے منہ کے آگے اپنے ہاتھ رکھ دیتے تھے اور کہتے کہ ہم تمہیں رسول ہی نہیں سمجھتے تو بات کرنے اور سننے کا فائدہ کیا ہے؟

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل