قَالَتۡ رُسُلُہُمۡ اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ یَدۡعُوۡکُمۡ لِیَغۡفِرَ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ وَ یُؤَخِّرَکُمۡ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ قَالُوۡۤا اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَا ؕ تُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَصُدُّوۡنَا عَمَّا کَانَ یَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاۡتُوۡنَا بِسُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۱۰﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
ان کے رسولوں نے کہا کیا اللہ کے بارے میں کوئی شک ہے، جو آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے؟ تمھیں اس لیے بلاتا ہے کہ تمھارے لیے تمھارے کچھ گناہ بخش دے اور تمھیں ایک مقرر مدت تک مہلت دے۔ انھوں نے کہا تم نہیں ہو مگر ہمارے جیسے بشر، تم چاہتے ہو کہ ہمیں اس سے روک دو جس کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے تھے، تو ہمارے پاس کوئی واضح دلیل لاؤ۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
ان کے پیغمبروں نے کہا کیا (تم کو) خدا (کے بارے) میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ وہ تمہیں اس لیے بلاتا ہے کہ تمہارے گناہ بخشے اور (فائدہ پہنچانے کے لیے) ایک مدت مقرر تک تم کو مہلت دے۔ وہ بولے کہ تم تو ہمارے ہی جیسے آدمی ہو۔ تمہارا یہ منشاء ہے کہ جن چیزوں کو ہمارے بڑے پوجتے رہے ہیں ان (کے پوجنے) سے ہم کو بند کر دو تو (اچھا) کوئی کھلی دلیل لاؤ (یعنی معجزہ دکھاؤ)
ترجمہ محمد جوناگڑھی
ان کے رسولوں نے انہیں کہا کہ کیا حق تعالیٰ کے بارے میں تمہیں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے واﻻ ہے وه تو تمہیں اس لئے بلا رہا ہے کہ تمہارے گناه معاف فرما دے، اور ایک مقرر وقت تک تمہیں مہلت عطا فرمائے، انہوں نے کہا کہ تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان خداؤں کی عبادت سے روک دو جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے رہے۔ اچھا تو ہمارے سامنے کوئی کھلی دلیل پیش کرو
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
10۔ رسولوں نے انھیں کہا: ”کیا اس اللہ کے بارے میں شک ہے، جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ وہ تمہیں بلاتا ہے کہ تمہارے گناہ معاف کر دے اور ایک معین عرصہ [14] تک تمہیں مہلت بھی دیتا ہے“ وہ کہنے لگے: ”تم تو ہمارے ہی جیسے انسان ہو، تم چاہتے یہ ہو کہ ہمیں ان معبودوں سے روک دو جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے تھے۔ ہمارے [15] پاس کوئی واضح معجزہ تو لاؤ“
[14] اللہ کے بارے میں شک:۔
مشرکین مکہ کے ہوں یا پہلی قوموں کے یا موجودہ دور کے سب کے سب اس بات کے قائل ضرور ہوتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین یعنی اس ساری کائنات کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے اسی بات کو بنیاد قرار دے کر انبیاء مشرکوں سے یہ سوال کرتے آئے ہیں کہ جب تمام اشیاء کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام اختیار و تصرف بھی اللہ ہی کے پاس ہے پھر تمہارے ان معبودوں کے پاس تصرف و اختیار کہاں سے آگئے؟ لہٰذا تم ان معبودوں کو چھوڑ کر توحید کی طرف آؤ اور اگر تم نے یہ راہ اختیار کر لی تو اللہ تمہارے سب گناہ معاف فرما دے گا اور اگر تم اس کی دعوت پر ایمان نہ لاؤ گے تو کچھ مدت تو تمہیں مہلت دے گا تاکہ تم اپنی حالت پر اچھی طرح غور و فکر کر کے اپنی اصلاح کر لو۔ اور اگر پھر بھی نہ سنبھلے تو تمہیں تباہ کر دے گا۔
[15] پیغمبروں کو مشرکوں کے جواب:۔
انبیاء کی دعوت پر مشرکوں کے جواب بھی ایک ہی جیسے رہے مثلاً ایک یہ کہ تم بھی ہماری طرح کے ایک انسان ہی ہو۔ ہماری طرح کھاتے ہو، پیتے ہو، سوتے ہو، بیوی بچے رکھتے ہو، چلتے پھرتے ہو، بھوک، پیاس، دکھ، بیماری، گرمی، سردی، تمہیں بھی لگتی ہے اور ہر بشری کمزوری تم میں بھی ہماری طرح موجود ہے پھر ہم یہ کیسے مان لیں کہ تمہارے پاس فرشتے آتے ہیں اور ہمکلام ہوتے ہیں اور تم اللہ کے پیغمبر ہو۔ پھر چونکہ ایسے مشرکوں کا غور و فکر دنیاوی مفادات سے آگے نہیں بڑھتا۔ لہٰذا ان کا دوسرا جواب یہ رہا ہے کہ تم ہمیں اپنے باپ دادا کے دین سے ہٹا کر ایک نیا دین پیش کر کے اپنی چودھراہٹ قائم کرنا چاہتے ہو۔ سو ہم اپنے باپ دادا کا دین چھوڑنے کو تیار نہیں، نہ ہی ان معبودوں کو چھوڑ سکتے ہیں جنہیں ہمارے آباء و اجداد پوجتے رہے اور تیسرا جواب یہ رہا ہے کہ ہم تمہاری بات اس وقت تک تسلیم کرنے کو تیار نہیں جب تک تم کوئی حسی معجزہ نہ دکھا دو یا کوئی ایسی کھلی دلیل پیش کرو جس سے ہمیں تمہارے نبوت کے دعویٰ کی صداقت کا یقین حاصل ہو جائے۔