ترجمہ و تفسیر کیلانی — سورۃ هود (11) — آیت 7
وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّ کَانَ عَرۡشُہٗ عَلَی الۡمَآءِ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَ لَئِنۡ قُلۡتَ اِنَّکُمۡ مَّبۡعُوۡثُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِ الۡمَوۡتِ لَیَقُوۡلَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۷﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا، تاکہ وہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے۔ اور یقینا اگر توکہے کہ بے شک تم موت کے بعد اٹھائے جانے والے ہو تو وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، ضرور ہی کہیں گے یہ تو کھلے جادو کے سوا کچھ نہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں بنایا اور (اس وقت) اس کا عرش پانی پر تھا۔ (تمہارے پیدا کرنے سے) مقصود یہ ہے کہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے اور اگر تم کہو کہ تم لوگ مرنے کے بعد (زندہ کرکے) اٹھائے جاؤ گے تو کافر کہہ دیں گے کہ یہ تو کھلا جادو ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اللہ ہی وه ہے جس نے چھ دن میں آسمان وزمین کو پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ وه تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے عمل واﻻ کون ہے، اگر آپ ان سے کہیں کہ تم لوگ مرنے کے بعد اٹھا کھڑے کئے جاؤ گے تو کافر لوگ پلٹ کر جواب دیں گے کہ یہ تو نرا صاف صاف جادو ہی ہے

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

7۔ وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور (اس وقت) اس کا عرش [11] پانی پر تھا۔ تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے اور اگر آپ انھیں کہیں کہ تم موت کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو کافر فوراً کہنے لگتے ہیں کہ ”یہ تو صریح [12] جادو ہے“
[11] مادی اشیاء میں پانی سب سے پہلے پیدا کیا گیا:۔
اس آیت سے اور مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی کی تخلیق زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے ہو چکی تھی یہ پانی کہاں تھا اور آیا یہ پانی وہی پانی ہے جو معروف ہے یا کوئی مائع قسم کا مادہ تھا؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہماری سمجھ سے باہر ہیں اور انھیں سمجھنے کے ہم مکلف بھی نہیں البتہ یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش سے پہلے تو اللہ کا عرش پانی پر تھا اور تخلیق کے بعد یہ عرش سات آسمانوں اور کرسی کے بھی اوپر ہے۔
[12] تخلیق کائنات کا مقصد تخلیق آدم ہے، دنیا دار الامتحان ہے:۔
اس آیت سے کئی حقائق سامنے آتے ہیں مثلاً زمین و آسمان اور کائنات کی دوسری اشیاء کی تخلیق کا مقصد تخلیق آدم ہے اور یہ زمین یہ آسمان یہ سورج یہ چاند یہ ہوائیں یہ فضائیں اس لیے پیدا کی گئیں کہ ان کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا تھا اور تخلیق آدم کا مقصد یہ ہے کہ انسان کا اس دنیا میں امتحان لیا جائے اور امتحان کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اچھے عمل کریں اور کامیاب ہوں اور کچھ برے عمل کریں اور ناکام ہوں، کامیاب اور اچھے لوگوں کو ان کے اچھے اعمال کا اچھا بدلہ دیا جائے اور بد کرداروں کو پوری پوری سزا دی جائے پھر بعض اچھے اعمال یا برے اعمال اپنے پورے پورے بدلہ کے لیے ایک طویل مدت کا تقاضا کرتے ہیں جو اس دنیا میں میسر آنا نا ممکن ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس عالم دنیا کے بعد ایک اور عالم قائم کیا جائے جس میں ہر قسم کے انسانوں کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جا سکے یہ معاد پر ایک دلیل ہوئی علاوہ ازیں اس موجودہ کائنات کا مربوط اور منظم نظام اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ یہ کسی علیم و خبیر ہستی کا پیدا کردہ ہے اور اسی کی مرضی کے مطابق چل رہا ہے نہ ہی یہ ممکن ہے کہ یہ کائنات محض اتفاقات کا نتیجہ ہو اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ یہ سب کچھ ایک کھیل تماشا ہو کیونکہ کھیل تماشہ کے کاموں میں ایسی ہم آہنگی نا ممکن ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ انسان اس دنیا میں بری بھلی جیسی بھی چاہے زندگی گزار کر مر جائے اور اس سے کوئی باز پرس کرنے والا ہی نہ ہو۔ لہٰذا عالم آخرت کا قیام اور مرنے والوں کو دوبارہ زندگی دے کر اٹھا کھڑا کرنا ضروری ہوا اور کافر جو یوم آخرت کے منکر ہیں جب وہ ایسے دلائل سنتے ہیں تو فوراً پکار اٹھتے ہیں کہ یہ بیان تو کھلا ہوا جادو ہے جس نے بہت سے لوگوں کو مرعوب اور مسحور کر لیا ہے مگر ہم پر یہ جادو کار گر نہ ہو گا۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل