اِلَیۡہِ مَرۡجِعُکُمۡ جَمِیۡعًا ؕ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقًّا ؕ اِنَّہٗ یَبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ لِیَجۡزِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالۡقِسۡطِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَہُمۡ شَرَابٌ مِّنۡ حَمِیۡمٍ وَّ عَذَابٌ اَلِیۡمٌۢ بِمَا کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ ﴿۴﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اسی کی طرف تم سب کا لوٹنا ہے، اللہ کا وعدہ ہے سچا۔ بے شک وہی پیدائش شروع کرتا ہے، پھر اسے دوبارہ پیدا کرے گا، تاکہ جولوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، انھیں انصاف کے ساتھ جزا دے اور جن لوگوں نے کفر کیا، ان کے لیے نہایت گرم پانی سے پینا ہے اور دردناک عذاب ہے، اس کے بدلے جو وہ کفر کیا کرتے تھے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اسی کے پاس تم سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ خدا کا وعدہ سچا ہے۔ وہی خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا ہے۔ پھر وہی اس کو دوبارہ پیدا کرے گا تاکہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے۔ اور جو کافر ہیں ان کے لیے پینے کو نہایت گرم پانی اور درد دینے والا عذاب ہوگا کیوں کہ (خدا سے) انکار کرتے تھے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
تم سب کو اللہ ہی کے پاس جانا ہے، اللہ نے سچا وعده کر رکھا ہے۔ بیشک وہی پہلی بار بھی پیدا کرتا ہے پھر وہی دوباره بھی پیدا کرے گا تاکہ ایسے لوگوں کو جو کہ ایمان ﻻئے اور انہوں نے نیک کام کیے انصاف کے ساتھ جزا دے اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے واسطے کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا اور دردناک عذاب ہوگا ان کے کفر کی وجہ سے
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
4۔ تمہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے، وہی خلقت کی ابتدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ [6] پیدا کرے گا تاکہ ان لوگوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے جو ایمان لائے اور جو نیک عمل کرتے رہے۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے کھولتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہو گا۔ یہ اس انکار حق کا بدلہ ہے جو وہ کیا کرتے تھے
[6] اخروی زندگی کا مقصد:۔
پہلی دلیل اللہ کے مالک و مختار ہونے سے متعلق تھی اور یہ دوسری دلیل دوسری زندگی کے حشر و نشر سے متعلق ہے اور وہ دلیل یہ ہے کہ جس اللہ نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے وہ تمہیں مرنے کے بعد دوبارہ بھی پیدا کر سکتا ہے بلکہ دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے پہلے کی نسبت زیادہ آسان ہے اور تمہیں دوبارہ پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس دار فانی میں جس کسی نے ایمان لا کر اچھے کام کیے ہوں انہیں اس کا بدلہ دیا جائے اور جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہو انہیں اس کا بدلہ دیا جائے کیونکہ اس دنیا میں نہ تو انسان کے ایمان کا بدلہ دیا جانا ضروری ہے اور نہ ہی یہ دنیا کی زندگی اتنی طویل ہے کہ اس میں اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جا سکے لہٰذا دوسری زندگی کا قیام ناگزیر ہے۔