ترجمہ و تفسیر القرآن الکریم (عبدالسلام بھٹوی) — سورۃ الأحزاب (33) — آیت 19
اَشِحَّۃً عَلَیۡکُمۡ ۚۖ فَاِذَا جَآءَ الۡخَوۡفُ رَاَیۡتَہُمۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَیۡکَ تَدُوۡرُ اَعۡیُنُہُمۡ کَالَّذِیۡ یُغۡشٰی عَلَیۡہِ مِنَ الۡمَوۡتِ ۚ فَاِذَا ذَہَبَ الۡخَوۡفُ سَلَقُوۡکُمۡ بِاَلۡسِنَۃٍ حِدَادٍ اَشِحَّۃً عَلَی الۡخَیۡرِ ؕ اُولٰٓئِکَ لَمۡ یُؤۡمِنُوۡا فَاَحۡبَطَ اللّٰہُ اَعۡمَالَہُمۡ ؕ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرًا ﴿۱۹﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
تمھارے بارے میں سخت بخیل ہیں، پس جب خوف آپہنچے تو توُانھیں دیکھے گا کہ تیری طرف ایسے دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں اس شخص کی طرح گھومتی ہیں جس پر موت کی غشی طاری کی جا رہی ہو، پھر جب خوف جاتا رہے تو تمھیں تیز زبانوں کے ساتھ تکلیف دیں گے، اس حال میں کہ مال کے سخت حریص ہیں۔ یہ لوگ ایمان نہیں لائے تو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دیے اور یہ ہمیشہ سے اللہ پر بہت آسان ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
(یہ اس لئے کہ) تمہارے بارے میں بخل کرتے ہیں۔ پھر جب ڈر (کا وقت) آئے تو تم ان کو دیکھو کہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں (اور) اُن کی آنکھیں (اسی طرح) پھر رہی ہیں جیسے کسی کو موت سے غشی آرہی ہو۔ پھر جب خوف جاتا رہے تو تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے بارے میں زبان درازی کریں اور مال میں بخل کریں۔ یہ لوگ (حقیقت میں) ایمان لائے ہی نہ تھے تو خدا نے ان کے اعمال برباد کر دیئے۔ اور یہ خدا کو آسان تھا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
تمہاری مدد میں (پورے) بخیل ہیں، پھر جب خوف ودہشت کا موقعہ آجائے تو آپ انہیں دیکھیں گے کہ آپ کی طرف نظریں جما دیتے ہیں اور ان کی انکھیں اس طرح گھومتی ہیں جیسے اس شخص کی جس پر موت کی غشی طاری ہو۔ پھر جب خوف جاتا رہتا ہے تو تم پر اپنی تیز زبانوں سے بڑی باتیں بناتے ہیں مال کے بڑے ہی حریص ہیں، یہ ایمان ﻻئے ہی نہیں ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام اعمال نابود کر دیئے ہیں، اور اللہ تعالیٰ پر یہ بہت ہی آسان ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 19){ اَشِحَّةً عَلَيْكُمْ فَاِذَا جَآءَ الْخَوْفُ …: اَشِحَّةً شَحِيْحٌ} کی جمع ہے، سخت حرص اور بخل کے مجموعے کو {اَلشُّحُّ} کہتے ہیں۔ { حِدَادٍ } جمع ہے {حَدِيْدٌ} کی، تیز۔ { سَلَقُوْكُمْ سَلَقَ يَسْلُقُ} (ن) {سَلَقَهُ بِالسَّوْطِ} یعنی اس نے اسے کوڑے سے اتنا مارا کہ کھال اتار دی۔ {سَلَقَ اللَّحْمَ عَنِ الْعَظْمِ} ہڈی سے گوشت اتار دیا۔ جب کوئی کسی کو بہت سخت بات کہے تو کہتے ہیں: {سَلَقَهُ بِالْكَلَامِ۔ الْخَيْرِ } سے مراد مال غنیمت ہے۔ مولانا محمد جونا گڑھی رحمہ اللہ نے اس مقام پر تفسیر ابن کثیر کا جو اردو ترجمہ کیا ہے وہ بہت پر لطف ہے، لکھتے ہیں: یہ بڑے بخیل ہیں، نہ ان سے تمھیں کوئی مدد پہنچے، نہ ان کے دل میں تمھاری کوئی ہمددری، نہ مال غنیمت میں تمھارے حصے پر یہ خوش۔ خوف کے وقت تو ان نامردوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے ہیں، آنکھیں چھاچھ پانی ہو جاتی ہیں، مایوسانہ نگاہوں سے تکنے لگتے ہیں، لیکن خوف دور ہوا کہ انھوں نے لمبی لمبی زبانیں نکال ڈالیں اور بڑھے چڑھے دعوے کرنے لگے اور شجاعت و مردمی کا دم بھرنے لگے اور مال غنیمت پر بے طرح گرنے لگے۔ ہمیں دو، ہمیں دو کا غل مچا دیتے ہیں، ہم آپ کے ساتھی ہیں، ہم نے جنگی خدمات انجام دی ہیں، ہمارا حصہ ہے اور جنگ کے وقت صورتیں بھی نہیں دکھاتے، بھاگتوں کے آگے اور لڑتوں کے پیچھے رہا کرتے ہیں۔ دونوں عیب جس میں جمع ہوں اس جیسا بے خیر انسان کون ہو گا؟ امن کے وقت عیاری، بد خلقی، بد زبانی اور لڑائی کے وقت نامردی، روباہ بازی اور زنانہ پن۔ لڑائی کے وقت حائضہ عورتوں کی طرح الگ اور یکسو اور مال لینے کے وقت گدھوں کی طرح ڈھینچو ڈھینچو۔ اللہ فرماتا ہے، بات یہ ہے کہ ان کے دل شروع ہی سے ایمان سے خالی ہیں، اس لیے ان کے اعمال بھی اکارت ہیں۔ اللہ پر یہ آسان ہے۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل