وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِرُسُلِہِمۡ لَنُخۡرِجَنَّکُمۡ مِّنۡ اَرۡضِنَاۤ اَوۡ لَتَعُوۡدُنَّ فِیۡ مِلَّتِنَا ؕ فَاَوۡحٰۤی اِلَیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ لَنُہۡلِکَنَّ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۱۳﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، اپنے رسولوں سے کہا ہم ہر صورت تمھیں اپنی زمین سے نکال دیں گے، یا لازماً تم ہماری ملت میں واپس آئو گے، تو ان کے رب نے ان کی طرف وحی کی کہ یقینا ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کریں گے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور جو کافر تھے انہوں نے اپنے پیغمبروں سے کہا کہ (یا تو) ہم تم کو اپنے ملک سے باہر نکال دیں گے یا ہمارے مذہب میں داخل ہو جاؤ۔ تو پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو ہلاک کر دیں گے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے یا تم پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ۔ تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ﻇالموں کو ہی غارت کر دیں گے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت13) ➊ {وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَاۤ: } کفار نے اپنی کثرت اور اہل ایمان کی قلت دیکھ کر اپنے رسولوں کو یہ دھمکی دی کہ تمھارے سامنے صرف دو راستے ہیں یا تو ہم تمھیں اپنی زمین سے نکال دیں گے، یا پھر تم اسلام چھوڑ کر واپس آ جاؤ گے، جیسا کہ اس وقت ہند کے کافر مسلمانوں کو قتل یا ارتداد یا نکل جانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
➋ { اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِيْ مِلَّتِنَا:} ”یا تم ہماری ملت میں واپس آؤ گے“ کفار کا یہ کہنا ان کے اپنے گمان کے مطابق تھا، ورنہ یہ مطلب نہیں کہ انبیاء علیھم السلام نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے اپنی گمراہ قوم کے دین کی پیروی کرتے تھے، بلکہ بات یہ تھی کہ نبوت سے پہلے انبیاء علیھم السلام ان کے بتوں کے معاملہ میں خاموش رہتے تھے، جس پر انھوں نے بطور خود یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ ان کے مذہب پر ہیں، یا اس {” لَتَعُوْدُنَّ “} کا معنی {” لَتَصِيْرُنَّ “} ہے، یعنی تم ہماری ملت میں آ جاؤ گے۔ (دیکھیے اعراف: ۸۸) یا خطاب ان لوگوں سے ہے جو کفر کو چھوڑ کر پیغمبروں پر ایمان لے آئے تھے۔ (رازی)
➋ { اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِيْ مِلَّتِنَا:} ”یا تم ہماری ملت میں واپس آؤ گے“ کفار کا یہ کہنا ان کے اپنے گمان کے مطابق تھا، ورنہ یہ مطلب نہیں کہ انبیاء علیھم السلام نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے اپنی گمراہ قوم کے دین کی پیروی کرتے تھے، بلکہ بات یہ تھی کہ نبوت سے پہلے انبیاء علیھم السلام ان کے بتوں کے معاملہ میں خاموش رہتے تھے، جس پر انھوں نے بطور خود یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ ان کے مذہب پر ہیں، یا اس {” لَتَعُوْدُنَّ “} کا معنی {” لَتَصِيْرُنَّ “} ہے، یعنی تم ہماری ملت میں آ جاؤ گے۔ (دیکھیے اعراف: ۸۸) یا خطاب ان لوگوں سے ہے جو کفر کو چھوڑ کر پیغمبروں پر ایمان لے آئے تھے۔ (رازی)